تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     03-05-2024

سیدنا حمزہؓ … اَز معین الحق‘ معینِ بے نوا

سیدنا حمزہؓ مردانہ وجاہت کا بے مثال شاہکارِ قدرتِ کاملہ تھے۔ وجیہ پیشانی‘ ہلکا تیز رفتار جسم‘ کنیت ابو عمارہ۔ جسمانی کسرت‘ بلا کی شمشیر زنی‘ تاک کر تیر اندازی اور شیر کا شکار آپؓ کا روزانہ کا معمول رہا۔ شہیدِ اعظم کے نسب کا اعجاز یہ تھا کہ آپ محسنِ انسانیت حضرت محمدﷺ کے رضاعی بھائی‘ عّم الرسول اور حضرت عبدالمطلب آپؓ کے والدِ گرامی تھے۔ ہجری ماہِ شوال آپ کا مہینۂ شہادت ہے۔ آپؓ کی والدہ ماجدہ ہالہ بنت وہب رسولِ خداﷺ کی والدہ محترمہ حضرت سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کی چچا زاد بہن تھیں۔ آپؓ کی تاریخ شہادت 30 مارچ 625 عیسوی سال اور شجرۂ نسب حمزہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدالمناف بن قصی ہے۔ آپؓ نے مکہ سے مدینہ تک‘ حضرت محمد مصطفیﷺ کی بعثت کے 13ویں سال میں عشاقِ رسولﷺ کے ہمراہ ہجرت کی۔
اسی نسبت سے اس ہفتے آستانہ غوثیہ گولڑہ میں پیر معین الحق صاحب نے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کے یومِ شہادت پر ایک جاں فضا تقریب منعقد کی جس میں گولڑہ کے درگاہی قوالوں نے پیر معین الحق صاحب کا روح کو چھو لینے والا سلامِ عقیدت اپنے مخصوص انداز اور صوفیانہ رنگ میں پیش کیا۔
بر سبیلِ تذکرہ عشق سے یاد آیا کہ آغا عبدالکریم شورش کی طرح میرا گولڑہ شریف سے 1970ء کے عشرے کا دیرینہ تعلقِ خاطر چلا آتا ہے۔ یہ رشتۂ احترام شاہ عبدالحق رحمتہ اللہ علیہ المعروف چھوٹے لالہ جی کے پاس نشست سے شروع ہوا۔ جلد ہی یہ تعلق پسرانِ چھوٹے لالہ جی‘ دونوں برادران پیر معین الحق صاحب‘ پیر قطب الحق صاحب اور پسرانِ بڑے لالہ جی‘ پیر نصیرالدین نصیر (مرحوم)‘ پیر جلال الدین(مرحوم) اور پیر حسام الدین صاحب تک پہنچ آیا۔ باکمال لفظی بندشوں‘ لسانی ترکیبات‘ ادب و محبت سے لبریز جذبات سے بھرپور یہ منقبت دل کی گہرائیوں میں اُترتی چلی گئی! میری فرمائش پر پیر معین الحق صاحب نے مجھے تحریری منقبت بھجوائی جو آپ سے شیئر کرتا ہوں:
وفا کے پیکر‘ عطا کے مظہر‘ اُحد کے والی جناب حمزہؓ
ہیں زینت ِمسندِ شہادت‘ بہ شانِ عالی جناب حمزہؓ
تو مونس جان ہر ولی کا‘ اسد خدا کا‘ اسد نبیؐ کا
علیؓ کے چچا‘ ہے ذات تیری ابوالمعالی جناب حمزہؓ
یہ رفعتِ شان ہے تری کہ سلام کرتے ہیں آ کے قدسی
شہانِ عالم بھی تیرے در کے بنے سوالی جناب حمزہؓ
زہے یہ اوجِ سخا کہ تو نے بھرے ہیں دامن ہر اک گدا کے
نہیں گیا آج تک ترے در سے کوئی خالی جناب حمزہؓ
وہ ہاشمی خون وہ جوانی وہ ہر جگہ تیری جانفشانی ہے
خوش لقب سرورِ شہیداں ترا مثالی جناب حمزہؓ
نہ کیوں ترا نام لوں محبت سے ہر گھڑی اے امیرِ طیبہ
معین پر ہے کرم نوازی تری نرالی جناب حمزہؓ
27 جولائی 2013ء کو اسی صفحے پر برادرم خورشید ندیم نے ''کچھ مزید آنسو‘‘ میں ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا۔ قندِ مکرر کے طور پر آئیے11سال پیچھے چلتے ہیں۔ ملک صاحب لکھتے ہیں: ''چند برس پہلے عمرے کے ایک سفر میں ڈاکٹر بابر اعوان اور چند دوسرے احباب میرے ہم سفر تھے۔ صدرِ مملکت بھی یہاں موجود تھے۔ بابرا اعوان چاہتے تو سرکاری پروٹوکول سے فائدہ اُٹھاتے اور صدر کے ہم رکاب ہو جاتے کہ وہ ان کے وفد کا حصہ اور وفاقی وزیر قانون تھے۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ وہ شب بھر بیت الحرام میں ہمارے ساتھ رہے۔ طواف‘ نماز اور دعا و مناجات۔ جب مدینہ پہنچے تو وہاں بھی ہم ایک ساتھ تھے۔ میں وہ منظر کبھی نہیں بھولتا جب ہم حجرہ عائشہؓ کے پاس کھڑے تھے‘ جہاں اللہ کے آخری رسولﷺ محو آرام ہیں۔ بابر اعوان نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنسو الفاظ پر سبقت لے گئے۔ میں نے انہیں بلک بلک کرروتے دیکھا۔ میں محبت و عقیدت کی اس فضا میں کھڑا سوچ رہا تھا کہ یہی وہ مقام ہے جس کے بارے میں کہا گیا: نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا‘‘۔
سفرِ حجاز اور شہرِ نبی کریمﷺ کے اس روح پرور تذکرے نے مجھے اپنا تازہ عمرہ یاد کروا دیا جس میں رومیِ کشمیر میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ کے خانوادہ سے کھڑی شریف کے سجادہ نشین میاں عمر بخش میرے ساتھ تھے۔ عشاقِ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے لیے یہ دہرانا ضروری ہو گا کہ31مشرکوں کو واصلِ جہنم کرنے کے بعد اللہ اور اُس کے آخری رسولﷺ کے شیر‘ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نے جبلِ اُحد کے دامن میں رتبۂ شہادت کو گلے لگایا۔ اس لیے میری جب بھی مدینہ حاضری ہوتی ہے امام الانبیاءﷺ کے نقشِ پا کی باسعادت پیروی میں رات دیر تک سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے مزار پہ بیٹھ کر گریہ کرتا ہوں۔ میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ میرے آنسو اور دل کا دھڑکنا میرے قابومیں نہیں ۔
اس بار بھی میں اور میاں عمر بخش دیر تک سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی مرقد منورہ کی حاضری میں بیٹھے رہے۔ اس دوران شُرطوں اور سکیورٹی والوں نے ہمیشہ کی طرح نہ مجھے اُٹھنے کا حکم دیا اور نہ ہی میری کیفیت پہ کوئی اعتراض کیا۔ اس دوران چاند اور تارے پوری آب و تاب سے چمکنے لگے‘ جن کی روشنی میں مجھے میاں عمر بخش نے اگلی منزل کو چلنے کے لیے آمادہ کیا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انتہائی مشکل پتھروں کے عین اوپر تشریف فرما ہوکر آ پ رضی اللہ عنہ نے اُحد میں کفارکا حملہ بہترین حربی حکمتِ عملی سے ناکام بنایا۔ یہیں آپ رضی اللہ عنہ کے اصحاب نے تاجِ شہادت اپنے سُرخرو سَروں پر سجانے کا شرف حاصل کیا اور باقی غزوۂ اُحد کے غازی ٹھہرے۔ حضرت پیر مہر علی شاہؒ صاحب کی چوتھی اور پانچویں پیڑی میں علم الکلام کا تسلسل جاری ہے۔ کیا شاعری اور کیا منصب فکر و ارشاد۔ میرے بیٹے بیرسٹر عبداللہ بابر اعوان اپنے ہم عمر حسنی سیّدوں سے رابطہ اور پیر صاحبان سے واستہ رکھتے ہیں۔ ہاں ایک اور شاہکار منقبت جو پیر معین الحق صاحب کی تخلیق کردہ سہ لاثانی کلام ہے۔ اُس کے چار اشعار پیش ہیں:
السّلام اے اُمی و اُستادِ کُل
السّلام اے صاحبِ ارشادِ کُل
السّلام اے آنکہِ اَبر رحمتی
السّلام اے آنکہِ کانِ نعمتی
السّلام اے نورِ چشمِ مصطفیﷺ
السّلام اے فاطمہؓ شانِ خدا
السّلام اے حضرتِ خیرُ النساء
اَز معین الحق‘ معینِ بے نوا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved