دعوتِ حق کی جاذبیت و تاثیر اور قبولِ عام کے لیے دین کے داعی و مبلغ کا عالم باعمل اور اعلیٰ کردار و اخلاق سے متصف ہونا ضروری ہے اور چھوٹے بڑے تمام گناہوں کے علاوہ عوام الناس میں نفرت کا باعث بننے والے ہر خلافِ اخلاق اور خلافِ مُرُوّت کام سے کوسوں دور رہناضروری ہے‘ کیونکہ عام لوگ اُس کے قول و فعل اور معاملات کا نہایت باریک بینی اور تنقیدی نظر سے مشاہدہ کرتے ہیں۔ دین کے داعی کی اپنی بے عملی‘ دوغلا پن اور قول و فعل کا تضاد لوگوں کے دین سے متنفر ہونے کا سبب بنتا ہے اور قبولِ حق کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اہلِ کتاب کے علما میں قول و فعل کے تضاد کی خرابی رچ بس گئی تھی۔ اسے قرآنِ کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: (1) ''کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھلا دیتے ہو‘ حالانکہ تم کتابِ (الٰہی) کی تلاوت کرتے ہو‘ تو کیا تم سمجھتے نہیں ہو‘‘ (البقرہ: 44)۔ (2) اے ایمان والو! تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو خود کرتے نہیں ہو‘ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بڑی ناراضی کی بات ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے‘‘ (الصف: 2 تا 3)۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: ''میں اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ خطرہ (مسندِ علم پر قابض) ایسے منافقوں سے محسوس کرتا ہوں جو چرب لسانی میں ماہر ہوں گے‘‘ (مسند احمد: 310) اور دوسری روایت میں ہے: ''میں اپنی امت کے بارے میں مسندِ علم کے گمراہ کن قابضین سے بہت زیادہ خطرہ محسوس کرتا ہوں‘‘ (مسند احمد: 27485)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: ''عالم کی لغزش‘ منافق کا قرآن میں جھگڑنا اور گمراہ کن سرداروں کی حکومت اسلام کو ڈھا دیتی ہے (یعنی لوگوں کے دلوں سے اسلام کی حرمت اور وقار اٹھ جاتا ہے)‘‘ (سنن دارمی: 214)۔
حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں‘ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا‘ پس اُس کی آنتیں آگ میں نکل رہی ہوں گی اور جس طرح کولہو کا گدھا چکی کے گرد چکر کاٹ رہا ہوتا ہے‘ وہ اپنی آنتوں سمیت جہنم کی آگ میں چکر کاٹ رہا ہو گا۔ پس جہنمی لوگ وہاں جمع ہوں گے اور کہیں گے: اے فلاں صاحب! آپ اس انجام سے کیسے دوچار ہوئے‘ آپ تو ہمیں نیکی کا حکم دیتے تھے اور برائی سے روکتے تھے‘ وہ کہے گا: (بے شک )میں تمہیں نیکی کا حکم دیتا تھا‘ لیکن خود اُس نیک عمل سے عاری رہتا تھا اور میں تمہیں برائی سے روکتا تھا‘ لیکن خود اس برائی میں مبتلا رہتا تھا‘(اس بنا پر میں اس انجام سے دوچار ہوا)‘‘ (بخاری: 3267)۔ اسی ضمن میں رسول اللہﷺکا ارشاد گرامی ہے: ''معراج کی رات مجھے (تمثیل کے طور پر) کچھ لوگ دکھائے گئے جن کے ہونٹوں کو آگ کی قینچیوں سے کاٹا جا رہا تھا‘ میں نے پوچھا: جبریل! یہ کون لوگ ہیں‘ انہوں نے کہا: یہ آپ کی اُمت کے خطباء ہیں‘ جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں‘ حالانکہ وہ کتابِ (الٰہی) کی تلاوت کرتے ہیں توکیا وہ جانتے نہیں ہیں (کہ ان احکام کے وہ خود بھی پابند ہیں)‘‘ (شرح السنہ للبغوی: 4159)۔ پس عملی طور پر دین کے داعی کو اپنے مقام و مرتبے کا پاس رکھنا چاہیے۔
مبلغ اور داعیِ دین کو ایسا اندازِ بیاں اختیار کرنا چاہیے جو نرمی‘ ہمدردی اور دل سوزی کا آئینہ دار ہو‘ اُسے شریں کلام اور نرم خو ہوناچاہیے کہ ''جو بات دل سے نکلتی ہے‘ اثر رکھتی ہے‘‘ کا مصداق ہو۔ فارسی میں کہتے ہیں: ''از دل خیزد‘ بر دل ریزَد‘‘ یعنی دل سے نکلے اور مخاطَب کے دل میں جاگزیں ہو جائے۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: ''نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اس کو زینت بخش دیتی ہے اور جس چیز سے بھی نرمی نکال دی جاتی ہے‘ اسے بدصورت کر دیتی ہے‘‘ (مسلم: 2594)۔ پس اگر داعی تند مزاج اور سخت کلام ہو گا تو لوگ اُس سے نفرت کرنے لگیں گے اور اس سے دور بھاگ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے حضراتِ موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو فرعون کی طرف دعوتِ حق کے لیے بھیجا‘ اس کی رعونت کا عالَم یہ تھا کہ وہ خود کو ''ربِ اعلیٰ‘‘ کہلاتا تھا۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے ان انبیائے کرام کو ہدایت فرمائی: ''تم دونوں اس کے ساتھ نرم لہجے میں بات کرنا‘‘ (طہٰ:44)۔ کوئی شخص فرعون سے بڑا سرکش اور گمراہ نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ کے انبیائے کرام سے بڑا مصلح اور داعیِ دین کون ہو سکتا ہے‘ اس کے باوجود جب حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے داعی کو فرعون جیسے انتہائی گمراہ شخص سے نرم لہجے میں گفتگو کرنے کا حکم ہے تو ہماشما کس گنتی میں ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ''(اے رسولِ مکرّم!) پس اللہ کی رحمت ہی کا فیضان ہے کہ آپ ان کے لیے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُند خُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے تِتّر بتّر ہو جاتے‘ سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کے لیے بخشش مانگا کریں اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں‘ پھر جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسا کیا کریں‘ بیشک اللہ توکّل والوں سے محبت کرتا ہے‘‘ (آل عمران: 159)۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی نرم خوئی‘ خوش اخلاقی‘ حلم و بردباری‘ عفو ودرگزر اور لطف ومہربانی کو اپنی عظیم رحمت ومہربانی قرار دیا ہے‘ یہی وہ خلقِ عظیم تھا کہ عرب کے لوگ‘ جن میں آزادی کی حس خودسری تک پہنچی ہوئی تھی‘ دیوانوں کی طرح آپﷺ کے گرد جمع ہو گئے‘ وہ اپنی گردنیں کٹانے کے لیے آپﷺ کے اشارۂ ابرو کے منتظر رہتے تھے۔ اس کے برعکس اگر آپ تندخو‘ منتقم مزاج اور بات بات پر باز پرس کرنے والے ہوتے تو یہ سب آپ کو چھوڑ کو بھاگ جاتے اور اصلاحِ انسانیت کا جو عظیم ترین مشن آپ کے سپرد ہے‘ وہ انجام نہ دیاجا سکتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک مبلغ اور داعی کے لیے ترش روئی‘ سخت کلامی اور نازک مزاجی اس کی دعوتی اور اصلاحی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ تشدد اور بداخلاقی سے دعوتِ دین کا کام انجام نہیں دیا جا سکتا۔
قرآن کریم انبیاء کرام کی دعوت و تبلیغ اور کفار کے مجادلات سے بھرا ہوا ہے‘ اس میں کہیں نظر نہیں آتا کہ اللہ کے کسی رسول نے حق کے خلاف اُن پر طعنہ زنی کرنے والوں کے جواب میں کوئی ثقیل کلمہ بھی بولا ہو۔ اس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں: (1) حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو دعوتِ حق دیتے رہے اور ان کی اصلاح و ارشاد میں دن رات مشغول رہے‘ مگر اس بدبخت قوم میں سے گنتی کے چند لوگوں کے علاوہ کوئی بھی قبولِ حق کے لیے آمادہ نہ ہوا۔ یہ قوم حضرت نوح علیہ السلام سے کہتی تھی: ''ہم تمہیں کھلی ہوئی گمراہی میں پاتے ہیں‘‘ (الاعراف: 60)۔ اس کے برعکس اس کے بجائے کہ حضرت نوح علیہ السلام اس سرکش کی گمراہیوں‘ بدکاریوں کا پردہ چاک کرتے‘ فرمایا: ''اے میری قوم! مجھ میں کوئی گمراہی نہیں میں تو رب العالمین کا رسول ہوں‘‘ (الاعراف: 61) یعنی میں تم لوگوں کو تمہارے فائدے کی باتیں بتاتا ہوں۔ (2) ان کے بعد آنے والے دوسرے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان کی قوم نے معجزات دیکھنے کے باوجود از راہِ عناد کہا: ''ہم تو آپ کو بیوقوفی میں مبتلا سمجھتے ہیں اور ہمارا خیال یہ ہے کہ آپ جھوٹ بولنے والوں میں سے ہیں‘‘ (الاعراف: 66)۔ قوم کے اس دل آزار خطاب کے جواب میں حضرت ہود علیہ السلام نے بجائے سخت بات کرنے کے‘ صرف اتنا فرمایا: ''اے میری قوم! میں بے وقوف یا کم عقل نہیں ہوں‘ میں تو رب العالمین کا رسول ہوں‘‘ (الاعراف: 67)۔ (3) نبی کریمﷺ جب دعوتِ دین کے لیے طائف تشریف لے گئے‘ اُنہوں نے آپﷺ کو بے پناہ اذیتیں پہنچائیں‘ اس کے باوجود آپﷺ نے اُن کے لیے دعائے ضرر کرنے کے بجائے فرمایا: ''مجھے اللہ کی ذات سے اُمید ہے کہ ان کی نسل سے ہی ایسے لوگ پیدا فرما دے جو اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں‘‘ (بخاری: 3231)۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved