گندم سکینڈل کی بازگشت طاقت کے ایوانوں میں گونج رہی ہے اور ہر کوئی اس کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے میں مصروف ہے۔ اس ساری صورتحال میں بے چارہ کسان رُل گیا ہے‘ اس کی کہیں شنوائی نہیں ہو رہی‘ وہ اپنی خون پسینے سے سینچی گئی فصل کو سڑکوں‘ چوکوں اور چوراہوں پر رکھے احتجاج پر مجبور ہے۔ وہ بھی حکمرانوں پر گراں گزرا اور احتجاج کرنے والے کاشتکاروں کو حوالات میں بند کر دیا گیا۔ جب بات میڈیا‘ حقوقِ انسانی کے اداروں اور عالمی سطح پر پہنچی تو ان بدحال کاشتکاروں کو رہائی ملی۔ آخر ان کسانوں کی کون سنے گا؟ ان کے نقصان کا ازالہ کون کرے گا؟ کیا اس گندم بحران کا کوئی حل ہے؟ گندم بحران کا آغاز ملکی ضروریات سے اضافی گندم درآمد کرنے سے ہوا۔ ایک طرف معاشی حالت کو مستحکم کرنے کیلئے آئی ایم ایف سے قرض لیا جا رہا ہے تو دوسری جانب یوکرین سے ایک ارب ڈالر سے زائد کی گندم درآمد کر لی گئی۔ یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ گندم درآمدگی سے 85ارب روپے کمائے گئے۔ کس نے کمائے؟ یہ بہر حال کوئی راز نہیں۔ گندم درآمد کی سمری وزارتِ غذائی تحفظ نے تیار کی اور منظوری نگران حکومت نے دی۔ گوکہ گندم کی درآمد کا فیصلہ نگران حکومت کے دور میں گندم بحران کے خدشہ کے تحت کیا گیا ہو گا لیکن ملکی ضرورت سے اضافی گندم کیوں درآمد کی گئی؟ بے چارے کاشتکاروں کا کیا قصور ہے جنہوں نے مہنگی بجلی‘ ڈیزل‘ مہنگی کھاد اور مہنگی زرعی ادویات کا استعمال کرکے گندم کی فصل کو پروان چڑھایا اور آج اس کمائی کو اونے پونے داموں بیچنے کیلئے در بدر ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے گندم سکینڈل کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جا چکا جو کہ خوش آ ئند ہے۔ اس تحقیقاتی کمیٹی کی ابتدائی رپورٹ میں ہونے والے انکشافات ہوشربا ہیں کہ اکتوبر 2023ء میں یوکرین سے 34لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ ہوا جبکہ پہلے سے ہی ملک میں 46لاکھ ٹن گندم کے ذخائر موجود تھے۔ فلور ملز نے فوری طور پر باہر سے منگوائی گئی گندم خرید لی جو کہ انہیں 3100روپے فی من میں پڑی جو بعد ازاں 4500سے پانچ ہزار روپے فی من میں بیچی گئی اور سرکاری گندم‘ جس کے گودام بھرے ہوئے تھے‘ وہ گوداموں میں ہی پڑی رہ گئی۔ رواں برس بڑے زور و شور سے بیساکھی کا تہوار منایا گیا اور اب کسانوں سے گندم خریدنے والا کوئی نہیں اور گندم مافیا کسانوں سے اونے پونے داموں ان کی فصل لینے کی تاک میں ہے۔ درآمد کی گئی 34لاکھ ٹن گندم پر ملکی خزانے سے تقریباً 283ارب روپے خرچ ہوئے۔ یہی رقم ملک میں مقامی گندم کی سرکاری خریداری پر خرچ کی جا سکتی تھی۔ گندم کی کٹائی سے قبل بھی ملک میں 40لاکھ ٹن گندم ذخیرہ تھی۔ حکمرانوں کی غیر دانشمندانہ پالیسیوں سے حالات اس نہج پر پہنچے ہیں۔ وفاقی حکومت کا ادارہ پاسکو کسان سے براہِ راست گندم نہیں خرید رہا۔ جب پچھلی فصل کی ہی لاگت پوری نہیں ہو گی تو کسان اگلی فصل پر خرچہ کیونکر کرے گا۔ پنجاب حکومت کو اس بحران میں کاشتکاروں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے لیکن پنجاب میں کسانوں سے گندم نہ خریدنے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ صوبائی حکومت کو کسان رہنماؤں سے مذاکرات کرنا چاہئیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یوکرین سے کیڑا لگی غیر معیاری گندم امریکی دباؤ پر خریدی گئی ہے۔ حکومت کے لیے گندم بحران کو خوش اسلوبی سے حل کرنا ضروری ہے۔ حالیہ سیزن میں ملک میں تقریباً 23.69ملین ایکڑ رقبے پر گندم کاشت ہوئی تھی۔ پنجاب میں اس کی پیداوار گزشتہ برس کے مقابلے میں زیادہ رہی۔ پنجاب گندم کی کاشت و پیداوار کے حساب سے بڑا صوبہ ہے جہاں ہر سال اوسطاً 17.44ملین ایکڑ رقبے پر گندم کاشت ہوتی ہے جس 22.56ملین ٹن گندم کی پیداوار ہوتی ہے۔ زرعی ٹیکنالوجی کی جدت سے ملک میں وقت کے ساتھ گندم کی مجموعی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 1960ء میں ملک میں گندم کی مجموعی پیداوار 3.75ملین میٹرک ٹن تھی۔ 80کی دہائی میں 10.8ملین میٹرک ٹن تھی۔ 2000ء میں 21.07ملین میٹرک ٹن تھی۔ 2020ء میں 25.2 ملین میٹرک ٹن اور سال 2023ء میں 26.8ملین میٹرک ٹن تھی۔
رواں برس مقامی گندم کی مجموعی پیداوار کا تخمینہ 32ملین میٹرک ٹن سے زائد لگایا جا رہا ہے جو مقامی ضروریات کیلئے کافی ہے ۔ اس بار جیسے ہی گندم مارکیٹ پہنچی اور کسانوں کو ان کی محنت کا ثمر ملنے کا وقت آیا تو حکومت نے گندم خریدنے سے انکار دیا۔گوکہ حکومت پنجاب نے گندم کا سرکاری ریٹ 3900فی من اور سندھ گورنمنٹ نے 4000روپے فی من کا ریٹ مقرر کیا تھا لیکن پنجاب میں حکومتی خریداری شروع نہ ہونے کے باعث کسان رُل گئے اور فلور ملز اور ڈیلروں نے ان سے اونے پونے داموں گندم خریدی۔ ملک میں لگ بھگ 14000 فلور ملز کام کر رہی ہیں۔اب دانستہ و نادانستہ طور پر ان کو فائدہ پہنچے گا‘ بلکہ حکومتی سبسڈی سے منافع بھی یہی وصول کریں گے۔
گزشتہ 76برسوں سے سنتے آرہے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور 70فیصد آبادی زراعت کے پیشے سے وابستہ ہے۔ اس کے باوجود ہم کبھی چینی بحران تو کبھی گندم بحران کے شکار رہتے ہیں ۔رپورٹ کے مطابق گندم کی غیر ضروری درآمد کے ذمہ دار وفاقی ادارے ہیں۔پنجاب میں 40.47 لاکھ میٹرک ٹن کے ذخائر کے باوجود 34لاکھ میٹرک ٹن سے زائد گندم منگوائی گئی۔ رپورٹ کے مطابق 10لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی اجازت تھی مگر امپورٹ اس سے تجاوز کر گئی۔ ان غلط فیصلوں سے قومی خزانے کو ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اب ملکی ضروریات سے زائد گندم کو محفوظ کرنے کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ یہ صورتحال ہمارے زرعی شعبے کی زبوں حالی کا پتہ دیتی ہے کہ زائد فصل کو سٹور کرنے کی سہولت بڑھانے پر کبھی توجہ نہیں دی گئی اور نہ سرکاری طور پر کوئی ایسا بندوبست کیا گیا۔
سوال یہ بھی ہے کہ گندم کے کاشتکاروں کے معاشی نقصان کا ازالہ کون کرے گا ؟ وزیراعظم شہباز شریف کی گندم سکینڈل کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق گندم کی خریداری میں سرکاری خزانے کو 3ارب 22 کروڑ 20لاکھ ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔معیشت بد حال ہے‘روپے کی بے قدری جاری ہے اور خزانہ خالی ہے لیکن اس کے باوجود قومی معیشت کو تین ارب ڈالر سے زائد کا ٹیکہ لگا دیا گیا ہے۔رپورٹ میں گندم سکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس میں حکومتی عہدیداروں کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کے گندم کے بڑے امپورٹرز بھی شامل ہیں۔ یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ جس گندم کے ذخیرے کا شورو غوغا ہے وہ بھی سرکاری گوداموں میں ہے کہ نہیں۔بتایا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں بھی نجی شعبے کو پانچ لاکھ ٹن گندم درآمد کی اجازت دی گئی۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے کہ اسے یوں صرفِ نظر کر دیا جائے اور نہ ہمارے ملک میں ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ اس سکینڈل سے حکومتی ایوانوں میں ملکی تقدیر کا فیصلہ کرنے والوں اورملکی اشرافیہ کی بے حسی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ آخر کب حکومتی ایوانوں میں غریب عوام کے لیے ہمدردی کا احساس اجاگر ہوگا۔ ملک میں مختلف قسم کے مافیاز عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ آخر حکومتیں ان کے آگے بے بس کیوں ہو جاتی ہیں؟ان بلیک میلروں کے خلاف قانون کا شکنجہ کیوں نہیں کسا جاتا؟گرین پاکستان انیشی ایٹومنصوبے سے ملک میں زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے سفر کاآغاز ہو چکا ہے‘ لیکن چھوٹے کاشتکار کا احساس اور سرپرستی بھی بہت ضروری ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved