ویسے تو کوئی دن نہیں جاتا جب ڈاکٹر ظفر الطاف یاد نہ آتے ہوں۔ اٹھارہ برس کا طویل تعلق۔ صرف تعلق نہیں بلکہ ان سے Mentor کا رشتہ تھا۔ لگتا ہے اُن کی وفات کے ساتھ ہی میرے سیکھنے کا عمل رُک گیا۔ ایک دن سوچا‘ دوسری زندگی ملتی اور کہا جاتا کہ اس زندگی میں تم صرف ایک دوست رکھ سکتے ہو تو بغیر سوچے میں ڈاکٹر ظفر الطاف کا نام لیتا۔آج کل پھر اُن کی بہت یاد آئی۔ وجہ گندم سکینڈل بنا۔ ان اٹھارہ برسوں میں ڈاکٹر ظفرالطاف کو اگر کسی کیلئے لڑتے دیکھا تو وہ تھے کسان۔ انہیں کسانوں کیلئے لڑتے دیکھ کر مجھے پنجاب کا چھوٹو رام یاد آتا تھا جس نے برٹش راج میں پنجاب کے کسانوں کیلئے قوانین متعارف کرائے۔ اُسے کسانوں کا محسن قرار دیا جاتا تھا۔ ہاں‘ اگر تقسیم کے بعد کسی کو کسانوں کا محسن کہا جا سکتا ہے تو وہ ڈاکٹر ظفر الطاف تھے۔ انصاف یہ تھا کہ ان دونوں کا مجسمہ وزارتِ زراعت میں لگایا جاتا۔ میں ڈاکٹر صاحب کی کسانوں کیلئے بڑے افسران‘ وزیروں اور حکمرانوں سے لڑائیوں کا عینی شاہد ہوں۔ انہوں نے ان لڑائیوں کی ذاتی اور پروفیشنل قیمت بھی ادا کی۔ سزائیں بھگتیں‘ اہم عہدوں سے ہٹائے گئے۔ گھر بٹھا دیے گئے لیکن مجال ہے اس بندے نے کبھی ہتھیار ڈالے ہوں۔ ہر وقت ہر کسی سے کسانوں کیلئے لڑنے کو تیار۔ صنعتکاروں سے لڑے‘ اپٹما سے کاٹن کے کاشتکاروں کیلئے لڑے اور شوگر ملز ایسوسی ایشن سے گنے کے کسانوں کیلئے‘ جن کے پیسے روک لیے گئے تھے۔ یہ کوئی آسان کام نہ تھا کہ نواز شریف کی حکومت ہو اور وہ چار ارب روپے سے زائد کے مقروض مل مالکان کے نام قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں دے آئیں کہ ان سے کسانوں کے پیسے ریکور کرا کے دیں۔
شوکت عزیز وزیر خزانہ ہو کر ای سی سی کے اجلاس کی صدارت کر رہے ہوں اور ڈاکٹر صاحب بلوچستان کے کسانوں کے پیاز ایکسپورٹ کرانے کیلئے سمری لے کر جائیں اور سبسڈی مانگیں اور آ گے سے انہیں کہا جائے کہ ذرا رُک جائیں‘ ہم چیک کرا لیں‘ اور ڈاکٹر صاحب بھڑک کر شوکت عزیز کو کہیں کہ آپ کو اپنے سیکرٹری زراعت پر بھروسہ نہیں تو میں کسی نجومی کو لے آئوں جو آپ کو قائل کرے کہ بلوچستان کا کسان پہلے بارشوں میں مارا گیا اور اب پیاز کی قیمتیں گر گئی ہیں۔ وہ اپنی سمری منظور کرا کے وہاں سے اُٹھے۔ میری موجودگی میں ان کے ایک قریبی افسر دوست نے کہا: شوکت عزیز آپ سے ناراض ہیں‘ جو آپ نے کمیٹی میں سب کے سامنے انہیں چیلنج کیا۔ ایک ادا سے مسکرائے اور کہا: I damn care۔کاٹن بحران پیدا ہوا تو کسان پھر پِس گئے۔ اپٹما نے عبدالرزاق دائود کو ساتھ ملایا ہوا تھا۔ شوکت عزیز پہلے اُن سے تنگ تھے۔ انہیں اگر کوئی ٹف ٹائم ای سی سی میں دے رہا تھا تو وہ ڈاکٹر ظفر الطاف تھے۔ جنرل مشرف اجلاس کی صدارت کر رہے تھے‘ وہاں ڈاکٹر صاحب کاٹن کے کاشتکاروں کیلئے لڑ رہے تھے جن کی پیداوار کا ریٹ گر گیا تھا۔ اپٹما کے ممبران اُس وقت باہر سے کاٹن منگوا رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا: یہ لوکل فارمر کے ساتھ زیادتی ہے‘ اس سے قیمتیں گر رہی ہیں۔ جنرل مشرف پوری طرح شوکت عزیز اور رزاق دائود کے نرغے میں تھے۔ ڈاکٹر صاحب ویسے ہی باغیانہ مزاج کے انسان تھے۔ رُولز کی وہ پروا نہیں کرتے تھے۔ کسانوں کیلئے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھے۔ جنرل مشرف کے اجلاس سے اُٹھ کر آئے جہاں فیصلہ ہوا تھا کہ فری مارکیٹ ہو گی‘ حکومت کپاس نہیں خریدے گی نہ مارکیٹ میں مداخلت کرے گی۔ مقصد تھا کہ ٹیکسٹائل مالکان اپنی مرضی کے ریٹ پر کپاس خریدیں۔ ڈاکٹر ظفر الطاف سیدھے اپنے دفتر آئے۔ اپنے کاٹن کمشنر ڈاکٹر ذاکرصاحب کو کہا: فوراً کسانوں کی تنظیموں سے رابطے کرو‘ اُن کی کاٹن ہم عالمی مارکیٹ بھیج کر انہیں ڈالروں میں ریٹ لے کر دیں گے۔ اگر لوکل بزنس مین انہیں ریٹ نہیں دے رہا تو پھر اس کاٹن کو ایکسپورٹ کرو۔ ویب سائٹ بنائو اور آرڈرز لینے شروع کرو۔ جونہی خبر نکلے گی کہ کاٹن باہر جا رہی ہے لوکل تاجر فوراً خریدنے دوڑے گا اور ریٹ اوپر جائے گا اور کسان بچ جائے گا۔ایسا کام ڈاکٹر ظفر الطاف جیسا بیورو کریٹ ہی کر سکتا تھا۔
جونہی خبر نکلی کہ کاٹن ایکسپورٹ کرنے کیلئے وزارتِ زراعت بیرونِ ملک سے آرڈرز لے رہی ہے تو مارکیٹ میں ہلچل مچ گئی اور کاٹن ریٹ اوپر جانا شروع ہو گیا۔ اس پر ٹیکسٹائل مالکان نے رزاق دائود اور شوکت عزیز کو شکایت کی اور وہ دوڑے دوڑے جنرل مشرف کے پاس گئے کہ ڈاکٹر ظفر الطاف نے آپ کے حکم کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ رولا پڑ گیا۔ ڈاکٹر صاحب کو بلایا گیا تو بڑے اطمینان سے کہا: آپ نے کہا تھا حکومت کاٹن نہیں خریدے گی‘ نہ مارکیٹ میں مداخلت کرے گی۔ نہ ہم خرید رہے ہیں نہ مداخلت کر رہے ہیں۔ ہم تو پاکستانی کسانوں کا رابطہ عالمی تاجروں سے کرا رہے ہیں۔ انہیں کاٹن بیچنے میں سہولت دے رہے ہیں۔ جو ریٹ انہیں عالمی سطح پر ڈالروں میں مل رہا ہے وہ لوکل تاجروں کو کہیں ہمارے کسانوں کو دیں۔ جنرل مشرف‘ شوکت عزیز‘ رزاق دائود کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے کہ یہ کیسا افسر ہے جس نے ان کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی اور اب ان کے سامنے ڈٹ کر جواز پیش کر رہا ہے اور اسے کوئی پریشانی بھی نہیں کہ اس کے خلاف ایکشن ہو سکتا ہے۔آخر مشرف‘ شوکت عزیز‘ وزیر زراعت خیر محمد جونیجو اور رزاق دائود کامیاب ہوئے اور ڈاکٹر صاحب کو سیکرٹری زراعت کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اُن پر مقدمات بنا دیے گئے۔ جرم یہی تھا کہ انہوں نے کسانوں کے حق میں آواز بلند کی۔ بینظیر بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے سے انکار کیا اور طاقتور وزیروں کے ساتھ لڑتے رہے۔ سزا کے طور پر تین دفعہ سیکرٹری کے عہدے سے ہٹایا گیا۔ ایک دفعہ عہدے سے ہٹایا گیا تو مجھے پوچھا: بھائی جان آپ کی گاڑی کدھر ہے؟چلو مجھے گھر چھوڑ دو۔ گھر پہنچے تو بیگم صاحبہ تک خبر پہنچ چکی تھی۔ طنزیہ کہا: دوبارہ برطرف ہو کر آ گئے ہو ظفر؟ تھوڑا سا چڑ کر بولے: چھوڑو یار! رئوف اور میرے لیے چائے بنا کر بھجوائو۔
آج گندم کا کسان رُل گیا ہے۔ جس قسم کی سمریاں وزارتِ زراعت نے بھیج کر تیس چالیس لاکھ ٹن گندم باہر سے منگوا لی ہے‘ حیران ہوتا ہوں کہ ڈاکٹر ظفر الطاف کے دور میں ایسا کام ممکن تھا؟ اگر گندم منگوانی بھی پڑتی تو اتنی منگوائی جاتی جتنی ضرورت ہوتی۔ صرف ٹی سی پی سے منگواتے‘ کبھی پرائیویٹ سیکٹر کو کھلے کھائو جیسا ماحول نہ دیا جاتا۔ اور سب سے بڑھ کر‘ وہ کبھی دسمبر کے بعد گندم کا ایک جہاز پاکستانی ساحل پر نہ اترنے دیتے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ وہ وزارت جس کے سیکرٹری کی کرسی پر ڈاکٹر ظفر الطاف جیسا دبنگ اور کسانوں سے محبت کرنے والا افسر بیٹھتا تھا‘ وہاں اب بونے بیٹھتے ہیں۔ اب ایسے افسران اس وزارت کو چلا رہے ہیں جنہوں نے زندگی میں کبھی گائوں نہیں دیکھا‘ انہیں کسانوں کے دکھ اور مظلومیت کا کیا علم۔
مجھے یقین ہے کہ آج ڈاکٹر ظفر الطاف زندہ ہوتے تو کسانوں کا یہ حشر دیکھ کر تڑپ جاتے۔ مجھے کہتے: کالم لکھو‘ خود انگریزی اخبار میں لکھتے اور پھر کہتے: مجھے اپنے ٹی وی شو میں بلائو اور حکمرانوں کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیتے۔ وہ زندگی میں ہر چیز پر کمپرومائز کر سکتے تھے مگر کسانوں کے ساتھ زیادتی‘ ظلم برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ بیورو کریسی کتنی بانجھ ہو چکی کہ ڈاکٹر ظفر الطاف 2003ء میں ریٹائرڈ ہوئے‘ 2015ء میں وفات پائی‘ ان برسوں میں اُن جیسا افسر پھر پیدا نہ ہوا۔ اب تو بیورو کریسی کا نام اور ساکھ ہی ختم ہو چکی ہے۔ پنجاب نے کسانوں کے دو محسن پیدا کیے تھے۔ ایک چھوٹو رام اور دوسرے ڈاکٹر ظفر الطاف۔ یقینا ان کی روحیں گندم کے کسانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر بے چین ہوں گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved