''تحریک تحفظِ دستور‘‘ کے چیئرمین جناب محمود خان اچکزئی‘ جناب اسد قیصر اور جناب ثناء اللہ بلوچ کے ہمراہ لاہور کے دورے پر ہیں۔ یہاں کے اہالیانِ صحافت اور سیاست سے تبادلۂ خیال جاری ہے۔ دانشورانِ شہر کے ایک منتخب گروپ کے ساتھ ان سے تبادلۂ خیال کا موقع ملا۔ مجلسِ وحدت المسلمین کے اسد عباس نقوی‘ پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن اور ڈپٹی اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان اور معین قریشی ان کے ساتھ تھے۔ برادران فواد چودھری‘ منیر احمد خان اور اخوند زادہ یوسفزئی بھی اپنے وجود کا احساس دِلا رہے تھے۔ اُن کے اہداف سے کسی کو اختلاف نہیں۔ دستور کی حاکمیت اور اولیت کی اہمیت ثابت کرنے کے لیے کسی د لیل کی ضرورت نہیں۔ دو آنکھیں رکھنے والا ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ پاکستان کو مستحکم رکھنے اور آگے بڑھانے کے لیے دستور پر عمل کرنا ضروری ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو دستور کی اہمیت کو نہ سمجھنے کے سبب بھاری نقصان اُٹھا چکا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد سات سال کی محنت کے بعد ہماری پہلی مجلسِ دستور ساز نے آئین بنایا تو اسے پہلی خواندگی کے بعد ہی ابدی نیند سلا دیا گیا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے اس اسمبلی ہی کو تحلیل کر ڈالا۔ یہ ان کے اختیارات پر قدغن لگا رہی تھی اور 1935ء کے ایکٹ سے اخذ کردہ عبوری دستور میں ترمیم کرکے آزاد مملکت کا چہرہ سنوار رہی تھی کہ فالج زدہ گورنر جنرل نے اسے توڑ دیا۔ عبوری دستور اور قانون کی رو سے اُسے اس طرح کا کوئی اختیار حاصل نہیں تھا۔ دستور ساز اسمبلی کو دستور سازی کا عمل پایۂ تکمیل پہنچانے تک برقرار رہنا تھا۔ وہ عوام کی اُمنگوں کی ترجمان تھی جبکہ گورنر جنرل کابینہ کی سفارش پر تاجِ برطانیہ سے خطِ تقرر حاصل کرنے والا ایک پرزہ تھا جس طرح غلام آقا کو برطرف نہیں کر سکتا‘ اُسی طرح گورنر جنرل دستور ساز اسمبلی کو تحلیل نہیں کر سکتا تھا۔ سپیکر مولوی تمیز الدین نے سندھ ہائیکورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور وہاں گورنر جنرل کے حکم پر خطِ تنسیخ پھیر دیا گیا۔ اس کے خلاف اپیل وفاقی عدالت کے سامنے زیر سماعت آئی تو برادری کی عصبیت میں مبتلا ایک چیف جسٹس نے گورنر جنرل کے حق میں فیصلہ صادر کر دیا۔ بینچ میں شامل دوسرے ججوں کی معاونت بھی اُسے حاصل ہو گئی اور مسیحی جسٹس دہائی دیتے رہ گئے۔ ان کی تنہا آواز دستوریہ کے حق میں بلند ہو کر تاریخ میں تو محفوظ ہو گئی لیکن اس کا رُخ نہ بدل سکی۔ گورنر جنرل کو مطلق العنانیت کی خلعت پہنا ڈالی گئی‘ وہ دن جائے اور آج کا آئے‘ پاکستان فرد ہائے واحد کی کارستانیوں کے آگے ڈھیر ہوتا چلا جا رہا ہے۔
دوسری مجلسِ دستور ساز اسمبلی کا انتخاب عمل میں آیا تو ایک سال کے دوران آئین کے مسودے پر اتفاق ہو گیا۔ وزیراعظم چودھری محمد علی نے (وزیر داخلہ) مولوی اے کے فضل الحق کے ساتھ مل کر ایک ایسا دستور تیار کر لیا جسے 23مارچ 1956ء کو نافذ کر دیا گیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد مشرقی پاکستان کے مقبول رہنما حسین شہید سہروردی اس کا حلف اُٹھا کر وزیراعظم بنے اور جمہوریت کی گاڑی فراٹے بھرنے لگی۔
اکتوبر 1958ء میں اس دستور کے تحت صدر کا منصب سنبھالنے والے میجر جنرل اسکندر مرزا نے اپنے آرمی چیف جنرل ایوب خان سے ساز باز کرکے دستور منسوخ کر ڈالا۔ ایوب خان ''وزیراعظم‘‘ بن گئے لیکن چند ہی روز بعد اپنے صدر کو بھی چلتا کر دیا۔ دستور کی شاخ ہی نہ رہی تھی تو اس پر بنا ہوا صدارتی آشیانہ کیسے فضا میں تیرتا رہ سکتا تھا۔ اتفاقِ رائے سے بنائے جانے والی قومی دستاویز کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد فوجی سربراہ نے اپنی مرضی کا دستور مسلط کر ڈالا۔ بالغ رائے دہی اور پارلیمانی نظام کا خاتمہ کرکے صدارتی نظام نافذ کر دیا گیا۔ اس دستور کو رائے عامہ کے بڑے حصے نے قبول نہ کیا اور ملک میں ایک ایسی ''خانہ جنگی‘‘ کا آغاز ہوا جس کے اثرات سے ہم ابھی تک نہیں نکل پائے۔
ایوب خان کے خلاف عوامی بغاوت ہوئی تو وہ اپنے ہی بنائے ہوئے دستور کو تاراج کرکے بھاگ نکلے۔ اقتدار پر کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان نے قابض ہو کر نیا دستور بنوانے کا اعلان کر دیا۔ اہلِ دانش اور اہلِ سیاست کی بڑی تعداد روکتی رہ گئی کہ نیا ''پنگا‘‘ لینے کے بجائے 1956ء کا دستور بحال کر دو تاکہ گاڑی جہاں سے ''ڈی ریل‘‘ ہوئی تھی وہیں سے پھر سفر کا آغاز ہو سکے... لیکن قابض ٹولے نے ایک نہ سنی‘ نئے دستور کے لیے نئی اسمبلی بنانے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کی تفصیل میں جائے بغیر یہ عرض کیا جا سکتا ہے کہ قائداعظمؒ کا پاکستان دولخت ہو گیا۔ بھارت کو فوجی مداخلت کا موقع ملا اور مشرقی پاکستان نے بنگلہ دیش کا روپ دھار لیا۔ مغربی حصے نے ''نئے پاکستان‘‘ کا چولہ پہن کر ذوالفقار علی بھٹو کے زیر قیادت سفر کا آغاز کیا۔ اتفاقِ رائے سے دستور تو بنا ڈالا گیا لیکن اس پرعمل نہ کیا جا سکا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کے مخالفین صف آراء ہو گئے۔ یہاں تک کہ 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا۔ نئے انتخابات کے لیے تحریک چلی جو جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء پر منتج ہوئی۔
1973ء کا دستور منسوخ کرنے کی جرأت تو کسی کو نہیں ہو سکی لیکن اسے طویل عرصہ کے لیے معطل کیا جاتا رہا۔ پہلے جنرل ضیا الحق اور بعد ازاں جنرل پرویز مشرف نے کئی سال اقتدار کو اپنی لونڈی بنائے رکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو تو پھانسی پا چکے تھے‘ ان کی بیٹی بے نظیر اور مسلم لیگ(ن) کے میاں نواز شریف کے درمیان کئی سال معرکہ برپا رہا۔ انہیں ہوش آئی تو جناب عمران خان کی سیاست طلوع ہوئی۔ نئی دھما چوکڑی مچ گئی۔ دستور کے تقاضے 2018ء کے انتخابات میں بھی نظر انداز ہوئے اور 2024ء میں بھی خاطر میں نہیں لائے گئے۔ عمران خان اب جیل میں ہیں‘ ان کے خلاف درجنوں مقدمات قائم ہو چکے‘ ان کی جماعت سے انتخابی سمبل چھینا جا چکا اور وہ پارلیمنٹ میں اپنے نام کے ساتھ کردار ادا کرنے سے بھی محروم ہو چکی۔ اس کے باوجود ان کی طاقت اپنے وجود کا احساس دِلا رہی ہے۔ خیبرپختونخوا میں ان کی حکومت قائم ہے تو مرکز اور پنجاب میں حزبِ اختلاف کی قیادت ان کے ہاتھوں میں ہے۔ اب دستورِ پاکستان کے تحفظ کے لیے تحریک چلائی جا رہی ہے۔ محمود خان اچکزئی کی قیادت میں تحریک انصاف اور اس کے اتحادی اکٹھے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن سے بھی تاک جھانک جاری ہے لیکن فوجی قیادت کے خلاف عمران خان کا غم و غصہ کم ہوا ہے‘ نہ نواز شریف اور آصف علی زرداری ان کی نظر میں سما رہے ہیں‘ انہیں وہ مسلسل نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ تحریک تحفظِ دستور کے رہنما اب اپنا پیغام خاص و عام تک پہنچا رہے ہیں لیکن یہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ حریفانِ ریاست کا انکارکرکے اور فوجی قیادت کو نشانہ بنا کر دستور کی بالادستی کیسے ممکن ہو گی؟ دستور کے تحفظ کے لیے وسیع تر اتحاد اور مفاہمت کی ضرورت ہے۔ اس وقت عمران خان اپنے مخالفوں سے خوفزدہ ہیں تو ان کے مخالف ان کے خوف میں مبتلا ہیں۔ ایک دوسرے کا خوف جب تک دور نہیں کیا جائے گا خوف کی سیاست ختم نہیں ہو گی۔ یہ سیاست بھٹو کی جان لے چکی‘ نوازشریف کو جلاوطنی کا مزہ چکھا چکی‘ عمران خان کو اڈیالہ جیل پہنچا چکی۔ راستہ نہ روکا گیا تو اس کی تباہ کاریاں جاری رہیں گی۔ ایک دوسرے کو ڈرانے والے‘ ایک دوسرے سے ڈرے ہوئے ہیں۔ جس کو کہتے ہیں نڈر اس میں ہے ڈر دو بٹا تین‘ اپنے اپنے گریبان میں جھانکیے‘ اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کیجیے اور ایک دوسرے کی طرف محبت اور مفاہمت کا ہاتھ بڑھایئے۔بے خوف زندگی گزارنا ہے تو ایک دوسرے کا خوف دور کیجیے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved