تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     23-10-2013

ایک منی آرڈر کا سفر

معلوم نہیں کہ اس بدانتظامی کی تحقیقات ایف آئی اے کے دائرہ اختیار میں ہے یا پوسٹ آفس کے اعلیٰ افسران کی ذمہ داری لیکن یہ حکومتی نااہلی کی ایک بد بو دار تصویر ہے جس سے ایک انسان اذیت سے دوچار ہے۔ یہ لاہور سے بہاولپور بھیجے جانے والے گیارہ ہزار روپے کے ایک منی آرڈر کے سفر کی کہانی ہے جو کئی ہفتے گزرنے کے بعد بھی ’’موصول کنندہ‘‘ تک نہیں پہنچا۔ آج کے تیز ترین دور میں جب گھر بیٹھے کمپیوٹر پر ہزاروں میل دور بیٹھے اپنے دوست یا عزیز سے براہ راست اس طرح رابطہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ آپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور آپ اسے۔ فاصلے سمٹ کر لمحوں میں بدل چکے ہیں۔ گھنٹوں کا سفر اب منٹوں میں طے ہو رہا ہے۔ موبائل فون کمپنیوں نے چند منٹوں میں رقم منتقل کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ آپ کسی دوسرے شہر میں مقیم عزیز کو رقم بھیجنا چاہتے ہیں تو آپ کو پہلے جیسی مشکلات پیش نہیں آئیں گی۔ اس کے لیے آپ کو اب بہت زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑے گی بلکہ ایک چھوٹے سے عمل سے کام مکمل ہو جائے گا۔ آپ کو کرنا یہ ہو گا کہ رقم‘ اپنا اصل شناختی کارڈ اور اس کی ایک فوٹو کاپی لے کر کسی ایسی دکان میں جانا ہو گا جہاں یہ سروس موجود ہو۔ اب تو تقریباً ہر محلے کی دکان میں یہ سروس پہنچ چکی ہے۔ آپ بھیجنے والے کا نام‘ شناختی کارڈ نمبر اور موبائل فون نمبر ایک رسید پر لکھ کر دکان دار کو دیں گے۔ چند ہی منٹ میں آپ کو اور رقم موصول کرنے والے کو موبائل فون پر ایس ایم ایس آ جائے گا جس میں پن کوڈ اور دیگر تفصیلات درج ہوں گی۔ اس کے بعد رقم وصول کرنے والا اپنے علاقے کی متعلقہ دکان میں جائے گا۔ اپنا شناختی کارڈ دکھائے گا ‘ پن کوڈ بتائے گا اور رقم حاصل کر لے گا۔ یوں چند منٹوں میں رقم ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جائے گی۔ یہ طریقہ بہت زیادہ مقبولیت حاصل کر رہا ہے کیونکہ یہ محفوظ بھی ہے اور تیز ترین بھی۔ تاہم آج کے تیز رفتار دور میں ہی ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایک منی آرڈر لاہور کے الفلاح ڈاکخانہ سے 26 ستمبر کو رسید نمبر1492 کے ذریعے بہاولپور کیلئے بھیجا گیا۔ لاہور سے محمد اشفاق جنہوں نے یہ منی آرڈر بہاولپور بھیجا‘ ان کا کہنا ہے کہ جس قدر سفر میں اس منی آرڈر کے منزل مقصود تک نہ پہنچنے کے سلسلے میں ذمہ دار افسران کے دفاتر کے چکر لگا کر طے کر چکا ہوں‘ بہتر ہوتا کہ میں خود بہاولپور جا کر یہ رقم دے آتا۔ محمد اشفاق کہتے ہیں کہ ڈاکخانے کے ذمہ داران اس سلسلے میں میری مدد کرنے کی بجائے مجھے یہ کہتے ہوئے ذلیل کرتے ہیں کہ تم ابھی چند دنوں میں ہی گھبرا گئے ہو‘ تمہیں کم از کم دو ماہ مزید ہمارے دفاتر اور افسران کے کمروں کے باہر دھکے کھانے پڑیں گے اور پھر بھی قسمت نے یاوری کی تو یہ منی آرڈر آپ کے عزیز کو مل جائے گا یا آپ کو واپس کر دیا جائے گا۔ اشفاق صاحب جب اپنی یہ روداد سنا رہے تھے تو میں نے ان سے کہا‘ ہوسکتا ہے کہ آپ نے منی آرڈر وصول کرنے والے کا نام اور پتہ صحیح اور مکمل نہ لکھا ہو۔ انہوں نے کہا‘ میں نے منی آرڈر فارم پر اپنا اور منی آرڈر وصول کرنے والے کا مکمل نام‘ پتہ بلکہ اپنا اور ان کا موبائل نمبر بھی لکھاتھا۔ محمد اشفاق کی اس کہانی پر شاید ا ٓپ کو یقین نہ آئے لیکن یہ بالکل سچی ہے۔ یہ کہانی سننے کے بعد میں نے سوچا ہو سکتا ہے وقت ماضی میں چلا گیا ہو اور سرکاری دفاتر میں جمع کرائی گئی کوئی در خواست پر فیصلہ یا اپنے کسی دوست عزیز کو بھیجی گئی کوئی شے اب وصول کنندہ کی بجائے اس کے پوتے کو ملنے لگ گئی ہو کیونکہ زمانہ بدلنا شروع ہو گیا ہے۔ لباس‘ فرنیچر اور زیورات میں پرانی اشیا دوبارہ فروغ پا رہی ہیں۔ شاید آپ سمجھ رہے ہوں کہ میں کوئی انہونی سی بات کہہ رہا ہوں لیکن یہ سچ پر مبنی ہے اور کروڑوں کی تعداد میں وہ لوگ اب بھی زندہ سلامت ہیں جو اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ1970ء کی دہائی سے قبل اگر دادا جان گھر‘ دکان یا دفتر میں ٹیلی فون لگوانے کی درخواست دیتے تھے تو ان کی درخواست پر عملدرآمد ان کے بیٹے کی زندگی میں نہیں بلکہ ان کے پوتے کی زندگی میں ہوتا تھا۔ آج کی نسل کو یہ سب باتیں ایک کہانی محسوس ہو رہی ہو گی کیونکہ ان کے سامنے وہ دور گزر رہا ہے کہ فون لگوانے کی درخواست دینے کے بعد متعلقہ ادارے کے اہلکار آپ کے گھر کے چکر لگانے شروع کر دیتے ہیں کیونکہ اب یہ سروس نجی ہاتھوں میں آ چکی ہے۔ اس کی مجموعی کار کردگی بھی پہلے سے بہت بہتر ہے۔ چند دن قبل جب وفاقی کابینہ کے ایک خصوصی اجلاس میں وزیراعظم نے تیس کے قریب سرکاری اداروں کی نج کاری کی منظوری دی تو اس میں پاکستان کے سب سے قدیم اور قابل ذکر پوسٹل سروس کا بھی ذکر تھا جسے پاکستان پوسٹ آفس کے نام سے لکھا اور پکارا جاتا ہے۔ کچھ عجیب لگا کہ ڈاک اور تار کا محکمہ اور لاہور کا تاریخی جی پی او جواپنی شاندار عمارت کی وجہ سے اپنے اندر مخصوص کشش رکھتا ہے‘ اب نجی ہاتھوں میں چلا جائے گا۔ جب محکمہ ڈاک کی بات کی جاتی ہے تو پاکستان کی مشہور پہاڑی تفریح گاہ مری کا جی پی او نظروں کے سامنے آ جاتا ہے جہاں پاکستان بھر سے آئے ہوئے لوگوں کی آپس میں اچانک ملاقاتیںہوجاتی ہیں۔ وفاقی کابینہ کی نج کاری کیلئے منظور کی جانے والی فہرست میں پوسٹل سروس کا نام دیکھنے کے بعد مجھے برطانیہ یاد آ گیا جہاں ملکہ برطانیہ نے سوائے تین محکموں کے باقی سب محکمے وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے حوالے کر دیے لیکن ریلوے، ڈاکخانہ اور بطخوں کی خوراک کا محکمہ ملکہ نے کسی کے سپرد نہ کیا بلکہ اسے ابھی تک اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔ وزیر اعظم محکمہ ڈاک کو سرکاری کنٹرول سے نکال کر نجی ہاتھوں میں دینے پرکیوں مجبور ہوئے؟ یہ محکمہ خسارے میں کیسے جا پہنچا؟ اس کی وجہ شائد ایسے اہل کار ہیں جو اپنے ساتھیوں کی بد نامی کا باعث بن رہے ہیں۔ کل تک ہر گھر کی ضرورت سمجھے جانے والے اس محکمے کی یہ حالت کیسے اور کن لوگوں کی وجہ سے ہوئی؟ سالہا سال سے نقصان اٹھانے والے اس محکمے کی نج کاری کی ضرورت وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو کیوں محسوس ہوئی؟ یقینا ان کے پاس اس کے لیے کئی وجوہ ہو ں گی لیکن محمد اشفاق کے بھیجے گئے منی آرڈر کی کہانی سننے کے بعد جب میں نے اس بارے میں اپنے طور پر تحقیق شروع کی تو یہ جان کر کانپ اٹھا کہ بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام کا20 فیصد سے زائد حصہ مستحقین تک پہنچنے کے بجائے ملک بھر میں پھیلے ہوئے ڈاکخانوں کی نذر ہو چکا ہے اور یہ رقم لاکھوں اور کروڑوں میں نہیں بلکہ ایک محتاط اندازے کے مطا بق کئی ارب روپوں پر مشتمل ہے۔ جنرل مشرف کے دور حکومت میں جب میجر جنرل آغا مسعود پوسٹل سروس کے سربراہ تھے تو انہوں نے پاکستان کی پرائیویٹ کوریئر کمپنیوں کو عوام کے مراسلات اور دوسرا سامان تقسیم کرنے سے روکنے کیلئے ہائیکورٹ میں ایک پٹیشن داخل کرائی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح پوسٹ آفس نقصان میں جا رہا ہے‘ لیکن چند برسوں سے محکمہ ڈاک کی مجموعی کا رکردگی دیکھنے کے بعد اندازہ ہو تا ہے کہ اگر نجی کوریئر کمپنیاں نہ ہوتیں تو ڈاکخانہ اور اس کا عملہ عوام کا نہ جانے کیا حشر کرتا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved