دین کوئی پیشہ یا ملازمت نہیں‘ بلکہ ایک مقدس مشن اور انبیائے کرام علیہم السلام کی میراث ہے۔ پس خطابت اور دعوتِ دین کا ہدف اور اس کا مقصود و مطلوب مال و زر کا حصول‘ طلبِ شہرت اور نمود و نمائش کے بجائے سراسر رضائے الٰہی کا حصول اور لوگوں کی تادیب و اصلاح ہونی چاہیے۔ بارگاہِ الٰہی میں کسی بھی نیک عمل کی قبولیت کے لیے للٰہیت و اخلاص بنیادی شرط ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہر پیغمبر نے اپنی قوم سے برملا فرمایا: ''میں (دعوتِ دین کے) اس عمل پرتم سے کسی اجر کا طلبگار نہیں ہوں‘ میرا اجر تو فقط رب العالمین کے ذمہ کرم پر ہے‘‘۔ قرآنِ مجید میں اس مضمون کی آیات تقریباً گیارہ مقامات پر آئی ہیں‘ اُن میں سے چار مقامات سیدنا محمدرسول اللہﷺ کے بارے میں ہیں اور سات مقامات دیگر انبیائے کرام نوح‘ ہود‘ لوط اور شعیب علیہم السلام کے بارے میں ہیں‘جو چار مقامات رسول اللہﷺکی ذاتِ گرامی سے متعلق ہیں‘ اُن میں سے ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے ابراہیم‘ اسحاق‘ یعقوب‘ نوح‘ دائود‘ سلیمان‘ ایوب‘ یوسف‘ موسیٰ‘ ہارون‘ زکریا‘ یحییٰ‘ عیسیٰ‘ الیاس‘ اسماعیل‘ الیَسَع‘ یونُس اور لوط علیہم الصلوٰۃ والسلام کا ذکرکرنے بعد فرمایا: ''(اے نبی!) یہی وہ لوگ ہیں‘ جنہیں اللہ نے ہدایت دی‘ سو آپ بھی ان کے طریقے پر چلتے رہیں‘ آپ کہیے:میں اس (دعوتِ حق) پرتم سے کوئی اجر نہیں مانگتا‘ یہ تو صرف تمام جہان والوں کے لیے نصیحت ہے‘‘ (الانعام: 90)۔ سورۂ ہود میں ہود علیہ السلام کے متعلق صراحت کے ساتھ مذکور ہے: اُنہوں نے فرمایا: ''میں اس (دعوتِ دین) پر تم سے کوئی مال نہیں مانگتا‘‘ (ہود: 29)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام نے جس اجر کی نفی فرمائی ہے‘ اس سے دنیوی اجر و صلہ مراد ہے‘ جبکہ اخروی اجر تو انبیائے کرام علیہم السلام کا مقصود و مطلوب تھا۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا: ''میں توصرف اصلاح چاہتا ہوں جہاں تک میرے بس میں ہے اور توفیق دینے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے‘ میں نے اسی پر بھروسا کیا اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں‘‘ (ہود: 88)۔
احادیثِ مبارکہ میں ہے: (1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ''رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اندازِ بیاں محض اس لیے سیکھا کہ لوگوں کے دل جیت لے‘ تو روزِ قیامت اس کا کوئی فرض اور نفل قبول نہیں فرمائے گا‘‘ (سنن ابودائود: 5006) یعنی جو عالم اس مقصد کے لیے خطابات کرتا ہے کہ لوگ اُس کے معتقد اور گرویدہ ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ اس کی تمام نیکیوں کو ضائع فرما دے گا۔ (2) حضرت بشر بن عقبہؓ بیان کرتے ہیں: ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے اپنے خطبے کو (رضائے الٰہی کے حصول کے بجائے) نمود و نمائش اور طلبِ شہرت کا ذریعہ بنایا‘ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بھی اسے اُس مقام پر ٹھہرائے گا جو ریاکاروں کے لیے ہے‘‘ (مسند احمد: 16073)۔ پس خطابت کا مقصد دین کا ابلاغ اور عالمِ انسانیت کی اصلاح کر کے اُن کی عاقبت کو سنوارنے کی کوشش کرنا ہے‘ لہٰذا خطبا اور واعظین حضرات کو اس پاکیزہ منصب کے تقدس کو مدِّنظر رکھنا چاہیے۔
داعیانِ دین کے لیے اُصولِ شریعت سے مکمل آگہی‘ قرآن وسنت کے نصوص کے فہم میں کامل دسترس‘ سیرت و تاریخ سے واقفیت‘ حالاتِ حاضرہ کی درست معلومات اور لوگوں کی نفسیات کو جاننا بے حد ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''پس ایسا کیوں نہ ہوا کہ اُن کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت (اللہ کے دین کے لیے) نکلتی تاکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کرتے اورجب وہ واپس اپنی قوم کی طرف لوٹتے تو اُن کو (اللہ کے عذاب سے) ڈر اتے تاکہ وہ گناہوں سے بچیں‘‘ (التوبہ: 122) یعنی اسلامی سَماج سے اخلاقی اور اعتقادی بے اعتدالیوں کے خاتمے کے لیے ایسے ذی استعداد افراد کا ہونا ضروری ہے‘ جنہیں دین کی بصیرت‘ اس کے اَسرار و رموز اور اغراض و مقاصد کا فہم و ادراک ہو اور دوسروں کو دین سمجھانے اور اُن کے دل نشین کرنے کی استعداد رکھتے ہوں۔ نیز فرمایا: ''(اے رسول!) آپ کہیے: یہ (دعوتِ دین) میرا طریقِ عمل ہے‘ میں اور میرے پیروکار (بھی) پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتے ہیں‘‘ (یوسف: 108)۔ بصیرت سے مراد وہ قطعی دلائل اور قوی براہین ہیں جو شکوک و شبہات کو جڑ سے اکھیڑ دیتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: قربِ قیامت کی علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ تمہارے منبروں پر جہلاء قابض ہوں گے‘‘ (کنز العمال: 39639)۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں یہ عنوان قائم کیا ہے: ''بَابٌ: العِلْمُ قَبْلَ القَوْلِ وَالْعَمَل‘‘ یعنی کسی بھی چیز کی طرف زبانی دعوت اور عملی تطبیق سے قبل اس کے بارے میں جاننا اور علم حاصل کرنا ضروری ہے‘ کیونکہ جو شخص خود ہی شریعت سے بے بہرہ‘ دین کی روح سے بے خبر اور احوالِ زمانہ سے ناآشنا ہو‘ وہ دوسروں کی زندگیوں میں انقلاب کیسے برپا کر سکتا ہے۔ حضرت ابوقلابہؓ فرماتے ہیں: ''پیشہ ور واعظوں اور خطیبوں نے علم اور دین کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے‘ ایک شخص سال بھر اُن کی مجلس میں بیٹھتا ہے‘ لیکن اس کے باوجود وہ جاہل کا جاہل ہی رہتا ہے‘ جبکہ عالم کی مجلس سے کچھ سیکھ کر ہی اُٹھتا ہے‘‘ (حلیۃ الاولیاء‘ ج: 2‘ ص: 287)۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ ایک واعظ کے پاس سے گزرے‘ آپؓ نے اُسے پیر سے ٹھوکر ماری اور فرمایا: تم ناسخ و منسوخ کو جانتے ہو‘ اس نے کہا: یہ کیا ہوتا ہے؟ فرمایا: تُو خود بھی ہلاک ہو گیا اور تُو نے دوسروں کو بھی ہلاک کر دیا‘‘ (المعجم الکبیر:10603)۔ ابو ادریس خولانی فرماتے ہیں: ''میں کسی ایسے شخص کو وعظ کرتے ہوئے دیکھوں جو فقیہ اور عالم نہ ہو‘ اس کی نسبت میرے لیے یہ بات زیادہ آسان ہے کہ میں کسی مسجد کو آگ میں جلتا ہوا دیکھوں‘‘ (اَلْقُصَّاص وَالْمُذَکِّرِیْن‘ص: 352)۔
اہلِ علم اور صاحبانِ رشد و ہدایت کے لیے جس قدر علم ضروری ہے‘ اس کے متعلق امام شافعیؒ فرماتے ہیں: ''عوام کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ تمام فرائض‘ واجبات‘ سُنَنْ‘ آداب اور تمام محرمات اور مکروہات کا علم حاصل کریں اور خواصّ (یعنی اہلِ علم اور داعیانِ دین) کے لیے ضروری ہے کہ وہ احکامِ شرعیہ کی تمام فروعات‘ قرآن مجید کی صریح عبارات‘ دلالت‘ اشارات اور اقتضائِ نصوص کا علم حاصل کریں‘ قیاس اور اس کی شرائط کو جانیں اور ایسی مہارت حاصل کریں کہ کسی پیش آمدہ مسئلے کا حکم کتاب و سنت کی روشنی میں بتا سکیں‘ ہر شخص کے لیے اتنی مہارت حاصل کرنا ضروری نہیں ہے‘ لیکن مسلمانوں میں سے چند افراد کے لیے اتنا علم حاصل کرنا ضروری ہے‘ ورنہ سب گناہگار ہوں گے‘‘ (شُعَبُ الْاِیْمَان‘ ج: 2‘ ص: 253) یعنی اس قدر علم کہ بوقتِ ضرورت قوم کی رہنمائی کر سکیں‘ بحیثیتِ مجموعی امت پر فرضِ کفایہ ہے۔
علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں: ''خطاب اور وعظ کرنے کے لیے علم دین کا حاصل کرنا شرعاً واجب ہے اور بے علم آدمی کا خطاب اور وعظ کرنا مکروہِ تحریمی ہے اور اس پر اصرار کرنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے‘ عالم کا معیار یہ ہے کہ وہ قرآنِ مجید کی آیات کا ترجمہ کر سکے‘ احادیث کی عربی عبارات صحیح صحیح پڑھ اور سمجھ سکے‘ نیز علمِ کلام اور فقہ کی عبارات کو پڑھ اور سمجھ سکے‘ محض اُردو کی کتابیں پڑھ کر وعظ کرنا اور لوگوں کو مسائل بتلانا شرعاً حرام ہے‘ البتہ علماء اور منتہی طلبہ کسی محقق عالم دین کی اُردو تصانیف سے مطالعہ و استفادہ کر کے بیان کریں تو جائز ہے‘ لیکن جو شخص علومِ عربیہ سے بالکل جاہل ہو‘ اس کے لیے اردو کتابیں پڑھ کر وعظ کرنا قطعاً حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اور ہم لوگوں کے لیے یہ مثالیں بیان کرتے ہیں اور ان کو (کماحقہٗ) صرف عالم ہی سمجھ سکتے ہیں‘‘ (العنکبوت: 43) اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص قرآن مجید کی آیات کا از خود ترجمہ نہ کر سکے‘ اس کے لطائف اور باریکیوں کو نہ سمجھ سکے‘ وہ عالم نہیں ہے‘‘ (تبیان القرآن‘ ج: 1‘ ص: 382)۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved