9مئی 2023ء کو پاکستان بھر میں جو کچھ ہوا تھا اس کی ہلکی سی یاد بھی روح کو تڑپا دیتی ہے۔ اس بات سے تو شاید ہی کسی کو اختلاف ہو کہ یہ ایک قومی سانحہ تھا‘ اس نے ہمارے نظمِ اجتماعی پر گہرے زخم لگائے ہیں اور ہم بحیثیت قوم انہیں مندمل نہیں کر پا رہے۔ بھلانے کی بات تو رہی ایک طرف اسکے اسباب‘ اہداف اور محرکات کے حوالے سے نئی شدت دیکھنے میں آرہی ہے۔ نگران کابینہ کی قائم کردہ خصوصی وزارتی کمیٹی کی جو رپورٹ وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کی گئی اس کی تفصیلات نے اس دن سے جڑے سوالات کو سنگین تر بنا دیا ہے۔ سابق نگران وزیر قانون کے زیر قیادت قائم کردہ کمیٹی کا نتیجۂ تحقیق یہ ہے کہ 9مئی کے پُرتشدد واقعات باقاعدہ منصوبہ بندی کا نتیجہ تھے جس میں تحریک انصاف کے بڑے بڑے رہنما شامل تھے۔ خیبرپختونخوا سے مسلح جتھوں کو مختلف شہروں میں لایا اور پھیلایا گیا تھا تاکہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے اشارہ ملتے ہی حرکت میں آئیں اور قیامت برپا کر دیں۔ انہیں عمران خان کی گرفتاری کی صورت میں اینٹ سے اینٹ بجانے کی یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی اور اہداف کا تعین بھی کر دیا گیا تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف‘ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر اور وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے جو کچھ کہا گیا‘ اس کا بھی واضح مطلب یہی ہے کہ یہ کوئی جذباتی اور فوری ردِعمل نہیں تھا بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسا کیا گیا۔ وزیراعظم اور وزیر دفاع تو اس نکتے پر بھی متفق ہیں کہ ان سب کارروائیوں کا مقصد چیف آف آرمی سٹاف کو نشانہ بنانا اور فوج میں بغاوت برپا کرنا تھا۔ مسلم لیگ کی منشور کمیٹی کے چیئرمین اور ممتاز دانشور عرفان صدیقی نے زیادہ واضح اور دوٹوک الفاظ میں ہنگامہ اٹھانے والوں کے اہداف کو زبان دی ہے: ''یہ جو کچھ بھی تھا‘ جزئیات کی حد تک منصوبہ بند تھا۔ تمام تر حرکیات کے اعتبار سے منظم تھا۔ اہداف کے بارے میں پوری طرح واضح اور مقاصد کے اعتبار سے کلی طور پر غیرمبہم۔ سازش کا پہلا مرحلہ یہ تھا کہ ''ریڈ لائن‘‘ قرار دیے گئے بانیٔ پی ٹی آئی کی گرفتاری کے ساتھ ہی طبلِ جنگ بجے گا۔ کوئٹہ سے چکدرہ تک سینکڑوں فوجی تنصیبات اور شہداء کی یادگاروں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ منصوبے کا مفروضہ یہ تھا کہ فوج اس یلغار کا ترکی بہ ترکی جواب دے گی۔ ہر سُو کشتوں کے پشتے لگ جائیں گے۔ خون کی ندیاں بہیں گی۔ اس کشت و خون سے تیسرا مرحلہ جنم لے گا۔ فوج کی صفوں میں اشتعال اٹھے گا۔ پہلے سے شریک ''منصوبہ سرپرست‘‘ پوری قوت سے متحرک ہوں گے۔ بغاوت کا لاوا پھوٹے گا جو جنرل عاصم منیر سمیت سب کچھ بہا لے جائے گا۔ ایک نیا جرنیل مسند سنبھالے گا۔ جسٹس بندیال ''گڈ ٹو سی یو‘‘ والا کردار ادا کریں گے۔ عمران خان عسکری بگھی میں سوار ہو کر وزیراعظم ہاؤس پہنچیں گے۔ انقلاب مکمل ہو جائے گا۔ مخالفین کے ساتھ وہی سلوک ہو گا جو کسی بھی کامیاب بغاوت کے بعد کامران لشکری ہار جانے والے مخالفین سے کرتے ہیں‘‘۔ جناب عرفان صدیقی بعد کے واقعات کا جائزہ یوں لیتے ہیں: ''پی ٹی آئی کے صف شکن مردوں اور جانباز خواتین نے پہلا معرکہ کسی مزاحمت کے بغیر سر کر لیا‘ تربیت یافتہ جتھوں کی طرح دو سو سے زیادہ عسکری مقامات پر حملے کیے‘ لیکن فوج کے دانشمندانہ ردِعمل نے باقی سارے مراحل کو خوابِ پریشان بنا دیا۔ ادارے کے اندر متحرک ہونے کیلئے پر تولتے ''غمگسارانِ انصاف‘‘ کو غیر موثر کر دیا گیا۔ بعدازاں ان میں سے بیشتر کو سزائیں سنا کر فوج سے فارغ کر دیا گیا لیکن 9مئی کے مرکزی کردار‘ منصوبہ ساز اور سہولت کار ابھی تک نہ صرف سزائیں نہیں پا سکے‘ ان کے چہرے بھی ٹھوس شواہد اور جرائم کی تفصیلات کے ساتھ قوم کے سامنے پیش نہیں کیے جا سکے‘‘۔
عرفان صدیقی صاحب کے اس ''ذخیرۂ معلومات‘‘ کو جب تک عدالتی چھان پھٹک سے نہ گزارا جائے تب تک اسے قانون کی نظر میں حقیقتِ ثابتہ کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ اس بات کا انکار صدیقی صاحب کو بھی نہیں ہے‘ ان کے نزدیک اس پہاڑ جیسی فروگزاشت کا سبب یہ ہے کہ یہ ہماری تاریخ میں اپنی نوعیت کی پہلی سنگین ترین مجرمانہ واردات ہے اور ہمیں ایسی وارداتوں سے نبٹنے کا کوئی تجربہ نہیں۔ ان کے تلاش کردہ جواز کی معنویت اس وقت کم ہو جاتی ہے جب ہم اپنی تاریخ کا جائزہ لیں۔ 9مئی کو جو کچھ ہوا وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے جتنا بھی منفرد اور مختلف کیوں نہ ہو‘ یہ دعویٰ بہرحال نہیں کیا جا سکتا کہ یہ پہلی ''سنگین ترین‘‘ مجرمانہ واردات تھی اور ہمیں ایسی وارداتوں سے نبٹنے کا کوئی تجربہ نہیں۔ پاکستان کی تاریخ وارداتوں سے بھری پڑی ہے اور ان سے نبٹنے کا ہمارا تجربہ بھی بہت وسیع ہے‘ اسی تجربے کی روشنی میں دیکھا جائے تو بخوبی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ 9مئی کے واقعات ہمارے تمام تر اداروں کو مطلوبہ حرکت میں کیوں نہیں لا سکے۔ کوئی واردات کتنی بھی مجرمانہ‘ کتنی بھی منفرد اور کتنی بھی سنگین کیوں نہ ہو‘ سقوطِ ڈھاکہ کے المیے کے سامنے تو اسے کم تر ہی کہا اور سمجھا جائے گا۔ اس کی ذمہ داری کے تعین کیلئے ہم نے جو کچھ بھی کیا‘ اس سے قطع نظر سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ کسی کو اس کی پاداش میں سزا نہیں ملی۔ اقتدار پر قبضہ کرنے والا غاصب جرنیل (جسے سپریم کورٹ نے باقاعدہ طور پر اس ''اعزاز‘‘ سے نوازا) بھی پورے فوجی اعزاز کیساتھ سپردخاک ہوا۔ آپریشن جبرالٹر سے لے کر آپریشن کارگل تک کسی ذمہ دار کا تعین نہیں کیا جا سکا‘ کسی کی گردن ماپی نہیں جا سکی‘ ہمارے جسدِ قومی پر شدید ترین چرکے لگانے والی ان وارداتوں پر بھی ہم نے ''مٹی پاؤ‘‘ کے فلسفے پر عمل جاری رکھا اور اخباری کالموں یا بیانوں کے علاوہ ان کی تہہ تک پہنچنے کی کوئی اداراتی کوشش نہیں کی گئی۔
پاکستان میں کتنی ہی تحریکیں چلی ہیں‘ جن میں بے شمار جانیں ضائع ہوئی ہیں‘ اَن گنت افراد زخمی ہوئے ہیں‘ قومی اور ذاتی املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے‘ دور نہ جائیے چند سال پہلے کی تحریک لبیک کی کارستانیاں دیکھ لیجیے یا کراچی میں ایم کیو ایم کی طرف سے برپا کی جانے والی قیامتوں کا جائزہ لے لیجیے۔ خون سے رنگے ہوئے ہاتھوں کو نہ کاٹا جا سکا ہے نہ باندھا جا سکا ہے۔ لاقانونیت پاکستانی سیاست کا ایک جزولاینفک بن کر رہ گئی ہے‘ یہاں کے کسی موقر ادارے کے کانوں پر اس حوالے سے جوں تک رینگتی ہوئی نہیں دیکھی گئی۔ عدالتوں نے ایسے معاملات کو برسوں لٹکایا ہے اور بالآخر عدم ثبوت کی بنیاد پر پروانۂ بریت قانون شکنوں کے ہاتھ میں تھمایا ہے۔ جسے وہ پرچم بنا کر لہراتے اور داد سمیٹتے دیکھے گئے ہیں۔
اس پس منظر میں دیکھئے تو9 مئی کے واقعات پر بھی سیاست ہوئی ہے اور اب بھی ہو رہی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے‘ انصاف فراہم کرنے والی عدالتیں اور قانون سازی کی ذمہ دار اسمبلیاں اپنے آپ میں مگن ہیں‘ ان میں سے کسی کے طور طریقوں سے بھی اس دعوے کی تصدیق نہیں ہوتی جو ہمارے عزیز دوست نے کیا ہے اور جس کے تحت 9مئی کے معاملات کو سنگین ترین قرار دیا جانا چاہیے۔ ہماری الجھی ہوئی تاریخ کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے آپ کو مزید الجھانے سے گریز کریں‘ بھاری بھرکم الفاظ کے ذریعے ایک دوسرے کو ضرب لگانے کے بجائے ٹھوس شواہد عدالتوں کے سامنے لائیں‘ قانون کے ملزموں کو ان کے سپرد کرکے سیاست کے میدان کو صاف کریں... الزامات اور شکوک و شبہات کتنے بھی زور دار کیوں نہ ہوں‘ ان کی بنیاد پر کسی گلے کو پھندا نہیں ڈالا جا سکتا۔ اہلِ سیاست کو اس سب سے الگ اپنا راستہ بنانا ہوگا‘ معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا اور ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا... اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی اپنی غلطیوں کا ادراک کوئی غیر انسانی فعل نہیں ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved