رجیم چینج کے بعد جس طرح سے قومی تمغوں کا لنڈا بازار لگایا گیا‘ اُس بازار کے بینفشری کو آپ گلی گلی پیدا ہونے والے Covid-19 کے سرٹیفائیڈ ماہرین کہہ سکتے ہیں۔ وہ والے ماہرین جن میں سے کسی نے کورونا کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو کوئی قسمیں اور حلف اُٹھاکر کہنے لگا‘ دیسی چکن میرے گھر چھوڑ آئیں‘ خود پوٹا کھائیں اور کورونا سے نجات پائیں۔ حالیہ 23 مارچ کو گیلنٹری ایوارڈز کی تقسیم کا جو تماشا لگا اُس کے بعد لفظ ہیرو بیچارا زیرو ہو کر رہ گیا ہے۔ زیرو سے 56 مسلم ممالک یاد آ گئے‘ جنہوں نے قبلۂ اوّل کا وارث ہونے کے بلند بانگ‘ زبانی دعوے تو خوب سے خوب تر کیے لیکن جب سرزمینِ قبلۂ اوّل کے اصل وارث فلسطینیوں پر مغرب کے جبروت نے آتش و آہن کی بارش برسانا شروع کی تو بڑے بڑے شیر ڈھیر ہوتے ہوئے ملے۔ ایسے شیروں سے زیادہ بہادر تو گھریلو بلی ہوتی ہے کم از کم بلانے پر جوابی میائوں تو کرتی ہے۔ ان شیروں میں سے نو عدد شیروں کا نام لیے بغیر اسرائیل نے ایرانی حملے کے خلاف سہولت کار‘ شریکِ کار اور غم گسار ڈکلیئر کر دیا۔ اب شیروں کی مثال پہلے آپ والی بن گئی ہے۔ یہ پچھلی صدی کی بات ہے کہ جب عرب ملکوں میں 1960ء سے 1980ء تک کے عشروں میں عرب ملکوں کی سرزمینوں پر بعث یعنی سوشلسٹ پارٹی نے قدم جما لیے تھے۔ الجزائر سے لے کر لیبیا تک‘ مصر سے لے کر یمن تک اور شام سے لبنان تک۔ ''جیڑا واہوے اُوہی کھاوے‘‘ کی طرز پر نعرے لگنا شروع ہو گئے۔ یہی نہیں بلکہ بعث پارٹی نے ان ممالک میں ایسی نوجوان قیادت کو جنم دیا اور پروان چڑھایا جس نے عربوں میں سیاسی شعور کا طوفان برپا کر ڈالا۔ آج بھی وہ ایفرو عرب ملک جہاں جہاں بعث پارٹی کی رسائی ہوئی تھی‘ وہاں انقلاب کی چنگاری وقتاً فوقتاً شعلۂ جوالہ بن کر نظر آتی رہتی ہے۔
ٹیپو سلطانؒ کے یاد آنے کی ایک وجہ 4 مئی 1799ء عیسوی سال ہے‘ جب سلطان حیدر علی کے سب سے بڑے فرزند اور کمان دار فتح محمد کے پوتے سلطان فتح علی ٹیپو‘ شیرِ میسور نے عین عالمِ شباب میں‘ صرف 47 سال کی عمر پا کر رتبۂ شہادت حاصل کر لیا۔ حضرت ٹیپو سلطان کے بارے میں عمومی تاریخ سب جانتے ہیں۔ اُن کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو اُن کی حریت پسندی تھی۔ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے ٹیپو سلطان اسی حریت پسندی کی وجہ سے 1789ء کی ٹراوانکور وار سے لے کر آخری سانسوں (4 مئی 1799ء) تک اور تیسری اینگلو میسور جنگ تک گورے فرنگی کے ناقابلِ تسخیر دشمن رہے۔ اُن کی خود مختار گورننس اور ڈپلومیسی کا سب سے بڑا ثبوت سرنگاپٹم کا معاہدہ تھا جس کے ذریعے ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے پہلے ہی فتح کیے ہوئے اپنے متعدد علاقے واپس لے لیے۔ وہ جری مجاہد ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی آئیکون بھی تھے۔ اسی وجہ سے ٹیپو سلطان نے سلطنتِ عثمانیہ‘ امیرِ افغانستان اور فرانسیسی حکومت سمیت متعدد غیر ملکی ریاستوں میں میسور کے سفیر بھیجے تا کہ برطانیہ مخالف طاقتوں کو ایک جگہ جمع کر کے برٹش راج کی توسیع پسندی کا راستہ روکا جا سکے۔
حضرت ٹیپو سلطان نے سال 1782ء میں اپنے والد سلطان حیدر علی کی کینسر سے وفات کے بعد میسور کی حکمرانی سنبھالی۔ دوسری اینگلو میسور جنگ میں انگریزوں کو شکست دی۔ بہت سے علاقے فتح کیے جس کے نتیجے میں منگلور کا معاہدہ 1784ء میں انگریزوں سے سائن کروا کر دوسری اینگلو میسور جنگ کا خاتمہ کیا۔ ٹیپو سلطان کے مقابلے میں مرہٹوں‘ جو ہندی میں مراٹھے کہلاتے ہیں‘ اور نظام حیدر آباد نے برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی سے چند ٹکّوں کے عوض علاقائی‘ دفاعی اتحاد یعنی ایک طرح کا نیٹو بنا رکھا تھا۔ ٹیپو سلطان میدانِ جنگ میں بادشاہ بنے اور میدانِ جنگ میں داد دیتے ہوئے جان جانِ آفرین کے سپرد کر گئے۔ اس کے باوجود حضرت ٹیپو سلطان نے ہندوستا ن کی تاریخ میں پہلی دفعہ مردم شماری کروائی۔ Alternate Dispute Resolution کے ذریعے مقدمات کا جلد اور بلامعاوضہ فیصلہ کرنے کے لیے پنچایت راج کی بنیاد رکھی۔ حضرت ٹیپو سلطان کی حربی سائنس میں خاص توجہ کا نتیجہ تھا کہ رعایا اور ریاست کی فول پروف سکیورٹی کے لیے ہر شہر‘ قصبے اور قلعے کا ہمہ وقت‘ 24 گھنٹے پہرا دیا جاتا۔ ٹیپو سلطان نے ہندوستان میں پہلی ہائی کورٹ (صدر عدالت) قائم کی۔ حضرت ٹیپو کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اُنہوں نے ایڈیٹر‘ پبلشر کی حیثیت سے اپنی نگرانی میں اُردو کا پہلا اخبار جاری کیا۔ یہ ہفت روزہ سلطان کی شہادت تک مسلسل پانچ سال پابندی سے شائع ہوتا رہا۔
ٹیپو سلطان کے یاد آنے کی دوسری وجہ ٹیپو سلطان کی حکومت کے 125 سال بعد ہماری ریاست‘ سیاست‘ جمہوریت‘ ثقافت‘ تجارت‘ صنعت اور حرفت کی زبوں حالی ہے۔ شہباز شریف کی پہلی اور (ن) لیگ کی چھوتی وزارتِ عظمیٰ میں وفاقی کابینہ کی باقاعدہ منظوری سے گندم کے نام پر اربوں روپے کا چونا غریبوں کو لگایا گیا۔ اس چونا سازی میں کیئر ٹیکر وزیراعظم اور حکومتیں دوسرے نمبر کے سہولت کار بنے۔ گندم فراڈ کی اصل کہانی کے مطابق شہباز حکومت نے یوکرین کی جنگ کے باعث بارود کے اثرات والی سٹوریج ہائوسز میں پڑی پرانی گندم کا سودا کیا۔ کباڑ کے دام بکنے کے لیے تیار گندم مارکیٹ پرائس سے کئی گنا زیادہ قیمت پر خریدی گئی۔ یہ ڈیل مبینہ طور پر امریکی دبائو پر ہوئی جس کے نتیجے میں ساری خراب گندم کی پوری لاٹ ہم نے اُٹھائی۔ جن بحری جہازوں میں گندم آئی وہ کراچی پورٹ سے 50 کلومیٹر دور لنگر انداز ہوئے جن سے چھوٹے جہازوں میں گندم بھر کر لائی گئی۔ جو سمندری ہوا‘ اثرات اور نمی سے زہرِ قاتل بنی۔ یہ گندم ملک بھر کے پاسکو سٹوریج ہائوسز میں سٹور کی گئی۔ امریکہ نے چین کی وجہ سے یوکرینی بحری جہازوں کو گوادر کی ڈیپ سی پورٹ کے استعمال سے روکا۔ منصوبہ یہ تھا کہ خراب‘ جنگ زدہ اور سیلی گندم اپنے عوام کو کھلائیں گے جبکہ مقامی تازہ گندم ایکسپورٹ کر دیں گے۔ اب بیمار یوکرینی گندم کا پاسکو سٹوریج پر قبضہ ہے۔ صوبائی حکومتوں کے پاس کسان سے خرید کر گندم رکھنے کی جگہ ہی نہیں۔ جو تھوڑی بہت گندم خریدی وہ براہِ راست فلور ملز کو بھجوائی گئی۔ یہی حال رہا تو ہماری فریش گندم کی فصل جو سڑکوں پر پڑی ہوئی ہے‘ ٹکّے ٹوکری بکے گی۔ اگر آپ چاہیں تو اپریل 2023ء سے اپریل 2024ء تک‘ 35 لاکھ میٹرک ٹن پاکستان لائی گئی بیمار گندم کی سرکاری رپورٹ دیکھ لیں‘ جس میں لکھا ہے کہ اس زہریلی گندم کو زندہ کیڑے کھا رہے ہیں۔ اسی گندم کے آٹے پر نواز شریف کی تصویر لگائی گئی۔ اس امپورٹ پر ادارۂ احتساب‘ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی اور سب اداروں کی ہر روز بننے والی جے آئی ٹی کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ جی ہاں! سانپ کا فارسی مطلب ہے مار ہائے زہر آگین۔ ایسے میں حضرت ٹیپو سلطان نے یاد آنا ہی تھا۔
کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved