یہ برِصغیر کی نامور گلوکارہ شمشاد بیگم کی کہانی ہے جو لاہور میں پیدا ہوئی‘ جسے گانے کا جنون کی حد تک شوق تھا‘ جس کی آواز میں گھنٹیاں بجتی تھیں اور جس کے گیتوں نے موسیقی کی دنیا میں ہلچل مچا دی تھی۔ یہ آواز سب سے جدا اور سب سے مختلف تھی۔ اس کی آواز ہر رنگ میں ڈھل جاتی تھی۔ وہ شوخ گیت گاتی تو گیت کے اَنگ اَنگ میں شرارت جاگ اُٹھتی اور اداس سچوایشن میں اس کی آواز سننے والوں کے دلوں کو مٹھی میں بند کر لیتی۔ اس کے گیتوں میں ایک عجیب سحر تھا۔ کیسے کیسے گیت تھے جو شمشاد کی آواز کو چھو کر امر ہو گئے۔ ''میرے پیا گئے رنگون‘‘، ''کبھی آر کبھی پار‘‘، ''کجرا محبت والا‘‘، ''چھوڑ بابل کا گھر‘‘، ''تری محفل میں قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں گے‘‘۔ یہ گیت ماہ و سال کی قید سے آزاد ہیں۔ ان دنوں شمشاد کی آواز بمبئی کی بالی وُڈ پر راج کرتی تھی اور معاوضے کے اعتبار سے اس کا پہلا نمبر تھا۔
شمشاد بیگم کے فنی سفر کی کہانی اتنی سادہ نہیں۔ اس میں کئی موڑ آئے لیکن اس کے دل میں موسیقی کی محبت کم نہ ہوئی۔ اس کہانی کی ابتدا لاہور سے ہوتی ہے۔ وہی لاہور‘ جو متحدہ ہندوستان میں علم و ادب اور ثقافت کا مرکز تھا اور جسے ہندوستان میں وہی مقام حاصل تھا جو یورپ میں پیرس کو تھا۔ اسی لاہور کے ایک عام سے گھر میں 14 اپریل 1919ء کو شمشاد نے جنم لیا۔ اس کے والد کا نام میاں حسین بخش اور والدہ کا نام غلام فاطمہ تھا۔ شمشاد کے پانچ بھائی اور تین بہنیں تھیں۔ والد حسین بخش پیشے کے لحاظ سے مستری تھے۔ شمشاد کی آواز میں قدرتی موسیقیت تھی۔ شمشاد کی آواز کی خوبصورتی کو سب سے پہلے اس کے پرائمری سکول کی ہیڈ مسٹریس نے پہچانا اور سکول میں دعا پڑھنے کے لیے اس کا انتخاب کیا۔ یوں گھر سے باہر اس کی آواز کو پہلی بار Acknowledge کیا گیا۔ سکول کی ہیڈ مسٹریس کی حوصلہ افزائی نے ننھی شمشاد کو اعتماد دیا اور وہ خاندان کی تقریبات میں کبھی کبھار گانے لگی۔ لوگ دس سالہ بچی کی آواز سن کر سوچتے اس آواز میں کوئی خاص بات ایسی ہے کہ وہ دلوں میں گھر کر جاتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ گائیکی کے لیے شمشاد کی آتشِ شوق تیز ہوتی گئی۔ دلچسپ بات یہ کہ موسیقی میں اس نے کوئی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی تھی۔ لگتا تھا قدرت نے گائیکی کا ہنر اسے ودیعت کیا ہے۔ اسی لیے موسیقی میں باقاعدہ تربیت نہ ہونے کے باوجود اسے خود پر اعتماد تھا اور وہ اپنے شوق کی انگلی پکڑ کر آگے‘ بہت آگے جانا چاہتی تھی۔
لیکن اس کے شوق کے راستے میں ایک رکاوٹ تھی۔ یہ رکاوٹ باہر نہیں‘ خود اس کے گھر کے اندر تھی۔ اس کے والد اور والدہ شمشاد کے گانے کے سخت مخالف تھے۔ لیکن اسی گھر میں ایک شخص ایسا تھا جسے موسیقی سے دلچسپی تھی‘ جو شمشاد کی آواز کے Potential سے آگاہ تھا‘ اور جو اسے آ گے بڑھتا دیکھنا چاہتا تھا۔ یہ شمشاد کا چچا عامر تھا جو مشکل حالات میں بھی شمشاد کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا۔ وہ موسیقی کے اَسرار و رموز جانتا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ وہ شمشاد کی آواز کو بڑی سطح پر متعارف کرائے۔ اس کے لیے وہ کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھا۔ یہ موقع جلد ہی آگیا جب پتا چلا کہ موسیقی کی ایک کمپنی نوجوان گلوکاروں کے آڈیشن لے رہی ہے۔ چچا نے شمشاد کو ساتھ لیا اور وہ دونوں میوزک کمپنی کے دفتر جا پہنچے۔ امیدواروں کے آڈیشن اس وقت کے جانے مانے موسیقار ماسٹر غلام حیدر لے رہے تھے۔ ادھر شمشاد‘ جس نے کبھی موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی تھی۔ اس وقت شمشاد کی عمر صرف بارہ‘ تیرہ برس تھی۔ ماسٹر غلام حید ر نے اسے حیرت سے دیکھا اور پوچھا کیا سنائو گی؟ شمشاد نے اعتماد سے جواب دیا ''ماسٹر صاحب میں بہادر شاہ ظفر کی غزل پیش کرتی ہوں‘‘۔ اس کے ساتھ ہی شمشاد نے بہادر شاہ ظفر کی غزل ''مرا یار مجھے ملے اگر‘‘ سنانا شروع کی۔ جوں جوں شمشاد کی آواز کا جادو پھیل رہا تھا‘ ماسٹر غلام حیدر کی آنکھوں میں حیرت اور ستائش کے رنگ گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ غزل کے بعد شمشاد نے کچھ مرثیے سنائے۔ ماسٹر غلام حیدر حیران تھے کہ بارہ تیرہ سال کی یہ لڑکی موسیقی کی باقاعدہ تربیت کے بغیر اتنی مہارت سے کیسے گا سکتی ہے۔ ماسٹر غلام حیدر کو دن میں کئی بار نئے شوقیہ فنکاروں کو سننے کا موقع ملتا تھا لیکن شمشاد کی آواز میں کچھ خاص بات تھی جو سب سے منفرد تھی۔
اب گانا ختم ہونے کے بعد شمشاد اور اس کے چچا ماسٹر غلام حیدر کے جواب کے منتظر تھے۔ ماسٹر غلام حیدر نے کچھ دیر توقف کیا اور پھر اپنا فیصلہ سنایا۔ یہ ایک حیران کر دینے والا فیصلہ تھا۔ ماسٹر غلام حیدر نے شمشاد کو بیک وقت بارہ گانوں کا کنٹریکٹ دے دیا تھا۔ کنٹریکٹ کے مطابق شمشاد کو ہر گانے کا معاوضہ پندرہ روپے اور کنٹریکٹ ختم ہونے پر پانچ ہزار روپے ملنے تھے۔ شمشاد اور اس کے چچا کو یقین نہ آیا کہ جو انہوں نے سنا ہے‘ کیا وہ واقعی سچ ہے؟ شمشاد اور اس کے چچا کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنی جلدی اتنی بڑی کامیابی ان کے قدم چومے گی۔ لیکن ابھی اصل آزمائش باقی تھی اور وہ شمشاد کے ماں باپ کی اجازت تھی۔ کیا شمشاد کا والد اس کو اجازت دے گا؟ یہ ذمہ شمشاد کے چچا نے اُٹھایا اور آخرکار کافی بحث کے بعد شمشاد کے والد کو راضی کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ والد نے شمشاد کو اجازت تو دے دی لیکن اس کے ساتھ کچھ شرائط بھی رکھیں۔ پہلی شرط یہ تھی کہ وہ صرف گانا گا سکتی ہے‘ وہ فلموں میں کبھی کام نہیں کرے گی۔ دوسری شرط یہ کہ وہ کبھی تصویر نہیں بنوائے گی۔ تیسری شرط یہ وہ کسی تقریب میں شریک نہیں ہو گی اور چوتھی شرط یہ کہ وہ سٹوڈیو میں گانا گانے کے بعد سیدھا گھر آئے گی۔ شمشاد نے یہ تمام شرائط ماننے کا وعدہ کیا اور پھر زندگی بھر اپنے وعدے کا پاس کیا۔
شمشاد اس لحاظ سے خوش قسمت تھی کہ فنی سفر کی ابتدا ہی میں اسے معروف موسیقار ماسٹر غلام حیدر کا ساتھ میسر تھا۔ شمشاد نے بعد میں ایک انٹرویو میں بتایا کہ ماسٹر غلام حیدر کا اس کی زندگی میں کتنا اہم کردار تھا‘ وہ صحیح معنوں میں اس کے مینٹور تھے۔ شمشاد کو یاد ہے کہ ماسٹر غلام حیدر نے اسے نصیحت کی تھی کہ اچھا فنکار بننے کے لیے اچھا انسان بننا ضروری ہے۔ یہ نصیحت شمشاد نے پلّے باندھ لی۔ اس بات کی گواہی اس کے ساتھی فنکار دیتے ہیں کہ کس طرح شمشاد نے تمام عمر دوسروں سے محبت اور مہربانی کا سلوک کیا۔ ماسٹر غلام حیدر نے اسے یہ بھی بتایا تھا کہ سچوایشن کے مطابق اسے اپنے آپ کو ڈھالنا ہو گا‘ بالکل اسی طرح جیسے پانی جس برتن میں ہو اس کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ نصیحت شمشاد کے بہت کام آئی۔
میوزک کمپنی سے منسلک ہونے کے بعد شمشاد نے باقاعدہ گیت گانے کا آغاز کر دیا۔ اس کا پہلا غیر فلمی گیت ''جے جگدیش ہری‘‘ تھا لیکن میوزک کمپنی نے فیصلہ کیا کہ ریکارڈ پر شمشاد کے بجائے ''اوما دیوی‘‘ کا نام لکھا جائے۔ میوزک کمپنی کے لیے شمشاد نے اردو اور پنجابی‘ دونوں زبانوں میں گیت گائے۔ اسی دوران اسے آل انڈیا ریڈیو دہلی سے گانے کی پیشکش ہوئی۔ اس زمانے میں کسی فنکار کے لیے ریڈیو کی ملازمت کی بڑی اہمیت تھی۔ ریڈیو کی ملازمت کے لیے فنکار عمر بھر خواب دیکھا کرتے تھے۔ لیکن شمشاد کو اتنی کم عمری ہی میں آل انڈیا ریڈیو دہلی سے ملازمت کا پروانہ مل گیا تھا۔ سب اس کی خوش قسمتی پر رشک کر رہے تھے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved