افغانستان میں ہم نے دو طویل امریکی جنگیں لڑیں ۔ہماری سرزمین جلنے لگی اور رفتہ رفتہ ، بتدریج، وہ جنگ ہماری ہو گئی ۔ سوویت یونین کی شکست و ریخت اور واحد عالمی طاقت بننے کا امریکی خواب پاکستان کے بغیر کبھی حقیقت نہ بنتا ۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ جن مجبوریوں نے دونوں قوموں کو جوڑ رکھا ہے، بالآخر وہ ختم ہو تی چلی جائیں گی اور یہی ہمارے روابط کا مستقبل ہے ؎ کہاں کا رشتۂ جاں اور کیسی دوستی پیارے مبالغہ بھی کریں تو نباہنے تک ہے 66برس پہ پھیلے پاک امریکہ تعلقات ؟سیاسی طور پر کمزور فوجی حکومتوں کی امریکی حکّام کے ہاتھوں بلیک میلنگ اور کبھی بجٹ کے لیے درکار ڈیڑھ ، دو سو ارب روپے ۔ دونوں طرف کی مجبوریوں اورحکومتی منافقت کومنہا کر دیا جائے تو امریکی عوام کی ناپسندیدگی اور رعونت بچتی ہے یا پاکستانیوں کی نفرت اور احساسِ کمتری ۔پھر اقوام کے درمیان دوستی نہیں ، مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے وقتی اور دیر پا اتحاد ہوا کرتا ہے ۔ پاکستان کے برعکس امریکہ بھارت تعلقات فطری اور ٹھوس بنیادوں پر استوار ہیں ۔سوال یہ ہے کہ دشمن کا حریف دوست ہوتاہے تو دشمن کا حلیف کیاکہلائے گا؟ سچ تو یہ ہے کہ بظاہر سب سے بڑا نان نیٹو اتحادی ہونے کے باوجود پاکستان اور امریکہ کے درمیان کبھی اعتماد کا رشتہ تھا ہی نہیں ۔ کرزئی حکومت اور بھارتیوں کی افغان سرزمین سے دراندازی اور تحریکِ طالبان کے جنگجوئوں کے لیے محفوظ ٹھکانے اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ سلالہ میں2 درجن پاکستانی جوانوں کی شہادت اورامریکی ایوانِ نمائندگا ن میں آزاد بلوچستان کی حمایت سے یہ اندازہ مشکل نہیں کہ خفیہ طور پر کیا کچھ نہ ہوتا ہوگا۔وہ ایک جارح ملک ہے ، جو دو عالمی جنگوں کے علاوہ چھ بڑے معرکوں میں دوسروں کے ساتھ اپنا دامن بھی چاک کر چکا ہے ۔ گزشتہ نصف صدی میں کوریا، ویت نام ، افغانستان اور عراق ۔ دو بار ایٹم بم گرا کے جاپانی لاشعور میں وہ خوف کی فصل کاشت کر چکا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دوسری جنگِ عظیم میں کشتوں کے پشتے لگا دینے والا جاپان اب امن کا گیت گاتا ہے ۔افغانستان اور عراق کی جنگوں پہ امریکہ نے 4400ارب ڈالر کی ’’سرمایہ کاری‘‘ کی ہے ۔ امریکی جارحیت کے اسی خوف نے نائن الیون کے بعد ہمیں اقدامِ خودکشی پہ مجبور کیا ۔ ’’امریکی امداد کے بغیر ہم مفلوج ہو کر رہ جائیں گے‘‘ ٹی وی اور اخبارات میں بعض ’’دانشور‘‘ گاہے گاہے اس فقرے کی جگالی کرتے پائے جاتے ہیں۔ سن 2000ء میں کل امریکی امداد 45ملین ڈالر تھی ۔ سکّہ رائج الوقت کے حساب سے یہ 4.8 ارب روپے بنتے ہیں اور میرا نہیں خیال کہ ہم فاقہ کشی کا شکار تھے ۔ افغانستان میں عالمی طاقت کی مدد کے عوض آج تک ہمیں جو 20، 22ارب ڈالر دئیے گئے ہیں ، ان کا دو تہائی فوجی اخراجات ہیں ۔ دوسری طرف امریکہ کی بھڑکائی ہوئی اس جنگ میں اب تک ہم 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھا چکے ہیں ۔ سالانہ معاشی امداد ایک ڈیڑھ ارب ڈالر کی حقیر رقم پہ مشتمل ہے ۔ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کی نگرانی پہ امریکی حکومت سالانہ 2000ارب روپے لٹا رہی ہے مگر اب تک کچھ بن نہیں پایا۔امداد نہیں ، ہم قرض پہ زندہ ہیں ۔ 3500 ارب کے حالیہ حکومتی بجٹ کا خسارہ 1600ارب تھا ؛چنانچہ آئی ایم ایف کا رخ کرنا پڑا ۔ قرض تو پھر قرض ہوتا ہے ۔بمعہ سود وہ لوٹانا ہوتا ہے ۔ آئی ایم ایف کی شاہانہ خواہشات کی تکمیل سے پاکستانی روپے کی قدر گررہی ہے ۔ اب تک 420ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ امریکہ نہیں ، چین ہمارا حلیف ہے ۔ اس کی ترقی کے امکانات پاکستانی سرزمین کے راستے گوادر تک رسائی سے منسلک ہیں اور پھر وہ دشمن کا حریف ہے ۔ وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ ٔ چین میں امن و امان کی ابتر صورتِ حال پر چینی قیادت کے تحفظات اپنی جگہ ، حقیقت یہ ہے کہ وہ ممکنہ نقصان کا تخمینہ لگاتے ہوئے، معاشی راہداری کے منصوبے پر بہرحال عمل چاہتے ہیں ۔ وہ ایک طلوع ہوتا ہوا سورج ہے۔ امریکہ کے برعکس چینی زیرک اورمحتاط ہیں ۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاک امریکہ تعلقات بتدریج 90ء کی دہائی میں لوٹ جائیں گے ۔ پاک ایران گیس پائپ لائن کے خلاف امریکی دبائو میں کمی کے سوا ، آنے والے برسوں میں مجھے کسی بڑی پیش رفت کی امید نہیں ۔ وقت آگیا ہے کہ ہم امریکی امداد پہ دارومدار کے سفید جھوٹ اور احساسِ کمتری سے چھٹکارا پائیں۔ آئی ایم ایف کے ہاتھوںروزاپنی معیشت کو آگ لگانے کی بجائے اب ہمیں دوسرا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ 2ہزار ارب کی بجائے ، ٹیکسوں کی مد میں ہمیں سالانہ 3000ارب روپے اکھٹا کرنے ہوں گے اور اس کے لیے اپنی صفوں میں روپوش 32 لاکھ ٹیکس چوروں کی گردن پکڑنا ہوگی ۔تھر کے کوئلے ، اور سوات کے سونے سمیت اپنے قدرتی وسائل کی بنیاد پر معیشت کی تعمیر ۔ یہ بھی نہیں تو فقیری میں زندگی بسر کرنے کا گر سیکھ لیجئے ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved