ان دنوں پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت میں باقاعدہ شمولیت کی خبریں زیرِ گردش ہیں۔ پیپلز پارٹی وفاق میں کون سی وزارتیں لے سکتی ہے‘ اس حوالے سے بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ یہ خبریں اس وقت سامنے آئیں جب تین روز قبل ہونے والی ملاقات میں وزیراعظم شہباز شریف نے بلاول بھٹو زرداری کو وفاقی حکومت کا حصہ بننے کی پیشکش کی۔ گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے وفاقی کابینہ کا حصہ بننے کا فیصلہ نہیں کیا‘ تاہم انہوں نے وفاقی حکومت میں شمولیت سے انکار بھی نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ کابینہ کا حصہ بننے کا فیصلہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے فورم پر کیا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ اگر پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی وفاقی حکومت کا حصہ بننے کا فیصلہ کرتی ہے تو پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ بن سکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومت قائم ہونے کے کچھ ہی عرصے میں ملک میں معاشی سرگرمیاں تیز ہو رہی ہیں‘ معیشت میں بہتری کے آثار نمایاں ہیں اورملک میں سرمایہ کاری کے امکانات روشن ہیں۔ وفاقی حکومت کو آنے والے دنوں میں کئی اہم فیصلے کرنے ہیں۔ آئی ایم ایف سے نئے پروگرام کا حصول‘ مالیاتی اصلاحات اور خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کا معاملہ آسان نہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف چاہتے ہیں کہ مشکل فیصلوں میں تمام اتحادی جماعتیں ایک پیج پر ہوں‘ یہ اسی صورت ممکن ہے جب پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کا حصہ ہو گی۔دیکھا جائے تو عام انتخابات کے بعد اتحادی جماعتوں نے وفاقی حکومت کی تشکیل مشاورت سے کی۔ پیپلز پارٹی نے پہلے مرحلے میں وفاقی حکومت میں شامل نہ ہونے کا اصولی مؤقف اپنایا مگر کسی قسم کی ناراضی کا اظہار نہیں کیا گیا۔ اسی طرح عہدوں کی تقسیم کے حوالے سے بھی تمام امور باہمی مشاورت سے طے ہوئے۔ پنجاب و خیبرپختونخوا میں گورنرز کی تعیناتی کے عمل کو بھی خوش اسلوبی کے ساتھ حل کیا گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اسی مفاہمت کے ساتھ آگے بڑھنے کی پیشکش کر رہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں غیرملکی سرمایہ کاری کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ سرمایہ نئی صنعتوں کے قیام‘ روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور بنیادی ڈھانچے کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کرتا ہے‘ تاہم غیرملکی سرمایہ کار کسی بھی ملک میں تبھی سرمایہ کاری کرتے ہیں جب وہاں سیاسی اور معاشی استحکام ہو۔ ملکی سیاسی جماعتوں میں اختلاف اور کشمکش کا ماحول غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے خطرے کی گھنٹی کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہیں خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ آج کی حکومت کے بنائے ہوئے قوانین اور پالیسیاں کل کی حکومت منسوخ کر دے گی۔ اس سے ان کی سرمایہ کاری اور منافع خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس سیاسی جماعتوں کا آپس میں مل کر طویل المدتی منصوبے کے تحت معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کرنا‘ غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے مثبت پیغام ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہے اور تمام سیاسی جماعتیں مل کر ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ مشترکہ لائحہ عمل غیرملکی سرمایہ کاروں کو یقین دلاتا ہے کہ حکومت کے قوانین اور پالیسیاں مستحکم ہیں اور ان میں اچانک تبدیلی کا امکان کم ہے۔ اس سے ان کا سرمایہ لگانے کا اعتماد بڑھتا ہے اور وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سرمایہ کاری کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مشترکہ لائحہ عمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں قومی مفاد کو ذاتی مفادات پر فوقیت دے رہی ہیں۔ یہ غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے بہت ہی اہم عنصر ہے کیونکہ وہ ایسے ماحول میں سرمایہ کاری کرنا پسند کرتے ہیں جہاں حکومت اور اپوزیشن مل کر ملکی ترقی کے لیے کام کر رہی ہوں۔ سیاسی جماعتوں کا مل کر معاشی بحران کا مقابلہ کرنا اور اس سلسلے میں ایک مشترکہ لائحہ عمل اپنانا غیرملکی سرمایہ کاروں کو اس بات کی یقین دہانی کراتا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہے‘ معاشی پالیسیاں مستحکم ہیں اور حکومت ملکی ترقی کے لیے پُرعزم ہے۔ اس سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا جو ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا۔
معاشی بحران سے نجات حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ایسی صورتحال میں تمام طبقات کا مل کر کام کرنا ضروری ہوتا ہے جس میں سب سے اہم کردار سیاسی جماعتوں کا ہوتا ہے۔ لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں اختلاف اور کشمکش اس تعاون میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ وہ اپنے سیاسی مفادات کو قومی مفاد پر فوقیت دے دیتی ہیں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کے کھیل میں اُلجھ کر عوام کے مسائل کو پس پشت ڈال دیتی ہیں۔ یہ وہ صورتحال ہے جو معاشی بحران کو مزید سنگین بنا دیتی ہے۔ ایسے حالات میں سیاسی جماعتوں کے لیے مصالحت کا عمل نہایت ضروری ہو جاتا ہے۔ یہ مصالحت کسی کمزوری کی نشانی نہیں بلکہ سیاسی بصیرت اور قومی مفاد کے لیے ذمہ داری کا ثبوت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے نظریات سے دستبردار ہو جائیں‘ بلکہ یہ کہ ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کریں جس کا مقصد معاشی بحران سے نجات حاصل کرنا ہو۔ اس مصالحت کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو مل کر معاشی ماہرین اور مفکرین سے مشاورت کرنی چاہیے تاکہ ملکی معیشت کو بحران سے نکالنے کے لیے مؤثر حکمت عملی وضع کی جا سکے۔ اس حکمت عملی میں مالیاتی اصلاحات‘ سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنا‘ ضروری اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے جیسے امور شامل ہونے چاہئیں۔ یہ مصالحت صرف حکومتی سطح پر ہی نہیں بلکہ پارلیمان میں بھی جاری رہنی چاہیے۔ حزبِ اختلاف کو بھی حکومت کے مثبت اقدامات کی حمایت کرنی چاہیے اور تنقید کا حق صرف غیر مؤثر پالیسیوں اور بدعنوانی کے خلاف استعمال کرنا چاہیے۔ ملکی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بار بار حکومت تبدیل ہونے کی وجہ سے کئی ترقیاتی منصوبے ادھورے رہ جاتے ہیں جس سے قیمتی سرمائے کا نقصان ہوتا ہے۔ اگر اہم مسائل پر سیاسی جماعتیں اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں اور مل کر دور رَس اثرات کے حامل منصوبے بنائیں اور یہ یقینی بنایا جائے کہ حکومت تبدیل ہونے کے بعد بھی پہلے سے طے شدہ پالیسیوں پر عمل درآمد جاری رہے گا تو اس سے ملکی ترقی کی رفتار تیز ہو جائے گی۔
اسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور مثبت بحث و مباحثے کے ذریعے معاشی بحران سے نجات ممکن ہے کیونکہ معاشی بحران کسی ایک جماعت یا طبقے کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے ملک کا مشترکہ چیلنج ہے۔ سکیورٹی و معاشی محاذ پر شدید خطرات سے نجات کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں ہے۔ مشکلات سے نمٹنے کے لیے سیاسی جماعتوں میں مصالحت کا عمل ناگزیر ہے تاکہ مل کر ملکی معیشت کو مضبوط بنایا جا سکے اور عوام کو خوشحالی کی طرف لے جایا جا سکے۔ میرے خیال میں پی ٹی آئی کو بھی مفاہمتی عمل کا حصہ بنانے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ ہوا کی مخالف سمت میں زیادہ دیر تک کھڑا ہونا عقل مندی نہیں کہلاتا۔ اگلے چند برسوں تک معیشت ہی موضوعِ بحث اور حکومتوں کی اولین ترجیح ہو گی۔ معاشی بحالی سب سے بڑا بیانیہ ہو گا۔ سیاسی بیانیے سے لوگ اُکتا چکے ہیں کیونکہ پچھلے ایک عشرے سے زائد کے عرصے میں سیاسی بیانیے سے معاشرے کو تقسیم اور معاشی تباہ حالی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اس نقطۂ نظر کے تحت مفاہمت کا مظاہرہ کر رہی ہیں تو یہ وقت کا تقاضا ہے۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ مفاہمت کا یہ عمل وقتی نہیں ہو گا بلکہ یہ سلسلہ حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے تک یونہی چلتا رہے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved