''جس جھولی میں سو چھید ہوئے‘ اس جھولی کا پھیلانا کیا‘‘۔ ابن انشا نے شاعرانہ انداز میں ایسی جھولی پھیلانے سے منع کیا‘ جس میں چھید ہوں۔ معاشیات اور سیاسیات کی دنیا میں جھولی کی جگہ بیگ یا تھیلے کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں دنیا کی تقریباً ہر زبان میں کوئی نہ کوئی کہانی یا کہاوت موجود ہے‘ جس میں کسی ایسے شخص کا ذکر ہے‘ جو دولت کمانے یا سرمایہ جمع کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے اور اس سلسلے میں بڑا کمال دکھاتا ہے‘ لیکن آخر میں وہ کوڑی کوڑی کا محتاج ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس جو تھیلا یا بیگ ہوتا ہے‘ اس میں سوراخ ہیں۔ وہ سونا چاندی اور روپیہ پیسہ جمع کر کے اپنے تھیلے میں ڈالتا جاتا ہے مگر یہ دولت تھیلے کے سوراخ سے نکلتی رہتی ہے ؛چنانچہ وہ شخص کہانی کے آخر میں خالی ہاتھ ہوتا ہے اور دولت ہاتھ آنے کے باوجود غریب اور بدحال ہی رہتا ہے۔ ان لوک داستانوں کا سبق یہ ہے کہ آپ چاہے دنیا جہاں کی دولت جمع کر لیں لیکن اگر آپ کے تھیلے میں سوراخ ہے‘ یعنی آپ اس دولت کو بچانا نہیں جانتے‘ اس کا درست استعمال نہیں کر سکتے تو آپ کو اس دولت سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ اس کہانی کو مغربی ممالک میں عموماً مالیاتی ادارے بچت اور سیونگ کی اپنی مختلف سکیموں کی تشہیر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس میں عموماً ایک تصویر بھی دکھائی جاتی ہے‘ جس میں دکھایا جاتا ہے کہ ایک آدمی جا رہا ہے‘ جس کے کندھے سے ایک تھیلا لٹک رہا ہے جس میں سوراخ ہیں‘ اور ان سوراخوں سے کرنسی نوٹ اور سونے کے سکے وغیرہ نیچے گر رہے ہیں۔
اگرچہ یہ ایک فرد کی کہانی ہے‘ مگر اس کا اطلاق ملکوں اور ریاستوں پر بھی ہوتا ہے۔ پاکستان پر اس کا اطلاق اس قدر ہوتا ہے کہ لگتا ہے کہ یہ کہانی خصوصی طور پر پاکستان کو سامنے رکھ کر ہی تخلیق کی گئی ہے۔ پاکستان کی جھولی میں چھید اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا شمار ہی ممکن نہیں‘ لیکن حکمران اشرافیہ اس چھید بھری جھولی کو ہر دور میں بڑے تسلسل اور ثابت قدمی سے پھیلائے رکھتی ہے۔ سو چھید کے باوجود جھولی میں کچھ نہ کچھ پڑتا رہتا ہے‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے معاشی تھیلے میں جو سوراخ ہیں‘ ان سے گزر کر دولت کہاں کہاں جاتی ہے‘ اس کا حساب کتاب دل دہلا دینے والا ہے۔ یہ حساب کتاب یہ بھی واضح کرتا ہے کہ کھربوں کا قرضہ لینے کے باوجود پاکستان مستقل طور پر معاشی بحران کا شکار کیوں رہتا ہے‘ اور ملک ہر وقت نازک دور ہی سے کیوں گزر رہا ہوتا ہے۔
پاکستان کے تھیلے میں طرح طرح کے سوراخ ہیں۔ ہر سوراخ کسی خاص طاقتور طبقے کے لیے ہے۔ ایک سوراخ ایسا ہے‘ جو خصوصی طور پر سرکاری ملازمین کی مراعات کے لیے بنایا گیا ہے۔ ملک میں سرکاری ملازمین پر کیے جانے والے اخراجات اور ان کو دی جانے والی مراعات پر کئی سرویز ہو چکے ہیں‘ اور تحقیقاتی رپورٹس بھی تیار کی گئی ہیں‘ جو وقتاً فوقتاً قومی اخبارات اور ذرائع ابلاغ میں شائع و نشر ہوتی رہتی ہیں۔ ان رپورٹس کے مطابق: پاکستان میں سرکاری ملازمین کو ادا کی جانے والی رقم تین کھرب روپے سے زیادہ ہے۔ صرف پنشن کی مد میں‘ ایک محتاط اندازے کے مطابق‘ ڈیڑھ کھرب روپے ادا کیے جاتے ہیں۔ گورنمنٹ سرونٹس یا سرکاری ملازمین کے علاوہ حکومت کی طرف سے چلائے جانے والے مختلف پراجیکٹس پر کام کرنے والی حکومتی کمپنیوں کے ملازمین اور دیگر سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کو ادا کی جانے والی رقم تقریباً ڈھائی کھرب روپے ہے۔ اسی طرح دفاع سے منسلک اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں ادا کی جانے والی رقم ایک کھرب کے قریب ہے۔ یہاں عموماً تنخواہوں کا رونا رویا جاتا ہے‘ مگر حقیقت میں سرکاری ملازمین کو جو رقوم مراعات اور فوائد کی مد میں ادا کی جاتی ہیں ان کے مقابلے میں تنخواہ کا ذکر ہی بیکار ہے۔ یہ مراعات اور فوائد ان کی تنخواہ سے کئی گنا زیادہ ہیں‘ اور سرکاری ملازمت میں اصل کشش کی وجہ بھی یہی ہیں۔ سرکاری افسران کی طرف سے صرف سرکاری گاڑیوں کے ذاتی استعمال پر اٹھنے والے اخراجات ان کو ادا کی جانے والی بنیادی تنخواہوں سے دوگنا ہیں۔ اس سلسلے میں اقوام امتحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کی کچھ رپورٹس بڑی اہم ہیں۔ ان میں سے کچھ رپورٹس دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور اس کے اثرات کے بارے میں بڑی اہم معلومات فراہم کرتی ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں معاشی مراعات کے حوالے سے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ کارپوریٹ سیکٹر‘ جاگیردار اور سیاسی طبقے سمیت پاکستان کی اشرافیہ کو دی جانے والی معاشی مراعات ملکی معیشت کا لگ بھگ چھ فیصد ہیں جو تقریباً 17.4 ارب ڈالر بنتی ہیں۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے تحت نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ میں بھی پاکستان میں مخصوص افراد کو حاصل معاشی مراعات اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا جائزہ پیش کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ طاقتور طبقات اپنے منصفانہ حصے سے زیادہ وصول کرنے کے لیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہیں۔ مراعات یافتہ لوگ معاشرتی روایات پر مبنی تعصب کے ذریعے ساختی امتیازی سلوک بھی برقرار رکھتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے لائی گئی پالیسیاں اکثر ناکام رہتی ہیں۔ اس رپورٹ پر یو این ڈی پی کی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اور علاقائی چیف نے اس وقت کے وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے اراکین سے بھی بات چیت کی تھی۔ اس بات چیت کے بعد پریس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی رہنمائوں نے اس رپورٹ کو درست مانا ہے اور کارروائی کرنے کا عہد کیا ہے۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ موجودہ ٹیکس اور سبسڈی پالیسیوں اور زمین اور سرمائے تک رسائی کے طریقہ کار کا جائزہ لیا جائے گا۔ ان کی پیش کردہ رپورٹ کے مطابق مراعات کا سب سے بڑا فائدہ اٹھانے والا کارپوریٹ سیکٹر ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق اس سیکٹر نے سات کھرب 18 ارب روپے کی مراعات حاصل کیں۔ دوسرے اور تیسرے نمبر پر مراعات حاصل کرنے والا ملک کا ایک فیصد امیر ترین طبقہ ہے‘ جو ملک کی مجموعی آمدن کے نو فیصد کا مالک ہے۔ ملک کے جاگیردار اور بڑے زمیندار کل آبادی کا محض 1.1 فیصد ہیں‘ لیکن ملک کی 22 فیصد قابلِ کاشت زمین کے مالک یہی افراد ہیں۔ پاکستانی پارلیمنٹ میں دونوں طبقوں کی مضبوط نمائندگی موجود رہتی ہے اور بیشتر بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیردار یا کاروباری طبقے ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس رپورٹ میں کہا گیا کہ یہاں جو لوگ مراعات کی فراہمی کے ذمہ دار تھے‘ وہ خود ہی مراعات وصول کر رہے ہیں۔ ایک ہاتھ سے وہ مراعات دے رہے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے اپنے آپ کو فائدہ پہنچانے کے لیے خود ہی وصول کر رہے ہیں۔ ملک کا طاقتور طبقہ زمین‘ سرمایے‘ انفراسٹرکچر اور ٹیکس کی چھوٹ کی مد میں دو کھرب ساٹھ ارب روپے (لگ بھگ 1.7 ارب ڈالر) کی مراعات لے رہا ہے۔ ملک کے امیر ترین ایک فیصد طبقے کے پاس 2018-19ء میں ملک کی نو فیصد آمدنی تھی‘ جبکہ غریب ترین ایک فیصد طبقے کے پاس صرف 0.15 فیصد حصہ تھا۔ مجموعی طور پر‘ 20 فیصد امیر ترین لوگوں کے پاس قومی آمدنی کا لگ بھگ نصف (49.6 فیصد) ہے‘ جبکہ 20 فیصد غریب ترین افراد کے پاس قومی آمدنی کا محض سات فیصد ہے۔ ان حالات میں تھیلے کا سوراخ واضح طور پر بتاتا ہے کہ پاکستان میں جو دولت لائی یا پیدا کی جاتی ہے‘ وہ کہاں جاتی ہے۔ اس سوراخ کو بند کیے بغیر‘ اور دولت کی منصفانہ تقسیم کا راستہ اختیار کیے بغیر حالات میں کسی مثبت تبدیلی کے امکانات نہیں ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved