کہیں دنیا میں ظلم اور ناانصافی ہو رہی ہو اور ظالموں کے بارے میں معلوم بھی ہو کہ وہ کون ہیں‘ ان کے مددگار کہاں ہیں اور کس طرح کی انہیں وہ مدد فراہم کررہے ہیں تو جو اپنے زندہ ضمیر کے ساتھ زندگی گزارنے کا ہنر جانتے ہیں‘ وہ مزاحمت کرتے ہیں۔ مزاحمت کے کئی رنگ اور طریقے ہیں۔ میں ذاتی طور پر کسی بھی پُرتشدد مزاحمت کے خلاف ہوں اور ہمیشہ رہوں گا۔ میرا نظریاتی تعلق عدم تشدد کے فلسفے اور ایسے فلسفیوں کے ساتھ گزشتہ نصف صدی سے ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میں نے شعبۂ تدریس اختیار کرتے ہی سیاسی فلسفے کو دوبارہ پڑھنا شروع کیا۔ اس صفحے کے کچھ مضامین میں ہنری ڈیوڈ تھورو کا ذکر کئی بار کر چکا ہوں۔ میں اس کی سادہ اور فطرت کے قریب بسر ہونے والی زندگی اور فطرت سے بے پناہ محبت سے تو متاثر ہوں ہی‘ مگر اس سے کہیں زیادہ سچائی اور حق اور انصاف کے لیے کھڑے ہونے کی ان کی مثال اور تحریریں ہمارے عدم تشدد کے علمی فلسفے کے لیے مشعلِ راہ رہی ہیں۔گزشتہ 22 برسوں میں لاہور کی ایک نجی جامعہ میں کئی بار عدم تشدد کے نظریے اور اس کی عملی سیاست پر اپنا ترتیب دیا ہوا کورس پڑھا چکا ہوں۔ شروع میں تھورو سے کرتا ہوں اور چار ماہ بعد آخر میں بات نیلسن منڈیلا پر ختم ہوتی ہے۔ اب معلوم نہیں لوگ باتیں کرتے اور اخباروں میں مضامین لکھتے وقت ذرہ بھر تحقیق کی زحمت کیوں نہیں کرتے۔ تعلیمی نظام‘ جامعات‘ اساتذہ اور علم و تحقیق کے بارے میں اپنے کچھ مفروضے بنا کر رکھے ہیں اور انہیں بنیاد بنا کر اپنی باتیں دہراتے رہتے ہیں۔ مقصد نہ تو کوئی صفائی پیش کرنا ہے اور نہ ہی اپنے کام کی تشہیر مقصود ہے بلکہ یہ بتانا ہے کہ آج کل جامعات میں سماجی علوم میں جو مضامین پڑھائے جارہے ہیں‘ وہ اس نصاب سے بالکل مختلف ہیں جو آپ نے پڑھے ہوں گے ۔
عدم تشدد کے فلسفے میں صرف یہ نہیں کہ آپ حق و انصاف کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے تلوار اور بندوق سے کام نہیں لیں گے بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ایسا ہو رہا ہے‘ اس کے خلاف حتی المقدور آواز اٹھانی ہے‘ بے شک آپ کی آواز کمزور ہی کیوں نہ ہو۔ مغرب کا نوجوان امریکی ریاست کیلیفورنیا کی جامعات سے لے کر برطانیہ‘ فرانس اور یورپ کے کئی دیگر ممالک میں غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی اور بربریت کے خلاف احتجاج کررہا ہے۔ اب تک سینکڑوں گرفتار ہو چکے ہیں۔ انہیں پولیس تشدد کا نشانہ بناتی ہے مگر وہ انہی جامعات کی انتظامیہ کے خلاف پُرزور مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ان کمپنیوں سے سرمایہ نکال لیں جو اسرائیل کے ساتھ کاروبار کرتی ہیں۔ آپ کے لیے شاید یہ بات نئی ہو کہ امریکہ کی ہر نامور نجی جامعہ کے وقف اثاثوں کا حجم سینکڑوں ارب ڈالرتک ہے۔ وہ فیسوں کی آمدنی کے ساتھ بینکوں‘ انشورنس کمپنیوں‘ صنعتوں اور ہر نوع کی تجارت میں سرمایہ کاری کرتی ہیں۔ ہر ایک کا انتہائی قابل اور پیشہ ور شعبہ اس سلسلے میں جامعات کے سرمائے کو منافع بخش کاروبار میں لگائے رکھتا ہے۔ کچھ کی مالی استعداد دنیا کے اکثر ممالک کے جمع سرمائے سے کہیں زیادہ ہے۔ طالب علموں کا اصرار ہے کہ چونکہ اس سرمائے میں ان کی فیسیں شامل ہیں‘ اس لیے ان کی آواز سنی جائے ۔ اس طرح کے مطالبوں کی پرانی تاریخ ہے‘ جس کا میں شاہد بھی ہوں اور خود حصہ بھی لیا ہے۔
جس طرح آج کل اسرائیل کے ساتھ کاروبار کرنے والی کمپنیوں کے خلاف امریکہ کا نوجوان متحرک ہے‘ اس طرح وہ جنوبی افریقہ میں نسل پرست سفید فام اقلیتی حکومت کے خلاف بھی تھے۔ 1980ء کی دہائی کے شروع میں تحریک شروع ہوئی اور ہر اُس جامعہ میں طالب علموں نے احتجاج کیا جس کا ان کمپنیوں میں سرمایہ تھا جو اس وقت کے جنوبی افریقہ میں کاروبار کرتی تھیں۔ یہ1985ء کے موسم بہار کا ذکر ہے کہ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو برکلے تشریف لائے تو ان کی تقریر کا اہتمام فٹ بال کے بڑے گراؤنڈ میں ہوا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ تھے‘ تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے کمپنیوں کے بائیکاٹ کی تحریک چلا رکھی تھی اور جنوبی افریقہ کی آزادی کے لیے وہ فنڈز بھی اکٹھے کرتے تھے۔
خوشی کی بات ہے کہ طلبہ کی تحریک کامیاب ہوئی اور بڑھتے ہوئے مطالبوں کے پیشِ نظر تقریباً سب جامعات نے ان کمپنیوں سے اپنا سرمایہ نکال لیا۔ آج کل بالکل وہی مطالبہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ جو کمپنیاں کاروبار کرتی ہیں یا کسی اور طرح سے ان کی اعانت کرتی ہیں‘ ان سے جامعات کا تعلق رکھنا کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ ذاتی طور پر یہ نوجوان ان کمپنیوں کی مصنوعات خرید نہیں کرتے۔ مجھے وہاں طالب علمی کے زمانے میں سٹوڈنٹس ایکشن گروپ میں شمولیت اور ایک دن کی ٹریننگ کا موقع ملا۔ بس اتنی ہی ٹریننگ کافی سمجھی جاتی تھی۔ اُس تحریک کا ہمارا مقصد یہ تھا کہ کچھ کمپنیوں کا دودھ کا بے بی فارمولا‘ جو وہ تیسری دنیا کے ممالک میں فروخت کررہے تھے‘ ناقص تھا۔ جو ہماری طرف سے تحقیق ہوئی تھی‘ اس کے مطابق خوراک کے وہ اجزا اس مقدار میں شامل نہیں تھے جن کا دعویٰ کیا جارہا تھا۔ ہم سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کرتے‘ پمفلٹ لکھتے اور تقسیم کرتے اور وہاں کی حکومت اور میڈیا کی توجہ دلاتے کہ تیسری دنیا کے شیر خوار بچوں اور ان کے غریب والدین کا استحصال بند کیا جائے۔ نیز ایسی کمپنیوں کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ ہماری ذاتی اور محدود مزاحمت سے دنیا تو تبدیل شاید نہ ہو پائے مگر اصول اور ضمیر کے ساتھ زندگی گزارنے کی راہ تو ہموار اور آسان ہو جاتی ہے۔ یہ بالکل اسی طرح کہ ہمارے اپنے سماج میں کمزور مگر باعزت لوگ طاقتور مقامی لوگوں کے ظلم اور ناانصافیوں کے خلاف اگر آواز نہیں اُٹھا سکتے تھے تو کم از کم اپنا راستہ بدل لیتے تھے۔ کچھ کو دیکھا ہے کہ علاقہ ہی چھوڑ کر کہیں اور جا بسے اور پھر کوئی خبر بھی نہ آئی۔
عالمگیریت کے اس دور میں اپنی ملکی مجبوریوں کے پیشِ نظر مجھے نہیں معلوم کہ ہم اپنے صارفی رویے کس حد تک تبدیل کر سکتے ہیں۔ ہمارے عرب دوست ممالک اور کچھ دیگر مسلم ممالک تو اپنی منڈیاں اسرائیل کے لیے کھول چکے ہیں۔ ملکوں کی بات اور ہے‘ وہ جانیں اور ان کے مفادات کی سیاست۔ مگر کم از کم ذاتی طور پر سب کچھ جانتے ہوئے کہ بین الاقوامی کاروباری کمپنیوں کے تانے بانے کہاں تک جاتے ہیں‘ فلسطینیوں کی نسل کشی کے تناظر میں کچھ خرید کرتے وقت ملک کے اندر یا باہر‘ کچھ دیر رک کر سوچ تو لیں۔ ایک واقعہ یاد آگیا۔ 1977ء میں ایک فلم امریکہ میں بنی تھی ''فلسطین‘‘۔ اس میں مرکزی کردار وینسا ریڈ گریوکا تھا۔ دھونی پلازہ‘ لاس اینجلس میں جب اس کا پہلا شو ہونا تھا‘ وہاں اُس دن بم دھماکا ہو گیا اور شو نہ ہو سکا۔ یہ ایک تاریخی فلم ہے جو صہیونیوں کو پسند نہ تھی اور انہوں نے وینسا ریڈگریو کا کیریئر تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ہم نے اپنی امریکی جامعہ کے ایک ہال میں اس کا شو منعقد کیا اور ٹکٹ ایک ڈالر رکھا۔ پیرو ملک کا ایک یہودی میرا کلاس فیلو وہاں کھڑا تھا‘ مگر فلم نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ میں نے ایک ڈالر ادھار کی درخواست کی اور ساتھ ہی ٹکٹ اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ یقین جانیں وہ لڑنے پر اُتر آیا‘ اور معلوم ہوتا تھا کہ اگر ایک ڈالر واپس نہ کرتا تواس نے میرے خلاف صہیونی طاقت کا استعمال کر گزرنا تھا۔ عصبیت یہ بھی ہے کہ جنہیں آپ مظلومیت اور انسانیت کی بنیاد پر اپنا سمجھتے ہیں‘ ان کی مدد جیسے بھی ممکن ہو‘ کچھ اور نہیں تو بائیکاٹ کرکے بھی کر سکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved