آپ مانیں یا نہ مانیں‘ دورِ حاضر کی بیداری کی تمام تحریکیں احیائے علوم سے لے کر آزادیٔ فکر‘ نمائندگی‘ جمہوریتِ فرد اور معاشرے کے قیام کے لیے مغربی دنیا میں پیدا ہوئیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی روشنیاں ہر سمت پھیلتی چلی گئیں۔ اس سے پہلے یونان میں فلسفے‘ ادب‘ شاعری‘ تاریخ‘ اخلاقیات اور سیاسی نظام کی تشکیل اور انسانی ترقی کے تصورات کی آبیاری ہوئی۔ وہ اب مغربی تہذیب کی اساس خیال کیے جاتے ہیں۔ یونانی تہذیب اور ورثے کی پہلی پہچان تو اسلامی تہذیب کے عروج کے زمانے میں ہوئی۔ تب مدرسے وہ نہیں تھے جو آج ہیں۔ وہ ان وقتوں کی جامعات تھے۔ وہاں سب کچھ پڑھایا جاتا تھا۔ جن کلیدی مضامین کو دورِ حاضر کے نصابوں میں شامل کیا گیا ہے ان کی بنیاد بغداد‘ مراکش اور اندلس کی جامعات میں رکھی گئی تھی۔ یونانی فلسفے‘ طب اور ادب کو مغرب میں متعارف کرانے میں مسلم مفکرین نے اہم کردار اداکیا۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ ہزاروں سالوں سے انسانی تہذیبوں کے فکری‘ ادبی اور ثقافتی اثرات کسی سرحد کے پابند نہیں۔ کبھی بھی نہیں تھے‘ جب سے انسانوں نے دریاؤں‘ پہاڑوں اور سمندروں کو مسخر کرنا سیکھ لیا۔ آج کی تہذیب میں سب کا کچھ نہ کچھ حصہ تو ضرور ہے مگر گزشتہ 400 برسوں کے انقلابات یورپ اور امریکہ کی علمی‘ صنعتی اور سائنسی ترقی کا عکس ہیں۔ قومیت پرستی اور اس کی بنیاد پر قومی ریاستوں کی آزادی کی تحریکیں بھی مغربی علم اور سیاست سے جڑی ہوئی تھیں۔ کسی بھی نوآبادیاتی خطے میں شاید ہی کوئی آزادی کی تحریک کا نمایاں رہنما ہو جس نے یورپی جامعات میں تعلیم نہ حاصل کی ہو۔
اس بات سے میں اتفاق کرتا ہوں کہ نوآبادیاتی سرکاروں نے مقامی حکمرانوں کو بے دخل کرکے جب نئی سلطنتیں قائم کیں تو مقامی زبانوں‘ ادب‘ فلسفوں اور تہذیبوں کو کمزور کرنے اور بے معنی بنانے میں کوئی کسر نہ چھوری۔ وہ مغربی فکر اور تہذیب کی روایات کو کم از کم ایک ایسے طبقے تک پھیلانا چاہتے تھے جو نوآبادیاتی لوٹ مار میں ان کا دست و بازو بن سکے۔ تمہید زیادہ طویل نہیں کرنا چاہتا‘ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں کے لوگوں‘ حکمرانوں اور مغربی گروہوں میں رابطوں اور تعلق کی کہانی بہت پرانی ہے۔ نوآبادیاتی دور میں یہ کئی گنا بڑھی اور موجودہ عالمی نظام کی بنیاد بھی اسی زمانے میں پڑی۔ آج کی دنیا تو یکسر بدل چکی ہے۔ ہم تبدیلی کی راہ میں جتنی رکاوٹیں ڈالیں‘ مزاحمت کریں‘ پابندیاں لگائیں اور خلا میں روشنی کی رفتار سے سفر کرتے خبروں کا گلا گھونٹیں‘ ان پر طاقت کی مضبوط زنجیر ڈالنا اب آسان نہیں رہا۔ کسی طاقتور ترین ملک کے لیے بھی ظلم‘ بربریت‘ غزہ میں نسل کشی اور بڑھتی ہوئی ناانصافیوں کے خلاف اٹھتی آوازوں کو دبانا ممکن نہیں۔
ہم نے تاریخ میں دیکھا ہے کہ ہر دور میں انقلاب سے انقلابوں اور ایک تحریک سے دیگر تحریکوں نے جنم لیا اور طاقت پکڑی۔ گزشتہ ایک صدی سے فلسطینیوں کی تحریکِ آزادی‘ جس قدر خون اور قومی جذبے سے یہ پروان چڑھی ہے‘ اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ جنوبی افریقہ میں افریقی قومی کانگریس کی نسلی امتیاز اور سفید فام اقلیتی حکومت کے خلاف تحریک کا رنگ فلسطینیوں سے ملتا جلتا تھا۔ آج جنوبی افریقہ ہی غزہ میں نسل کشی کا مقدمہ عالمی عدالتوں میں لڑ رہا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ جرأت اور آزادی کبھی نصیب نہ ہو گی کہ یہ یرغمال ہیں۔ اس کی وجہ وہ لوٹی ہوئی دولت ہے جو مغرب کے خزانوں میں جمع ہے۔ صرف ایک نے جرأت دکھائی تھی کہ ''ہم کوئی غلام تو نہیں‘‘ اور آج اس کا حشر ہم دیکھ رہے ہیں۔ یہ بھی تاریخ سے بڑے سبق کی بات ہے کہ جس شخص یا قوم کی روح اور خون میں ''ہم کوئی غلام تو نہیں‘‘ کا جذبہ سرایت کر گیا وہ ہمیشہ کے لیے آزاد ہو گئے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ فلسطینی جہاں بھی ہو گا‘ جس حالت میں بھی ہوگا وہ ہمیشہ آزادی کی نعمت سے سرفراز رہے گا۔ یہ جذبہ فکری کیفیت ہے اور سب افکار اور فلسفوں سے عظیم تر بھی ہے۔
بہارِ عرب کا آغاز 17 دسمبر 2010ء کو ہوا۔ دنیائے عرب کے نوجوانوں نے آزادی کا جھنڈا بلند کیا اور وہاں کی موروثی خاندانی حکومتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ کئی اس سیلاب کی نذر ہو گئے مگر کچھ بیرونی طاقتوں کی مداخلت‘ یہاں تک کہ اقتدار بچانے کے لیے غیرملکی قوموں کی اعانت حاصل کرکے اقتدار کی کرسی سے چمٹے ہوئے ہیں۔ شام‘ الجزائر اور تیونس میں پرانے حربے اور پرانی طاقتوں کے سہارے آزادی کو ابھی تک دبایا ہوا ہے۔
ہمارے ہاں بھی '' تبدیلی‘‘ کی تحریک کے تانے بانے دنیا کے دیگر حصوں میں تحریکوں سے فکری طور پر ملتے ہیں۔ شام میں تو موروثی بادشاہ نے ہار ماننے سے انکار کر دیا اور آج اس کے نتیجے میں اس ملک پر ایرانی‘ امریکی اور ترک فوجوں نے اڈے بنائے ہوئے ہیں۔ ریاستی اقتدار دوسروں کے حوالے کر دیا مگر عوامی حاکمیت کا نظریہ نہ قبول کیا۔ مصر‘ تیونس اور پاکستان میں عوام نے موروثیوں کو مسترد کر دیا۔ سلطنت نے جوابی کارروائی کرکے وہی کیا جو ان ممالک میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ الجزائر میں 20 سال سے ریاستی طاقت کو عوامی نمائندوں کے خلاف بے رحمی سے استعمال کیا جاتا رہا۔ عجیب بات یہ ہے کہ وہاں کی سلطنت کا خون بہانے کا جواز وہی ہے جو فرانسیسیوں کا تھا کہ الجزائر اب فرانس بن چکا ہے‘ اس کو وہ مٹتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔ مطلب یہ ہوا کہ آپ کے خود ساختہ ترقی پسندی‘ آزاد روی کے معیار کو قائم رکھنے کے لیے مخلوقِ خدا کا قتلِ عام جائز ہے۔ ہمارے ملکوں میں کئی زندہ آتش فشاں ہیں جن کا آسمانوں کی طرف اٹھتا دھواں مجھے تو صاف دکھائی دے رہا ہے جو کبھی اُبل کر حکمرانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتاہے۔ اس لیے انہوں نے بندوبست پہلے ہی کر رکھا ہے۔ دولت‘ گھر اور کاروبار باہر اور جہاز پہلے سے تیار کھڑے ہیں۔ ویسے ابھی کوئی جلدی نہیں کہ ظالموں کے لیے مزید مہلت ہے۔
بات کہیں دور چلی گئی۔ امریکی جامعات میں اُٹھتی طلبہ تحریک نے امریکی اور یورپی حکمرانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ کہتے ہوئے کوئی مبالغہ آمیزی نہیں کر رہا کہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور اسرائیل کے انسانیت کے خلاف جرائم کی داستان تو بہت لمبی ہے جو موجودہ تحریک کے ساتھ کھل کر سامنے آرہی ہے‘ مگر امریکہ اور یورپی ممالک کی کھلی اعانت سے ان کے آزادی‘ انسانیت اور لبرل ازم کے فلسفوں کا تضاد بھی کھل کر سامنے آگیا ہے۔ اس کا دائرہ بھی ذاتی مفادات تک اس طرح محدود ہے جس طرح ہماری جمہوریت کا موروثی خاندانوں تک۔ آزادی ایک ایسا جذبہ اور ایسی فکر ہے جسے طاقت کے زور پر محدود نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کے طاقتور ممالک کی مخالفت اور اس کے خلاف اُٹھتی نوجوان تحریک میرے خیال میں نہ زمانی ہے اور نہ مکانی۔ اس کا اثر ہر طرف پھیلے گا کہ گزشتہ 40 برسوں میں ترقی‘ عالمگیریت اور استحکام کے نام پر جو حکومتیں اور سلطنتیں وجود میں آئی ہیں‘ انہوں نے لوٹ کھسوٹ‘ منافرت‘ مظالم اور ناانصافیوں کو اقتدار کے تحفظ اور تسلسل کے لیے ضروری سمجھا ہے۔ بہت خوبصورت شماریات سامنے رکھے جاتے ہیں کہ قومی آمدنی‘ برآمدات اور دیگر شعبوں میں ہم آگے نکل گئے ہیں۔ ایسی حکومتوں کے مکروہ چہروں کو درباریوں اور میڈیا کے ذریعے ڈھانپ دیا جاتا ہے کہ اپنے عوام کے ساتھ ان کا کیسا سلوک اور ان کی جائزیت کی بنیاد کیا ہے۔ بات آگے بڑھے گی‘ تحریکیں کبھی ختم نہیں ہوں گی‘ دنیا بھر میں بیداری کی نئی لہر سر اٹھا چکی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو بھی اپنی غلامی اور ہماری آزادی کا حساب دینا ہوگا۔ جان لیں کہ تاریخ کا پہیہ آگے کو چلتا ہے‘ اور تبدیل نہ ہونے والوں کو روند ڈالتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved