روٹی سستی ہو یا نہ ہو‘ اس پر سیاست تو خوب ہو رہی ہے۔ اربوں کاڈاکا کسانوں کی تیار گندم کے کھیتوں پر پڑا ہے۔ نجانے تیرہ جماعتی اتحادی حکومت کے وزیراعظم اور دیگر جماعتیں کہاں سوئی ہوئی تھیں۔ انہوں نے گندم باہر سے منگوانے کے منصوبے تو بنا رکھے ہیں مگر موقع کی تلاش میں تھے۔ عجیب بات ہے‘ ناقابلِ یقین کہ ملک کے نگران وزیراعظم اور پنجاب کے وزیراعلیٰ کو معلوم نہیں تھا کہ کسان کتنے لاکھ ایکڑ پر گندم کی فصل بو کر کڑاکے کی سردیوں میں پانی‘ کھاد اور جراثیم کش دوائیوں اور بدلے ہوئے موسمی اثرات سے بچانے کے لیے کتنی کاوش اور محنت کر رہے ہیں۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ نہ نگران وزیراعظم اور نہ ہی کابینہ کے اراکین اور نہ نوکر شاہی کو معلوم تھا کہ اس سال گندم کی فصل کی پیداوار کیسی ہو گی۔ تقریباً اتنی ہی گندم تین چار قسطوں میں ایک دو ماہ کے اندر پھر تی سے منگوا لی تاکہ نئی حکومت بننے سے پہلے سب کے وارے نیارے ہو جائیں۔ سابق نگران وزیراعظم جو اپنے فیصلے کے دفاع میں بیانات دے رہے ہیں‘ لیکن ایسے گھن چکروں کی صفائی کے لیے سکرپٹ پہلے ہی تیار کیا جاتا ہے کہ سوالات تو اٹھیں گے۔
کھیل ختم پیسہ ہضم کی وارداتیں دیکھتے ہوئے ہمیں نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا۔ پہلے 25 سال کا ذکر اس لیے نہیں کر رہا کہ تب ہماری بیورو کریسی میں اہل‘ قابل اور ایمان دار افسروں کی کمی نہ تھی۔ ہمارے حکمران طبقات میں بھی ملک اور عوام کا کچھ لحاظ تھا۔ چوری تو ضرور ہوتی تھی مگر دن دہاڑے جمہوریت اور قانون کے نام پر ڈاکے ڈالنے کی کسی کو ہمت نہیں تھی۔ عدلیہ‘ حزب اختلاف اور میڈیا میں ایسے لوگ موجود تھے جو مالِ غنیمت میں اپنا حصہ طلب کرنے کی بجائے ملزموں کی نشاندہی کر کے انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ ہمارا معاشرہ بھی اخلاقی اور انسانی اقدار کے لحاظ سے بالکل مختلف تھا۔ بگاڑ کے ذمہ دار موروثی سیاسی خاندان ہیں کہ اپنی سیاسی گدیاں مضبوط کرنے اور دنیا کے امیر ترین لوگوں کی صف میں شامل ہونے کے خبط میں انہوں نے ہر ادارے کو کمزور کر دیا‘ اور پھر اس کے اثرات معاشرے میں ہر طرف پھیل گئے۔ ہر ایک ڈاکے کے بعد ہم وہی آوازیں سنتے ہیں کہ ہمیں تو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ معاشرے میں اگر ابال پیدا ہو جائے‘ جس طرح آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کاشتکار سراپا احتجاج ہیں اور تحریک شروع کر رہے ہیں تو حکمران اور ان کے کارندے دو کام کرتے ہیں۔ ایک وہ ذمہ داری دوسروں پر ڈالتے ہیں۔ جس طرح سابق نگران وزیراعظم فرما رہے ہیں کہ مطالبہ صوبوں کی طرف سے آیا تھا۔ اس کے جواب میں سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسی کوئی سمری نہیں بھیجی تھی۔ اعلیٰ اربابِ اقتدار سے گزارش ہے کہ مملکت پاکستان کا معیار اتنا نہ گرائیں کہ کسی کو کہیں سے اٹھا کر صوبوں اور مرکز کی بادشاہت کی خلعت پہنا دیں۔ دکھ ہوتا ہے کہ نگاہِ انتخاب ایسے ہی لوگوں پر آخر کیوں پڑتی ہے۔ اس کے بارے میں جو باتیں ہوتی ہیں ہم ان کو وہیں رہنے دیتے ہیں جہاں ہوتی ہیں۔ عوام کی سطح پر اور پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں چائے خانوں میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔ اخلاقی معیار سے بھی معاشرہ اتنا گر چکا ہے کہ عزت اور مقام اسی کا ہے جس کے پاس دولت ہے یا سرکاری طاقت۔ اب کوئی سوال نہیں کرتا کہ سناؤ بھائی اس مقام پر کیسے پہنچے یا پہنچائے گئے؟
دوسرا حربہ یہ استعمال کیا جاتا ہے کہ چلو انکوائری کرتے ہیں اور وہ ذمہ داروں کا تعین کر کے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لے آئے گی۔ نگرانوں نے جو فیصلے کیے‘ جو احکامات جاری کیے‘ جن نجی کمپنیوں کو اجازت دی‘ سب کچھ تو وزیراعظم صاحب کے دفتر میں چٹکی بجاتے ہی حاضر کیا جا سکتا ہے تو پھر یہ کمیٹی کیوں؟ شنید ہے کہ وہ رپورٹ آ گئی‘ اور اب مزید تفتیش کے لیے ایف آئی اے اور نیب کے حوالے کیا جا رہا ہے کہ وہ ذمہ داروں کا تعین کرے اور قانون کے مطابق کارروائی کرے۔ ساتھ ہی حکومت کا یہ آرڈر نظر سے گزرا کہ نیب کسی بھی سرکاری افسر یا سیاستدان کو گرفتار کرنے سے پہلے حکومت سے اجازت طلب کرے۔ احتساب کے دائرے میں کیا رہ جاتا ہے جب سیاستدان اور سرکاری افسر فیصلہ کریں کہ وہ کسی الزام میں گرفتار ہونا پسند کریں گے یا نہیں۔ کس کس ملک کی مثال دیں کہ پولیس سے لے کر ایسے اداروں تک سب سیاسی اور حکومتی اثر و رسوخ سے آزاد ہوتے ہیں۔ ہم بار بار کہتے ہیں اور کہتے رہیں گے کہ موروثی سیاسی خاندانوں نے احتساب سے بچنے کے لیے وہ تمام ادارے تباہ کر دیے جو ان کی گرفت کر سکتے تھے۔ زوال پذیر قوموں کی یہی داستان ہے۔ مجموعی طور پر ہم نے سیاسی نظام کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہر ایک اکائی اور ہر ایک شاخ کو قانون اور آئین اور قومی مفادات کے تابع رکھنے کی بجائے شاہی خاندانوں کی خود غرضیوں پر چھوڑ دیا گیا۔ اس کے منفی اثرات آپ پاکستان کے ہر علاقے میں دیکھ سکتے ہیں۔
سستی روٹی کی سیاست نے لوگوں کو کام پر لگانے کے بجائے مفت یا سستا آٹا‘ جو ٹیکس دہندگان کے پیسے یا بینکوں سے قرض لے کر رعایتی قیمت پر دیا جاتا ہے‘ لینے پر لگا دیا ہے۔ ہماری صنعتی معیشت سے لے کر زرعی معشیت تک‘ ہر سطح پر زور آوروں نے اپنے حصے مقرر کر رکھے ہیں۔ استحصال آخر میں غریب آدمی کا ہوتا ہے جس پہ مہنگائی کی صورت بوجھ پڑتا ہے۔ کہنے کو تو ہماری مارکیٹ اکانومی ہے‘ یعنی منڈی میں طلب اور رسد کے اصول کے مطابق قیمتیں طے ہوتی ہیں‘ مگر مداخلت‘ استحصال اور منافع خوری بے حساب ہے۔ جہاں اصلاحات کی ضرورت ہے اس کی کوئی بات ہی نہیں کرتا‘ وہ یہ ہے کہ نوکر شاہی‘ صنعتکاروں اور سیاسی خاندانوں سے پوچھا جائے کہ آپ کی دولت کہاں سے آئی‘ کیسے بنی‘ پھر مغرب کے خزانوں میں کیسے منتقل ہوئی اور نوکروں کے کھاتوں میں واپس آ کر سفید دھن میں تبدیل کس طرح ہو گئی؟ اس طرف اب کوئی نہیں آتا کہ سب نے اپنے ہاتھ رنگے ہیں۔کون پھر نگران حکمرانوں اور نوکر شاہی کا احتساب کر سکے گا؟ سندھ اور پنجاب کے کاشتکاروں کو دن دہاڑے لوٹا جا رہا ہے اور سود خوروں کا مزید قرض جمع ہونے کے خوف سے خود لٹنے کے لیے تیار ہیں۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے پاس شاید سال بھر کھانے کے لیے دانے ہی باقی رہ گئے ہیں۔ باقی سب بیچ دیے۔ آڑھتیوں اور سود خوروں کو خوب موقع دیا گیا ہے کہ وہ گندم ذخیرہ کر لیں۔ ایسے ڈاکے تو سامراجی انگریزوں کے زمانے میں ڈالے جاتے تھے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved