سیاح کسی بھی سمت کے سفر کا ارادہ کر چکا ہو تو سب سے بڑا سوال یہ ہوتا ہے کہ کہاں؟ دوسرا یہ کہ کیسے؟ تیسرا یہ کہ پیسے؟ اور یہ تیسرا سوال تو ہر امتحان میں لازمی ہوتا ہے۔ اگست 2022ء میں جب میں ایک بار پھر استنبول (ترکیہ) میں تھا‘ یہ سوال میرے سامنے کھڑے تھے۔ اس وقت یہ تینوں سوال لازمی بھی تھے اور فوری بھی۔ ترکیہ میں صرف ایک ہفتہ رکنا تھا اور اس دفعہ میں ترکیہ کے وہ علاقے دیکھنا چاہتا تھا جو اس سے پہلے نہیں دیکھے تھے۔ پرنسس آئی لینڈز‘ برصہ‘ بودرم‘ داتچا‘ مرمریس‘ اچمی لیر گزشتہ سفروں میں مجھے سیراب کر چکے تھے اور اگرچہ ان میں سے ہر ایک شہر اور مقام مجھے دوبارہ اشاروں سے بلاتا تھا لیکن میرے اندر کا سیاح بضد تھا کہ نہیں۔ اب کوئی نئی جگہ‘ کوئی نئی بستی‘ کوئی نئی جھیل۔ ہندوستان کے جواں مرگ شاعر منچندرا بانی نے کہا تھا نا:
ہر دم موج امکانی میں ؍ اگلا پائوں نئے پانی میں
16 اگست 2022ء کو وہی سوال میرے سامنے آ کھڑا ہوا۔ کہاں؟ جو کچھ ترکیہ کے سفروں کا تجربہ مجھے ہے اس کے تحت دل یہ فیصلہ پہلے کر چکا تھا کہ بہت دور کہیں نہیں جانا‘ جہاں آنے جانے میں ہی دو تین دن خرچ ہو جائیں۔ مجھے واپسی پرکم از کم ایک دو دن استنبول میں رکنا بھی لازمی تھا۔ اس لیے ساری جمع تفریق کے بعد یہی فیصلہ تھا کہ ایسی جگہ جانا چاہئے جہاں زیادہ سے زیادہ چار پانچ گھنٹوں میں پہنچ جائیں اور واپسی بھی چند گھنٹوں میں ہو سکے۔ اس طرح اس جگہ کے لیے وقت زیادہ میسر آ سکے گا۔ لیکن ان سب کے بعد بھی وہ سوال اپنی جگہ تھا کہ کہاں؟ بستر پر لیٹ کر پیر پھیلائے ہوئے میں نے ترکیہ کا نقشہ ایک بار پھر دیکھا۔ استنبول کو مرکز بنا کے آنکھوں سے چار پانچ گھنٹوں کی مسافت کا دائرہ کھینچا۔ اس دائرے کے اندر آنے والی جگہوں تک رسائی اور نارسائی کا جائزہ لیا۔ فیصلے کی گھڑی ابھی تک بہت دور تھی۔ میرے دیرینہ ترک دوست ڈاکٹر عبد الحمید برائشک‘ جو استنبول ہی میں رہتے ہیں‘ ہمیشہ بہت سے معاملات میں کام آتے ہیں۔ ڈاکٹر برائشک ایک مدت تک اسلامی یونیورسٹی اسلام آبادمیں استاذ رہے اور ان کے منہ سے اردو بہت اچھی لگتی ہے۔ ایک بار انہوں نے بودرم اور داتچا کے نام تجویز کیے تھے اور وہ بہت اچھا تجربہ تھا۔ اس لیے اپنا فیصلہ انہی کی تجویز پر موقوف کر دیا گیا۔ ڈاکٹر برائشک نے ساری بات سنی‘ ایک لمحے کیلئے خاموش ہوئے اور پھر بولو کا نام تجویز کیا۔ بولو (Bolu)۔ یہ نام پڑھا اور سنا ضرور تھا لیکن اس پر غور نہیں کیا تھا۔ بہرحال بڑے سوال کا جواب مل چکا تھا۔
18 اگست کی صبح میں استنبول بس سٹینڈ پر بولو جانے والی بس کی قطار میں کھڑا تھا۔ استنبول کے دو بڑے بس سٹینڈ ہیں۔ یورپین حصے میں بس سٹینڈ یوروپا آٹوگار کہلاتا ہے۔ یعنی یورپین بس سٹینڈ۔ بس تقریباً خالی تھی اور ابھی روانہ نہیں ہوئی تھی کہ چھینٹا پڑنا شروع ہو گیا۔ ہم استنبول سے نکلے تو بارش اور دھوپ کی لک چھپ جاری تھی اور موسم خوشگوار تھا۔ اندر باہر کا موسم خوشگوار ہو تو یہ یکجائی خود بخود خوش کر دیتی ہے۔ استنبول سے بولو تک کا سفر ساڑھے تین چار گھنٹے کا ہے‘ لگ بھگ ڈھائی سو کلومیٹر! اور سارا سرسبز پہاڑیوں اور زرخیز وادیوں کے بیچ۔ ہلکی بارش نے منظر کو سیہ مست اور نم کر دیا تھا۔ کھڑکی کے شیشوں پر لہراتے قطرے ہوا کے زور سے آڑی ترچھی لکیریں کھینچتے جا رہے تھے۔ راستے میں ایک جگہ بس رکی تو میں نے کافی اور مونگ پھلی کے ذریعے اس منظر کو خوب تر کیا۔ سفر‘ تنہائی‘ موسم یکجا ہو جائیں تو چوتھا درویش یعنی شعر خود آ پہنچتا ہے۔ کل رات جو غزل شروع کی تھی‘ وہ خون میں گردش کرتی اپنے پائوں پھیلانے لگی۔ لیکن اپنی منزل کا خیال بار بار آ جاتا تھا۔ جو کچھ معلومات لی تھیں اس کے بعد وہ شہر میرے ذہن میں تصویریں بنا رہا تھا جہاں مجھے چند گھنٹوں کے بعد پہلی بار قدم رکھنا تھا۔ بولو۔
بولو ترکیہ کے ایک صوبے کا نام بھی ہے‘ ضلع کا بھی اور اس صوبے کے مرکزی شہر کا بھی۔ یہ استنبول سے انقرہ کی شاہراہ پر پر ہے۔ یہ علاقہ بحر اسود سے قریب ہے۔ اگرچہ یہ ساحلی صوبہ نہیں لیکن اس میں قدرتی جنگلات اور حسین جھیلیں اسے فطری حسن سے مالامال کرتی ہیں۔ دراصل یہ سارا صوبہ تقریباً 4000 مربع کلومیٹر پر پہاڑی اور نیم پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے۔ جہاں وادیاں ہیں وہاں شہر بس گئے۔ لیکن چھوٹی بڑی پہاڑیوں پر گھنے اور اونچے لمبے پیڑوں‘ پودوں اور جنگلوں سے ڈھکا ہوا یہ صوبہ درختوں کے لحاظ سے ترکیہ کے سب سے زیادہ ذخائر رکھتا ہے۔ عام طور پر بیچ اور دیودار کے درخت ہیں۔ ان جنگلات میں سرخ اور بھورے ہرن بھی فراوانی سے رہتے ہیں اور لومڑیوں‘ بھیڑیوں اور جنگلی بلیوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ یہ جنگلی حیات بس انہی جانوروں تک محدود نہیں ہے۔ نیشنل پارک کی وجہ سے اب اس جنگلی حیات کو تحفظ بھی ہے اور ہرنوں کی تعداد کافی بڑھ گئی ہے۔ انہی پہاڑیوں اور وادیوں میں سات خوبصورت جھیلیں ہیں۔ چند ندیا ں بھی بہتی ہیں اور ایک دو چھوٹی آبشاریں بھی اس کا حسن بڑھاتی ہیں۔ اس پورے علاقے کو ایک نیشنل پارک کی حیثیت دے دی گئی ہے اور اسے یدی گولر کہا جاتا ہے۔ یدی گولر کا مطلب ہے سات جھیلیں۔ یہ علاقہ سطح سمندر سے لگ بھگ تین ہزار فٹ بلند ہے۔ سردیوں میں سخت سرد اور گرمیوں میں کم یا معتدل گرم۔ لیکن اس کی آب و ہوا ساحلی علاقوں جیسی ہے۔ اگست میں دن خاصا گرم اور شام قدرے خنک ہو جاتی ہے۔
ایک چھوٹے خوبصورت شہر کے آثار نمایاں ہونے لگے تو اندازہ ہوا کہ بولو آ گیا ہے۔ سرخ اور زرد چھتوں والے گھر‘ جن کی ڈھلوانی چھتیں بتاتی تھیں کہ وہ ہر سال برفانی موسم گزارا کرتے ہیں۔ بس بولو میں داخل ہوئی اور چند بڑی سڑکوں سے گزرتی ایک بس سٹینڈ پر ٹھہر گئی۔ میں اس چھوٹے سے پُرسکون نیم پہاڑی شہر میں پہنچ چکا تھا۔ ڈاکٹر برائشک کی مزید مہربانی یہ تھی کہ انہوں نے ایک جاننے والے‘ مناسب سے ہوٹل میں میری بکنگ کرا دی تھی۔ مجھے ترکیہ میں ان ٹیکسی ڈرائیوروں کا تجربہ پہلے سے تھا جن کے میٹر بجلی کی رفتار سے چلتے تھے۔ ایسا ہی ایک برق رفتار ڈرائیور مجھ جیسے کسی اجنبی کا منتظر تھا۔ ٹیکسی میں بیٹھتے ہی میں نے ہوٹل کی لوکیشن کھول لی تاکہ اندازہ ہو سکے کہ ڈرائیور اسی طرف جا رہا ہے یا نہیں؟ پانچ منٹ میں اندازہ ہو گیا کہ ہوٹل تو قریب ہے لیکن موصوف مجھے دور دراز کی سڑکوں پر گھما پھرا کر بولو میں 'بولانا‘ چاہتے ہیں۔ ترکیہ کے دوسرے شہروں کی طرح یہاں بھی زبان کا مسئلہ تھا اس لیے اپنا ما فی الضمیر بتانا ایک الگ مشکل تھی۔ اس لیے خون کے گھونٹ جلاتا رہا۔ بہرحال دس منٹ اور نوے ترکی لیرا کے خرچ کے بعد میں ہوٹل پہنچ گیا۔ یعنی لگ بھگ دو ہزار پاکستانی جبکہ فاصلہ زیادہ سے زیادہ پانچ چھ منٹ کا تھا۔ اکیلے سیاح کے لیے ہوٹل مناسب تھا اور ضروری سبھی چیزیں موجود تھیں۔ سامان رکھا اور ذرا سا گرد وپیش دیکھنے نکلا تو حیران ہو کر ٹھہر گیا۔ استنبول کے دوست ڈاکٹر برائشک خود بھی لابی میں موجود تھے۔ پتا چلا وہ خود بھی اپنے گھرانے کے ساتھ بولو گھومنے آئے ہوئے ہیں۔
جب سائے دیواروں اور درختوں کے دامن چھوڑ کر باہر نکل رہے تھے‘ شام اور اداسی لمحہ بہ لمحہ گہری ہو رہی تھی اور افق پر سونے اور تانبے کے ملے جلے رنگوں کی ٹکیہ ترچھی نظریں زمین پر ڈال رہی تھی‘ میں بولو شہر دیکھنے نکلا۔ ہلکی خنک ہوا چل رہی تھی۔ یہ گلیوں‘ بازاروں اور دکانوں میں رونق کا وقت ہوتا ہے۔ اپنی گلی سے ایک نسبتاً بڑی گلی میں آیا جس کا ایک سرا ایک دو رویہ بڑی شاہراہ پر کھلتا تھا۔ اس سنگم پر ایک بڑے قہوہ خانے میں مرد وزن کی بھیڑ دیدنی تھی۔ سگریٹ اور کافی کی مہک فضا میں مرغولہ وار اُٹھ رہی تھی۔ ذرا آگے بڑھا تو بڑی شاہراہ کی گہما گہمی نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ دائیں بائیں راستے کہاں جاتے ہیں‘ یہ علاقہ کون سا ہے۔ میں اب اس ہجوم کا اجنبی حصہ تھا جو بانہوں میں بانہیں ڈالے‘ فٹ پاتھ پرچلتے‘ بنچوں پر بیٹھے‘ دکانوں میں جھانکتے‘ اپنی زندگی کے وہ چند لمحات گزارتا تھا جس میں کسی فکر اور مصروفیت کا دخل نہیں تھا۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved