ہماری مطالعۂ پاکستان کی کتاب میں درج تھا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی ستر فیصد آبادی زراعت سے منسلک ہے۔ وقت کے ساتھ بہت سے لوگ اپنے کھیتی باڑی چھوڑ کر دوسرے شعبوں کی طرف چلے گئے لیکن اب بھی ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ زراعت کے شعبے سے منسلک ہیں۔ جن کے پاس تھوڑی بہت زمین ہو وہ اپنے لیے اناج اُگا لیتے ہیں اور بہت سے لوگ بڑے زمینداروں کے کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں تاکہ اپنے لیے اناج کا بندو بست کر سکیں۔ جب کوئی فصل تیار ہوتی ہے تو کاشتکار اسے اوپن مارکیٹ میں بھی بیچتا ہے اور حکومت بھی اسے خرید کر عوام کے لیے دستیاب بناتی ہے۔ گندم دنیا میں سب سے زیادہ اُگائی جانے والی فصلوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ انسانی غذا کا بنیادی جزوہے۔ اس کو پیس کر آٹا بنایا جاتا ہے۔ گندم سے بسکٹ‘ ڈبل روٹی اور دلیہ بھی تیار ہوتا ہے۔ اس کی فصل کی باقیات کو جانوروں کے چارے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال نوے لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر گندم کاشت ہوتی ہے اور اس کی مجموعی پیداوار 25ملین ٹن سے زائد رہتی ہے۔ رواں سال گندم کی مجموعی پیداوار کا تخمینہ 28ملین ٹن لگایا گیا ہے۔ گندم کی فصل کپاس اور دھان کی کٹائی کے بعد اکتوبر اور نومبر میں کاشت کی جاتی ہے اور مارچ اور اپریل میں جب یہ پک کر تیار ہوتی ہے تو اس کو کاٹ لیا جاتا ہے۔ دھوپ اس فصل کے لیے بہت مفید ہے۔ گندم کی اچھی فصل کے لیے بروقت پانی‘ کھاد‘ جڑی بوٹیوں اور کیڑوں سے تحفظ کے لیے سپرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بروقت سپرے نہ ہونے کے باعث گندم کی فصل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
حکومت ہر سال گندم کاشت کی ساتھ ہی اس کی امدادی قیمت بھی مقرر کر دیتی ہے۔ اس سیزن بھی ایسا ہی کیا گیا لیکن آج گندم سرکار کی مقرر کردہ امدادی قیمت پر فروخت ہونے کے بجائے ٹکے ٹوکری ہے۔ ڈیلر اور فلور ملز مالکان کاشتکاروں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے اکثر و بیشتر گندم درآمد بھی کرنا پڑتی ہے‘ لیکن جب ملک میں ہی گندم کی سرپلس پیدوار ہو تو پہلے مقامی کاشتکاروں سے گندم خریدی جانی چاہیے۔ رواں برس ضرورت سے زیادہ گندم درآمد کرنے کی وجہ سے اب مقامی گندم اور کاشتکار منڈیوں میں رُل رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اعلان کردہ امدادی قیمت پر کاشتکاروں سے گندم خریدے۔ لیکن بدقسمتی سے کاشتکار حکومت کے کسی شمار میں نہیں۔ گزشتہ دو برس سے ملک جس سیاسی عدم استحکام کا شکار چلا آ رہا ہے اس کی وجہ سے عوام کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس غلط حکومتی منصوبہ بندی کی وجہ سے ایک نیا بحران سر اٹھا چکا ہے جس کی وجہ سے کسان سراپا احتجاج ہیں۔ کاشتکاروں کو اس وقت دہرے مسائل کا سامنا ہے۔ ایک طرف حکومت اُن سے اعلان کردہ امدادی قیمت پر گندم نہیں خرید رہی اور دوسرا بے موسمی بارشوں کی وجہ سے ان کی فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔
کسان اس حکومتی رویے کے خلاف پنجاب کے مختلف اضلاع میں احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب پنجاب کے ہر ضلع اور تحصیل میں احتجاج ہو گا۔ کسان حکومت سے نالاں ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کو ان کا حق دیا جائے۔ حکومت کے لیے یہ احتجاج مشکل ثابت ہوگا۔ اگر اتنی بڑی تعداد میں کسان حکومت سے ناراض ہو گئے تو حکمرانواں کے لیے گورننس مشکل ہو جائے گی۔ اب تک تو سب کچھ ان کو پلیٹ میں رکھا ہوا ملا ہے لیکن اسے یونہی برقرار رکھنا آسان نہیں ہے۔ حکومت کو اس سب کی پہلے سے منصوبہ بندی کرکے رکھنی چاہیے کہ ملک کی اناج کی کُل ضروریات کتنی ہیں‘ کتنی گندم سٹوروں میں موجود ہے اور مزید کتنی گندم خریدنے کی ضرورت ہے۔ اب ساری جمع تفریق کے بعد یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ حکومتی گوداموں میں تو پہلے سے درآمد شدہ گندم وافر مقدار میں موجود ہے‘ مقامی گندم خریدنے کی ضرورت نہیں۔ جب حکومت نے گندم خریدنی ہی نہیں تھی تو اس سیزن کسانوں کو زیادہ سے زیادہ گندم پیدا کرنے کی ترغیب کیوں دی گئی۔
رواں ہفتے جب اس ناقص حکومتی منصوبہ بندی اور کسانوں کے استحصال کے خلاف کاشتکاروں نے پنجاب اسمبلی کے باہر احتجاج کی کوشش کی تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ کسان گندم کے سٹے ہاتھوں میں اٹھائے پُر امن احتجاج کررہے تھے ‘ لیکن پولیس نے ان پر دھاوا بول دیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ پولیس میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ یہ عوام کی خدمت کے بجائے اُن پر تشدد کی پالیسی پر کیوں گامزن ہو چکے ہیں؟ یہ معاملہ یہیں نہیں رُکا بلکہ پنجاب کے دیگر اضلاع میں بھی جہاں جہاں گندم کے حوالے سے حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کے خلاف احتجاج کیا گیا وہاں وہاں احتجاج کرنے والے کسان رہنماؤں کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ یہ ایک افسوسناک امر ہے۔ کسان بورڈ پنجاب کے سربراہ اور مرکزی صدر کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ حکومت گندم خرید نہیں رہی‘ اوپن مارکیٹ میں بہت کم ریٹ مل رہا ہے جس سے کسانوں کو شدید مالی نقصان ہو رہا ہے۔ یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ حکومت نے رواں سال گندم کا خریداری ہدف گزشتہ برس کے مقابلے میں نصف کر دیا ہے۔ اگلے روز ایک وفاقی وزیر یہ مدعا نگران حکومت پر ڈال کر بری الذمہ ہو گئے۔ ہمارے ملک میں دوسروں پر الزام لگانا تو بہت آسان ہے لیکن معاملے کا حل نکال کر عوام کی مدد کرنے کا رواج نہیں ہے۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ملک میں وافر گندم موجود تھی پھر بھی ایک ارب ڈالر کی گندم باہر سے منگوائی گئی جس سے یہ بحران پیدا ہوا ہے۔ نگران حکومت میں موجود کچھ لوگ تو موجودہ حکومت کا بھی حصہ ہیں‘ ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ یہ فیصلہ کیوں کیا گیا؟ ملک میں گزشتہ برس گندم کی بمپر پیداوار ہوئی تھی پھر بھی 30 لاکھ ٹن گندم کیوں درآمد کی گئی؟
اب اگر حکومت نے کسانوں سے گندم نہ خریدنے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے تو کسان یہ گندم لے کر کہاں جائیں؟ قرضہ لے کر گندم خریدنے کے لیے حکومت کے پاس پیسے تھے لیکن اب کسانوں سے گندم خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔ حالیہ بارشوں کی وجہ سے بھی 64 لاکھ ایکڑ پر موجود فصل متاثر ہوئی ہے۔ حکومت نے 23 اپریل سے گندم کی خریداری شروع کرنی تھی لیکن یہ تاحال شروع نہیں ہو سکی۔ جنہوں نے بھی بغیر منصوبہ بندی گزشتہ برس 30 لاکھ ٹن سے زائد گندم درآمد کی‘ انہوں نے ملک و قوم کا پیسہ برباد کیا‘ انہیں اس جرم پر کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے‘ مگر ہمارے ملک میں اشرافیہ کو سزا نہیں ملتی۔ صوبائی وزیر خوراک بھی معاملہ نگران حکومت پر ڈال کر اس کی مذمت کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ امپورٹ کے معاملے پر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ کمیٹیاں کتنا کام کرتی ہیں۔ آج تک ایسی کمیٹیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا نہ ہی درست حقائق سامنے آ سکے ہیں۔ حکومت فوری طور پر کسانوں سے گندم خریدے‘ ورنہ کسانوں کا دیوالیہ نکل جائے گا۔ یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ ضرورت سے زیادہ مقدار میں گندم درآمد کرنے سے کس کو کتنا فائدہ پہنچا ہے۔ایک ارب ڈالر بہت بڑی رقم ہے‘ اس معاملے کو یونہی نہیں چھوڑا جا سکتا‘ اس کا جواب تو دینا ہوگا۔ مظلوم اور غریب کسانوں پر ظلم کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ یہ ملک بھر کیلئے اناج اُگاتے ہیں۔ حکومت ان کو ان کا حق دے اور گندم کی خریداری کیلئے مربوط پالیسی بنائے اور ان عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے جنہوں نے وافر گندم ہونے کے باوجود باہر سے گندم امپورٹ کرنے کا غلط فیصلہ کیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved