چند مشکلات کے باوجود پاکستان میں ہمیں نسبتاً مثبت ماحول میسر ہے‘ دیگر ممالک میں ایسا ماحول نہیں ہے۔ اسلامی تحریکوں کا پوری دنیا میں جال پھیلا ہوا ہے‘ مگر ان کے خلاف کفر کی قوتیں ہر حربہ اختیار کررہی ہیں۔ پابندیاں لگانے‘ بلیک لسٹ کرنے اور ان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے پُرامن شہریوں کو ہراساں کرنے کے تمام ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ ان کی قیادت کو جو ملک اپنے ہاں پناہ دے‘ اسے بھی نشانۂ انتقام بنایا جاتا ہے۔ ان حالات میں حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے۔ قانون اور آئین کی حدود میں رہتے ہوئے پُرامن انداز میں مسلم ممالک کے اندر اور غیرمسلم اکثریت کے جمہوری معاشروں میں بھی اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانا وقت کی ضرورت ہے۔ کوئی غیر قانونی کارروائی کسی صورت بھی اسلامی تحریکوں کے لیے جائز نہیں۔ سب تحریکوں کے دستور اور اصول وضوابط اس بارے میں بالکل واضح ہیں۔ اقبالؒ کے الفاظ میں آج کا پیغام بھی یہی ہے:
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا روحانی و فکری‘ علمی و تحقیقی لٹریچر لاکھوں صفحات پر جلوہ افروز ہے۔ آپ کی ہر تحریر کا ہر لفظ اور فقرہ اپنے اندر ایک ایسا ایمان افروز پیغام اور ایسی مسحور کن کشش رکھتا ہے جسے پڑھتے ہوئے آدمی کا دل پکار اٹھتا ہے کہ ''جا اینجا است‘‘ یہاں ''انقلاب‘‘ کے حوالے سے آپ کی ایک تحریر بطور یاددہانی و تذکیر نذرِ قارئین ہے: ''انقلاب یاارتقا ہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوا ہے۔ قوت ڈھل جانے کا نام نہیں‘ ڈھال دینے کا نام ہے‘ مڑ جانے کو قوت نہیں موڑ دینے کو قوت کہتے ہیں۔ دنیا میں کبھی نامردوں اور بزدلوں نے کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا۔ جو لوگ اپنا کوئی اصول‘ کوئی مقصدِ حیات‘ کوئی نصب العین نہ رکھتے ہوں‘ جو بلند مقصد کیلئے قربانی دینے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں‘ جو خطرات اور مشکلات سے مقابلے کی ہمت نہ رکھتے ہوں‘ جن کو دنیا میں محض آسائش اور سہولت ہی مطلوب ہو‘ جوہر سانچے میں ڈھل جانے اور ہر دبائو سے دَب جانے والے ہوں‘ ایسے لوگوں کا کوئی قابلِ ذکر کارنامہ انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔ تاریخ بنانا صرف بہادروں کا کام ہے۔ انہی نے اپنے جہاد اور اپنی قربانیوں سے زندگی کے دریا کا رُخ پھیرا ہے‘ دنیا کے خیالات بدلے ہیں‘ مناہجِ عمل میں انقلاب برپا کیا ہے۔ زمانے کے رنگ میں رنگ جانے کے بجائے زمانے کو خود اپنے رنگ میں رنگ کر چھوڑا ہے‘‘۔ (سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ‘ تنقیحات‘ ص: 216)
جس تحریک کا اوپر کے صفحات میں ذکر ہوا ہے‘ اس تحریک کے بارے میں بانیٔ تحریک کی درج ذیل مختصر تحریر نے تو گویا ساتوں سمندروں کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ مزید فرماتے ہیں: ''میرے لیے تو یہ تحریک عین مقصدِ زندگی ہے۔ میرا مرنا‘ میرا جینا اس کیلئے ہے۔ کوئی اس پر چلنے کے لیے تیار ہو یا نہ ہو‘ بہرحال مجھے تو اسی راہ پر چلنا ہے اور اسی راہ میں جان دینی ہے۔ کوئی آگے نہ بڑھے گا تو میں آگے بڑھوں گا‘ کوئی ساتھ نہ دے گا تو میں اکیلا چلوں گا۔ ساری دنیا متحد ہو کر مخالفت کرے گی تو مجھے تن تنہا اس سے لڑنے میں بھی باک نہیں‘‘۔ (رودادِ جماعت اسلامی‘ حصہ اول‘ صفحہ: 30‘ مطبوعہ 2013)
سید مودودیؒ کی ان مختصر علمی و فکری تحریروں کے ساتھ ان کی عملی زندگی کے جو واقعات تاریخ کے سینے میں جلوہ نما ہیں‘ ان کی جھلک بھی دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ اس فرزندِ اسلام کا عمل اس کے دعووں اور تحریرو تقریر کے عین مطابق تھا۔ مارشل لاء عدالت نے 1953ء میں سید مودودیؒ کو ''مسئلہ قادیانیت‘‘ لکھنے پر پھانسی کی سزا سنائی۔ ساتھ ہی یہ پیشکش بھی کی کہ آپ رحم کی اپیل کر سکتے ہیں۔ اس پیشکش کے جواب میں سید مودودیؒ کے الفاظ کا خلاصہ اپنے الفاظ میں مَیں یوں بیان کرتا ہوں۔ آپ نے کہا کہ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پرہوتے ہیں۔ اگر وہاں میری موت لکھی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے بچا نہیں سکتی اور اگر میری زندگی باقی ہے تو تم الٹے بھی لٹک جائو تو مجھے مار نہیں سکتے۔رہی رحم کی اپیل کی پیشکش‘ تو میرے جوتے کی نوک بھی اس کے لیے تیار نہیں ہو گی۔
دس سال بعد اکتوبر 1963ء میں لاہور میں بھاٹی گیٹ میں جماعت کے کُل پاکستان اجتماعِ عام میں ایوبی آمریت کے تحت گولیاں چلائی گئیں۔ ایک کارکن اللہ بخش گولی لگنے سے شہید ہو گیا۔ کچھ لوگ زخمی بھی ہوئے۔ مولانا سٹیج پر کھڑے تھے۔ کچھ ساتھیوں نے کہا کہ مولانا! آپ بیٹھ جائیں۔ آپ نے اس خطرے کی گھڑی میں پوری جرأت ایمانی کے ساتھ فرمایا: ''اگر میں بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون رہے گا‘‘۔ آپ کے یہ الفاظ ٹیپ ریکارڈر میں بھی محفوظ ہیں‘ ہزاروں لوگوں کے ذہن کے اندر بھی ثبت ہیں اور تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن کر ابد تک چمکتے رہیں گے۔ سید مودودیؒ نے جن جواں مردوں کا تذکرہ اپنی تحریر میں فرمایا تھا ان کے لیے خود بہترین رول ماڈل بن کر پوری زندگی گزاری۔ اس زندگی میں نہ کوئی دورنگی ہے اور نہ تصنع۔ اسلامی تحریکوں کی قیادت کو حسبِ استطاعت اسی رول ماڈل کے مطابق خود کو ڈھالنا ہے۔ یہ کام مشکل ہے مگر اس کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔
مولانا مودودی اور ان کی قائم کردہ جماعت اسلامی کے خلاف شروع سے قلم اور زبان کا بے دریغ استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس کے باوجود جماعت کے تمام مخالفین بھی اس بات کا انکار نہیں کر سکتے کہ پورے ملک میں واحد جمہوری سیاسی پارٹی یہی ایک جماعت ہے۔ اس میں منتخب قیادت آمریت اختیار نہیں کر سکتی۔ ہر کام مشاورت سے ہوتا ہے اور اس کا فیصلہ ساز دستوری ادارہ‘مرکزی مجلس شوریٰ ملک بھر سے منتخب ارکان پر مشتمل ہوتا ہے۔ دنیا کی دیگر اسلامی تحریکوں میں بھی یہ اصول کارفرما ہے۔ اس کی سب سے بہترین مثال عرب دنیا کی تحریک اخوان المسلمون ہے۔ ان کا ہر امیر اپنی صلاحیت اور صالحیت کی بنیاد پر منتخب ہوتا ہے۔ یہی اصول جماعت اسلامی کے اندر لاگو ہے۔ ہر امیر کی اپنی ذاتی سوچ فطری بات ہے‘ اس لیے مختلف امرا کے ادوار میں کچھ چیزوں میں تنوع نظر آتا ہے‘ مگر کہیں بھی بنیادی اصولوں سے انحراف کی مثال نہیں ملتی۔
اس وقت جماعت اسلامی کے چھٹے امیر حافظ نعیم الرحمن منتخب ہوئے ہیں۔ ان سے پہلے بھی جتنے امرا منتخب ہوئے تھے کسی کی بھی آپس میں کوئی رشتہ داری یا خاندانی تعلق نہیں تھا۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نئی دہلی کے رہنے والے اور سید خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ میاں طفیل محمدؒ کپورتھلہ کے رہنے والے اور آرائیں برادری کے فرزند تھے۔ تیسرے امیر جماعت قاضی حسین احمدؒ پختون علاقے سے تعلق رکھتے تھے اور ایک اعلیٰ درجے کے دینی خاندان میں انہوں نے آنکھ کھولی تھی۔ چوتھے امیر جماعت سید منور حسنؒ کا تعلق کراچی سے تھا اور وہ بھی سادات میں سے تھے۔ پانچویں امیر سراج الحق صاحب دیر کے کوہستانی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اور پختون قبیلوں کے روشن ہیرے ہیں۔ موجودہ اور چھٹے امیر جماعت انجینئر حافظ نعیم الرحمن کا تعلق بھی انڈیا سے ہجرت کر کے آنے والے ایک معزز مسلم گھرانے سے ہے جن کی شروع ہی سے پہچان اور شہرت دینی اور اخلاقی تھی۔ یہ ایک متوسط درجے کا خاندان ہے مالی لحاظ سے ان کا کوئی بڑا مقام نہیں تھا۔ حافظ صاحب نے جرأت مندی کے ساتھ کراچی کے بگڑے ہوئے حالات میں کلیدی کردار ادا کیا اور وہاں کے عوام اور جماعت کو ایک مقام بخشا۔ اب ان کے سامنے پورے پاکستان کے اندر اپنی کارکردگی دکھانے کا بہت بڑا میدان اور سخت چیلنج ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو سرخرو فرمائے۔آئندہ اس منصب پر کون آئے گا‘ کوئی نہیں جانتا‘ مگر یہ بات سب کو معلوم ہے کہ وہ جو بھی ہو گا صالحیت‘ صلاحیت اور کارکردگی اس کے انتخاب کا پیمانہ ہو گا۔ (ختم)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved