ہمارے کسانوں نے بھی عجیب قسمت پائی ہے۔آج کل وہ رُل رہے ہیں۔ گندم کھیتوں میں پڑی ہے۔ خریدار کوئی نہیں۔ کسانوں کا سب کچھ دائو پر لگ چکا ہے۔پچھلے سال پولیس اور ضلعی انتظا میہ ان کے پیچھے تھی اور وہ گرفتاریوں سے بچنے کیلئے چھپے ہوئے تھے۔ ان کے ڈیروں اور گھروں پر چھاپے مارے جارہے تھے تاکہ گندم کا ٹارگٹ پورا کیا جائے۔ سب اضلاع میں دفعہ 144 لگ چکی تھی۔ گندم ایک ضلع سے دوسرے ضلع نہیں جاسکتی تھی۔ وجہ یہ بنی تھی کہ حکومت کو خطرہ تھا کہ افغانستان سے آئے سوداگر گندم کی کھڑی فصل کے سودے کر کے خرید رہے تھے۔ وہ حکومت کے سرکاری ریٹ سے فی من دو‘ چار سو روپے زیادہ کیش آفر کررہے تھے بلکہ یوں کہہ لیں ایڈوانس دے رہے تھے۔اگرچہ میں اس حق میں ہوں کہ ہمیں سرکاری طور پر اپنے افغان بھائیوں کو وہیں‘ ان کی زمین پر گندم، چینی کھاد یا دیگر ضروریات پوری کرنی چاہئیں اور اس کیلئے ہمیں اپنے سالانہ بجٹ میں فنڈز رکھنے چاہئیں۔ ایک آپشن یہ ہے کہ پاکستان سے یہ سب اشیاسمگل ہو کر افغانستان جائیں۔ وہ سب افغان تاجر یا سوداگر ہر ناکے پر رشوت دے کر یہ مال لے جائیں اور افغانوں کو مہنگا کر کے بیچیں‘ دوسرا آپشن یہ ہے وہ سب افغان جو اپنی زندگی کا سائیکل افغانستان میں 40‘ 50سال کے حالات کی وجہ سے نہیں چلا پاتے وہ پاکستان کا رُخ کریں اور ہمارے ہاں بیشمار مسائل کا سامنا وہ بھی کریں اور ہم بھی کریں۔ دونوں ملکوں کے درمیان جو کلچرل اور دیگر فرق ہے اس کے نتائج اچھے نہیں نکلتے۔ ماضی میں یہ تجربہ ہم دونوں کو مہنگا پڑا ہے۔
گندم امپورٹ بحران پر ایک دوست کا فون آیا کہ آپ افغان فیکٹر نہ بھولیں جنہیں گندم یا آٹا پاکستان سے جاتا ہے۔ خیر اب تو افغان مہاجرین کو بھی واپس بھیجا جارہا ہے اور ہم طویل میزبانی کر کے بھی افغانوں کا دل نہیں جیت سکے۔ افغانوں کی اکثریت ہمیں اپنے مسائل کا ذمہ دار سمجھتی ہے اور ان کی یہ بات اتنی غلط بھی نہیں۔ہمیں افغانوں کو امریکہ سے آزاد کرانے کی بہت جلدی تھی۔ اُس وقت نیٹو اور امریکی افغانستان کے لوگوں کے آٹا‘ دال اور مسائل کی دیکھ بھال کے ذمہ دار تھے۔ امریکہ کے جانے کے بعد‘ جس پر ہم نے بہت خوشیاں منائیں ‘افغانوں کا وزن ہم پاکستانیوں پر آن پڑا تو ہمیں احساس ہوا کہ یہ ہم کیا کر بیٹھے ہیں۔ ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو میں نے خود ٹی وی پر سنا کہ ہم نے جنرل فیض کو کابل بھیج کر جلدی کی۔ ہم نے جو شادیانے بجائے وہ الٹا ہمارے گلے پڑ گئے ہیں۔ جب تک امریکی افغانستان میں موجود تھے تو وہ طالبان سے خود لڑ رہے تھے اور ہمارے تعاون کے خواہاں رہتے تھے۔ پاکستان کے اندر بھی جنگ و جدل نہیں ہورہی تھی یا بہت کم تھی۔ دہشتگردی بڑی حد تک کنٹرول تھی بلکہ پاکستانی لوگ مزدوری کرنے افغانستان جارہے تھے جہاں امریکی اور نیٹو کمپنیاں بہت سے پراجیکٹس پر کام کررہی تھیں۔ پاکستانی وہاں سے ڈالرز لاتے تھے۔ لیکن ہمیں بہت جلدی تھی کہ افغانستان آزاد ہو تاکہ ہم اپنے اثاثوں کو کابل میں لا کر خود کو محفوظ تصور کریں۔ اس لیے جنرل فیض صبر نہ کرسکے اور اگلے دن کابل میں چائے پیتے فرمان جاری کیا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اپنے ساتھ وہ 35 ہزار پاکستانی طالبان /خاندان بھی ساتھ لائے جو سوات آپریشن کے بعد بھاگ گئے تھے۔
جس وقت ہمیں ضرورت تھی کہ ہم چھپ جاتے کیونکہ پوری دنیا خصوصاً امریکی کوئی بہانہ ڈھونڈ رہے تھے کہ یہ سب کس کا کیا دھرا تھا تو ہم نے کابل میں نمودار ہو کر کہا سرجی یہ ہمارا کارنامہ ہے۔ جوشِ جذبات میں بھول گئے کہ یہ سب کچھ ہمارے گلے پڑے گا۔ اور وہی کچھ ہوا۔ افغانوں کی نوجوان نسل طالبان کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھی ‘انہوں نے پاکستان کا رُخ کیا۔ پانچ سے دس لاکھ پاکستان آئے خصوصا ًاسلام آباد‘ اور یوں پاکستان جہاں پہلے سے لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین تھے‘ ان کا بوجھ بڑھا۔ امریکی ہم سے الگ خفا ہوئے اور سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا حالانکہ قطر میں مذاکرات وہ براہِ راست طالبان سے خود کررہے تھے۔
اب طالبان نے خود کو افغانستان میں یہ ظاہر کرنا تھا کہ وہ پاکستان کی پراکسی نہیں ہیں‘ وہ پاکستان سے زیادہ افغانستان اور افغان قوم کے مفادات کا خیال رکھیں گے‘ لہٰذا کابل اور اسلام آباد کے درمیان شروع دن سے تعلقات خراب ہونے لگے۔ اس حد تک خراب ہوئے کہ دونوں ملکوں میں سرحدوں پر جھڑپیں ہونے لگیں‘ سرحدیں بند ہونے لگیں اور پاکستان نے افغانستان پر الزام لگایا کہ ٹی ٹی پی ان کی سرزمین استعمال کر کے پاکستان پر حملے کررہی ہے۔ یہ وہ الزام تھا جو کبھی افغانستان لگاتا تھا اور ہم کہتے تھے کہ افغان حکومت اپنی ناکامیاں پاکستان کے کھاتے نہ ڈالے اور اپنا ہاؤس اِن آرڈر کرے۔ افغان حکومت ہمارے خلاف پوری دنیا میں شکایتیں لگاتی تھی اور ہم انکاری تھے۔ پتہ نہیں ہمیں کیوں لگتا تھا کہ طالبان کے آنے سے ہمارے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے ہمارے سیانوں کو یہ بات کیوں نہ سمجھ آئی کہ امریکی افغانستان سے نکل گئے تو اسے طالبان کی فتح سمجھا جائے گا۔ کل کلاں کو پاکستانی طالبان بھی اس سے حوصلہ پکڑ کر پاکستانی ریاست پر حملہ آور ہوں گے کہ افغان طالبان کابل پر حکومت کر سکتے تھے تو وہ یہ کام اسلام آباد میں کیوں نہیں کرسکتے۔ پھرہم پاکستانیوں نے طالبان کی فتوحات کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ انہوں نے دو سپر پاورز کو شکست دے دی۔ یہ کسی کو یاد نہ رہا کہ روس کو شکست میں بڑا کردارامریکہ اور یورپ کا تھا‘ جنہوں نے اسلحہ دیا‘ ڈالرز دیے‘ عالمی سپورٹ دی‘ افغان مہاجرین کو برسوں تک خوراک دی اور آج تک دے رہے ہیں۔ کیامجاہدین امریکی‘ یورپ اور پاکستان کی سپورٹ کے بغیر روس کو افغانستان سے نکال سکتے تھے؟ دوسرے یہ کمیونزم اورکیپٹل ازم میں برتری کی جنگ تھی‘ جس میں فتح کیپٹل ازم کی ہوئی‘ چاہے اب اس کا سہرا مجاہدین کے سر باندھ دیں۔ اس طرح امریکہ بھی اس وقت افغانستان سے گیا جب اس نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے۔ آج کل امریکہ اور طالبان کا داعش کے خلاف اتحاد چل رہا ہے۔ کل کے دشمن اب دوست بن رہے ہیں اور ہم جو خود کو طالبان کا گاڈ فادر کہتے تھے وہ اب دشمن بن چکے۔ ہم تو جنگی جہاز بھی افغانستان کے اندر بھیج کر دہشت گردوں کے کیمپ پر حملے کر چکے ہیں۔ہم افغان طالبان کو کابل پرحکمران بنانا چاہتے تھے تاکہ ہمارا مغربی بارڈر محفوظ رہے اور ہم مشرقی بارڈر پر بھارت سے لڑسکیں۔ مزے کی بات ہے کہ بھارت کے ساتھ ہماری سرحد پر تین سال سے امن اور شانتی چل رہی ہے اور سارا گولہ بارود افغان سرحد پر استعمال ہورہا ہے۔ کبھی افغان حکومت ہمارے خلاف امریکہ کو شکایتیں لگاتی تھی کہ ہم طالبان کو پاکستان میں محفوظ ٹھکانے دے کر انہیں افغانستان میں امن خراب کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ آج ہم اپنے انہی لاڈلے طالبان کی شکاتیں امریکہ کو لگا رہے ہیں کہ دیکھیں وہ پاکستانی طالبان کو اپنے ہاں سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کے لیے بھیج رہے ہیں۔
بات گندم سے شروع ہوئی تھی اور کہاں پہنچ گئی۔ ہم تو چلے تھے افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنانے۔ افغانوں نے بڑا منع کیا ہم نہ مانے۔ ہمیں 44سال تک افغانستان میں مداخلت کر کے کیا ملا۔ اپنے وسائل وہاں خرچ کیے، گندم‘ چینی سمگل کرائی‘ ڈالرز سمگل کرائے‘ بیچارے لاکھوں افغانیوں کو دربدر کیا‘ پاکستان کی اکانومی تباہ کی‘ دہشت گردی میں ہزاروں معصوم مروا دیے اور آج کل اپنے سابقہ ہیروز طالبان کے ساتھ ہم خود جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ طالبان اب امریکہ سے دوستی کر رہے ہیں جن کے خلاف ہم انہیں بیس سال لڑاتے رہے۔ہم سے کوئی بڑا شیانڑا ہے تو سامنے آئے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved