یدی گولر نیشنل پارک میں کبھی ایک اور کبھی دوسری جھیل کے ساتھ کئی گھنٹے گزرے۔ ایک چھوٹی سی بتدریج اترتی آبشار کا ترنم سنا۔ وہاں سے اٹھا تو ان سرسراتی جھرنے جیسی ندیوں کے پاس جا بیٹھا‘ جن پر لکڑی کے پُل بنے تھے۔یہ اتنی چھوٹی ندیاں تھیں کہ ایک قدم بڑھا کر بھی انہیں پار کیا جا سکتا تھا۔ فطرت کی ایسی ہم نشینی زندگی میں کم ملا کرتی ہے۔ دل چاہتا تھا کہ اس وقت کو کسی طرح کھینچ کر لمبا کر لیا جائے۔ نیشنل پارک کی سب سے بلند چوٹی اپنی طرف اشارہ کرتی تھی‘ جہاں سے پورے یدی گولر اور بولو شہرکا وسیع نظارہ ہوتا ہے لیکن اب وہاں جانا ممکن نہیں تھا۔ ایک تو بہرحال عصر سے پہلے بولو واپسی تھی اور ابھی ابانٹ جھیل بھی منتظر تھی۔ دوسرا‘ رہ رہ کر ڈرائیور کی فون کالز آ رہی تھیں؛ چنانچہ مجھے اٹھنا پڑا۔ لکڑی کا ایک چکر دار زینہ نشیب سے سڑک کی طرف لے جاتا تھا۔ اس کے نیچے پتاور بنا ہوا تھا اور سبز‘ زرد اور سرخ پتوں کے ڈھیر کو ہوا وقفے وقفے سے اڑاتی تھی۔ وہ کیا شعر ہے عرفان صدیقی کا:
شاخ کے بعد زمیں سے بھی جدا ہونا ہے
برگ افتادہ! ابھی رقصِ ہوا ہونا ہے
میں چرمراتے پتے کھوندتا ہوا زینہ چڑھا‘ جس کی ہر سیڑھی پر ٹہنیوں اور پتوں کا فرش بنا تھا۔ ڈرائیور بیزاری سے میرا منتظر تھا۔ وہ پتا نہیں زندگی میں کتنی بار یدی گولر آ چکا ہو گا اس لیے اس کی بیزاری ٹھیک تھی۔ سورج افق کی طرف جھکنے لگا تھا اور شام لحظہ لحظہ جنگلوں پر اتر رہی تھی‘ جب ہم یدی گولر کی پہاڑیوں سے اتر رہے تھے۔ خنک ہوا پہلے نیم خنک ہوئی اور پھر گرم۔ پہاڑیوں اور جنگلوں سے باہر میدانی سڑک پر آتے آتے یہ اچھی خاصی لُو بن چکی تھی۔ میرا تو بہت بار کا تجربہ ہے‘ آپ کا بھی ہو گا کہ کوئی اَن دیکھا شہر یا علاقہ تصور کی آنکھ سے کچھ اور ہوتا ہے اور عملی صورت میں کچھ اور۔ میں بولو آنے سے پہلے یدی گولر اور ابانٹ جھیل کو ایک ہی نیشنل پارک کا حصہ سمجھ رہا تھا لیکن اگر یہ پہاڑیاں اور میدان سب اسی کا حصہ ہیں تو درمیان میں یہ آبادیاں کیسی؟ بولو کے قریب پہنچتے پہنچتے اور اس سے کترا کر نکلنے والی بائی پاس سڑک پر آتے آتے یہ بات سمجھ میں آنے لگی۔ یہ ایک نیشنل پارک نہیں بلکہ دو الگ الگ پارکس ہیں۔ یدی گولر نیشنل پارک اور ابانٹ جھیل نیچر پارک۔ ابانٹ جھیل نیچر پارک میں ہے۔
ابانٹ جھیل اور ملحقہ علاقے کو 2022ء میں نیچر پارک کا درجہ دیا گیا تھا۔ یہ ایک اور چھوٹے سے شہر ''مدرنو‘‘ سے کوئی 20 کلومیٹر دور ایک بڑی جھیل ہے۔ اس کا رقبہ کم و بیش 310 ایکڑ ہے۔ تازہ پانی کی اس جھیل کا بولو شہر سے فاصلہ کم و بیش 35 کلومیٹر ہے۔ یہ سارا علاقہ بحر اسود کے قریب ہے اور سطح سمندر سے چار ہزار تین سو فٹ بلند ہونے کی وجہ سے یہ قدرے خنک جگہ ہے۔ سردیوں میں سخت سرد اور برفباری کے دنوں میں منفی درجہ حرارت۔ اطراف میں چھوٹی بڑی پہاڑیاں جھیل کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہیں۔ ان پہاڑیوں میں دیودار‘ سٹرابیری‘ رس بھری اور پاپلر وغیرہ کے درخت اور جھاڑیاں کثرت سے ہیں۔ اسی طرح لومڑیاں‘ بھیڑیے‘ گیدڑ‘ ہرن‘ جنگلی سور اور ریچھ بھی موجود ہیں۔ جھیل اور اس کے اردگرد آبی پرندے بھی کثرت سے ہیں۔ بگلے‘ شکرے‘ جنگلی بطخیں‘ گدھ اور مرغابیاں وغیرہ۔ جھیل کی اصل سوغات اس میں پائی جانے والی ٹرائوٹ مچھلی ہے۔ جھیل کے کئی مقاما ت پر لائسنس کے ساتھ مچھلی پکڑنے کی اجازت ہے۔
ایک کھلے میدان میں‘ جس میں کافی دور پہاڑیاں نظر آتی تھیں‘ سفر کرتے ہمیں لگ بھگ ایک گھنٹہ ہو گیا تو دور سے نیلے پانی کی ایک جھلک نظر آئی۔ یہاں سرسبز درختوں کے جھنڈ بھی تھے اور گاڑیوں کی بڑی تعداد بھی۔ ڈرائیور نے گاڑی بائیں طرف موڑی اور ایک دو میدانوں سے گزرنے کے بعد ایک پارکنگ ایریا میں گاڑی روک دی۔ میں اترا تو اس نے ایک لکڑی کے پل کی طرف اشارہ کیا۔ لکڑی کا یہ خوبصورت پُل ایک کھاڑی جیسی تنگنائے کے اوپر بنا ہوا تھا۔ اس کے پار لمبے اونچے درختوں کا ایک جنگل تھا۔ میں اس جنگل میں داخل ہوا اور کچھ ہی دیر میں دائیں طرف نیلے بڑے پانی کی وہ جھیل نظر آنے لگی جس کی طلب مجھے یہاں تک لائی تھی۔ میں ٹھٹھک کر وہیں رک گیا۔ میں اتنی بڑی جھیل کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ سات چھوٹی سبز جھیلیں دیکھنے کے بعد یہ ایک مختلف نظارہ تھا۔ میں آہستہ آہستہ جنگل سے نکل کر کھلی جگہ آیا۔ میرے سامنے شفاف نیلے پانی کی ایک بہت بڑی جھیل تھی جس کا دوسرا کنارہ سامنے کی سبز پہاڑیوں میں کہیں گم تھا۔ میری طرف والے ساحل پر لمبے لمبے سرکنڈے والے پودے پانی میں اُگے ہوئے تھے اور ان کی سبز ٹہنیاں ہوا میں لہراتی تھیں۔ میں جہاں کھڑا تھا وہاں سے جھیل کی طرف تین چار فٹ کی ڈھلان تھی‘ جس کے آخر پر ایک لکڑی کی جیٹی کا راستہ تھا۔ یہ راستہ ایک کشادہ پلیٹ فارم پر ختم ہوتا تھا۔ اس وقت سورج جس زاویے پر تھا‘ وہ تصویر کشی کے لیے بہترین تھا۔ اسی لیے پلیٹ فارم پر بہت سے لوگ کھڑے تصویریں کھنچوا رہے تھے۔ میں بھی جیٹی پر چلا گیا۔ سرکنڈوں کے اوپر جیٹی سے گزرتے میں نے دیکھا کہ ان لمبی لمبی لہراتی ٹہنیوں کے بیچ بڑے بڑے سبز پتے پانی میں پھیلے ہوئے تھے۔ یہ کنول جیسے پتے تھے اور ممکن ہے ان پر پھول بھی کھلتے ہوں۔ کنارے سے کچھ دور سرکنڈے ختم ہو جاتے تھے لیکن اس سے آگے کچھ دور تک صرف سبز پتے پانی میں تیرتے تھے۔ یہ پتے بھی ایک حد کے بعد ختم ہو جاتے تھے اور جھیل صرف گہرے نیلے پانی کا نام رہ جاتی تھی۔ کنارے پر پانی ٹھہرا ہوا تھا لیکن جہاں پتے ختم ہوتے تھے یعنی جھیل گہری تھی‘ وہاں پانی رواں تھا۔ ایک دھارے میں پانی کی رو چلتی تھی اور اس میں کرنیں تھرکتی تھیں۔ دور دائیں طرف کنارے پر کچھ لوگ پانی میں ڈوریاں ڈال کر بیٹھے تھے۔ میرا یہ ایک عمر کا شوق کبھی پورا نہ ہو سکا۔ میں نے سوچا کاش! میں بھی ان میں شامل ہوتا تو مچھلی پکڑنے کا دیرینہ شو ق پورا ہوتا اور سکون سے چند گھنٹے جھیل کے ساتھ بیٹھنے کا موقع بھی مل جاتا۔ ہاں! ایک کاش کا لفظ ہی تو ہے جو سینکڑوں جگہ لکھا جا سکتا ہے۔ وڈیوز بنانے والوں کے ہجوم میں شادی کے لباس میں ایک نو بیاہتا جوڑا بھی تھا۔ ان کے انگ انگ سے خوشی پھوٹتی تھی اور ان کی خوشی سے اپنا دل بھی خوش ہوتا تھا۔ ان کے ایک ساتھی نوجوان نے میری درخواست پر میرا بھی ایک وڈیو کلپ بنایا اور چند تصویریں کھینچیں۔ اس خوبصورت جگہ سے ہٹنے کو جی نہیں چاہتا تھا لیکن دوسروں کو بھی جگہ چاہیے تھی‘ سو میں دوبارہ جیٹی سے اتر کے ساحل پر آ گیا۔ ابانٹ جھیل کی ٹرائوٹ بہت مشہور ہے۔ میں نے ایک طرف کچھ عمارتوں کی جھلک دیکھی تو ادھر چل پڑا۔ لیکن ان ریسٹورنٹس سے پہلے میری توجہ ایک اور عمارت نے کھینچ لی۔ یہ خشک پھلوں‘ خوشبودار پودوں کا ایک مینا بازار تھا جس میں تمام دکاندار ادھیڑ عمر سکارف اوڑھے ترک خواتین تھیں۔ خشک خوبانی‘ خشک آڑو‘ زرشک‘ عناب‘ ترک چائے اور خوشبودار جڑی بوٹیوں کی مسحور کن مہک پوری عمارت میں پھیلی ہوئی تھی۔
سورج کا سنہرا تھال جھیل میں غرق ہونے لگا تو میں جھیل کنارے یہ ڈوبتا منظر دیکھ رہا تھا۔ شفق کے پھول افق پر اور پانی میں کھل رہے تھے۔ لہریں ان عنابی گلابوں کو ہلکورے دیتی تھیں اور روپہلے پانی میں قرمزی پھول رقص کرتے تھے۔ احسان دانش کا مصرع ہے نا: رقصاں تھے رند جیسے بھنور میں شفق کے پھول۔ سامنے سبز پہاڑیاں تاریک ہونے لگی تھیں۔ یہ بولو میں میری آخری شام تھی۔ کل بھی یہ منظر اسی طرح ہوگا لیکن دیکھنے والی میری آنکھیں کسی اور منظر میں منہمک ہوں گی۔ پرندے آشیانوں کی طرف اپنی اپنی ڈاروں میں آ رہے تھے۔ کوئی کوئی پرندہ تنہا بھی تھا۔ میں نے جھیل اور جنگلوں کو الوداع کہا اور فراز کا یہ شعر یاد کیا:
اے شام کے آخری پرندے ؍میں بھی ترے ساتھ ہوں‘ ٹھہر میں(ختم)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved