خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اور گورنر فیصل کریم کنڈی ایک ہی ضلع‘ ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتے ہیں۔ قدرت نے علی امین گنڈا پور کو موقع دیا تھا کہ وہ گورنر کے ساتھ تعلقات کو خوشگوار بنا کر تلخیوں کو کم کرتے‘ جس کا ان کی پارٹی اور پابندِسلاسل قیادت کو بھی فائدہ ہوتا‘ مگر وہ تلخیوں کو بڑھانے میں مشغول نظر آتے ہیں۔ اس وقت صوبے کے کئی اہم مسائل وزیر اعلیٰ کی فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔ سکیورٹی اور معاشی عدم استحکام کے حوالے سے کے پی شدید متاثر ہے۔ اپنی گندم کی ضروریات کا ایک بڑا حصہ پورا کرنے کے لیے خیبر پختونخوا پنجاب پر انحصار کرتا ہے مگر رواں سیزن میں پنجاب سے گندم خریدنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی سامنے نہیں آ سکی۔ وزیراعلیٰ ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ وہ پنجاب کے کسانوں سے گندم خریدیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسان بوریوں میں گندم بھر کر پہنچا دیں گے‘ ہم انہیں اس کی اچھی قیمت ادا کر دیں گے۔ گندم کی خریداری کا معاملہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا وزیر اعلیٰ سمجھ رہے ہیں۔ گندم کے حصول کے لیے انہیں پنجاب اور وفاقی حکومت سے رابطہ کرنا پڑے گا۔ اس لیے مخاصمتی رویہ اختیار کرنے کے بجائے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گورنر کی تقرری کا عمل آئین کے تحت ایک منظم طریقے سے کیا جاتا ہے۔ اس میں پارلیمانی جمہوریت کے اصولوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اس تقرری سے حکومت اور صوبائی حکومتوں کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وفاق سے گورنر کی تقرری کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعلیٰ نومنتخب گورنر فیصل کریم کنڈی کو خوش آمدید کہتے ‘لیکن اس کے برعکس بلاوجہ ایک محاذ کھول لیا گیا۔
آئین میں گورنر اور وزیر اعلیٰ کے اختیارات کا واضح تعین کیا گیا ہے۔ گورنر وفاق کا نمائندہ اور صوبے کا سربراہ ہوتا ہے اور اس کا کردار زیادہ تر ایک نگران کا سا ہوتا ہے۔ آئین کے تحت اسے صوبائی انتظامیہ کی نگرانی کا اختیار حاصل ہے؛ تاہم حقیقی حکومتی طاقت اس کے پاس نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ گورنر کو ہنگامی صورتحال کا اعلان کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے‘ لیکن اسے آئین کے تحت‘ واضح حدود کے اندر ہی رہنا ہوتا ہے۔ آئینی حدود گورنر کو غیر ضروری طاقت کے استعمال سے روکتی ہیں اور اسے اسمبلی کے سامنے جوابدہ بناتی ہیں‘ جبکہ وزیر اعلیٰ صوبے کا منتخب حکمران ہوتا ہے اور اس کے پاس وسیع تر انتظامی اختیارات ہوتے ہیں۔ وہ صوبائی اسمبلی کا منتخب رکن ہوتا ہے اور اسمبلی کے اعتماد سے اس کا عہدہ وابستہ ہوتا ہے۔ وزیر اعلیٰ صوبے کی کابینہ کی سربراہی کرتا ہے اور صوبے کے انتظامی امور کی منصوبہ بندی اور اس کے نفاذ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ وہ صوبائی قوانین کی تجویز پیش کرتا ہے اور انہیں اسمبلی سے منظور کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ وزیر اعلیٰ صوبے کی مالیات‘ پولیس‘ تعلیم اور صحت سمیت مختلف شعبوں کے لیے پالیسیاں اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بناتا ہے۔ وہ صوبائی ملازمین کی تقرری اور برطرفی کا بھی اختیار رکھتا ہے۔ یوں وزیر اعلیٰ عوام کے منتخب نمائندے کی حیثیت سے صوبے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کرتا ہے۔ اختیارات کی حدود اور جوابدہی وزیر اعلیٰ کو بھی آئینی حدود کا پابند بناتی ہے۔ وہ آئین کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔ اسے صوبائی اسمبلی کے سامنے جوابدہ ہونا ہوتا ہے اور اسمبلی جب چاہے‘ عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے وزیر اعلیٰ کو برطرف کر سکتی ہے۔ یہ آئینی حدود وزیر اعلیٰ کو عوام کے سامنے جوابدہ اور اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ وہ صوبائی مفاد میں کام کرے۔
حقیقت مگر یہ ہے کہ آئین میں صوبائی حکمرانی کے لیے گورنر اور وزیر اعلیٰ کے الگ الگ اختیارات متعین ہونے کے باوجود جب اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کی سوچ میں اختلاف پیدا ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ صوبے کے عوام کو بھگتنا پڑتا ہے اور یہ امر ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ گورنر اور وزیر اعلیٰ کے درمیان اختلاف کا سب سے بڑا نقصان صوبائی حکومتی مشینری میں تعطل اور عدم استحکام پیدا ہونا ہے۔ اگر گورنر وزیر اعلیٰ کے تجویز کردہ قوانین پر دستخط کرنے سے انکار کر دے یا بار بار اسمبلی تحلیل کرنے کی دھمکی دے تو اس سے صوبائی قانون سازی کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر گورنر صوبائی انتظامیہ کے فیصلوں میں بلاجواز مداخلت کرے تو اس سے انتظامی امور میں عدم تسلسل پیدا ہوتا ہے۔ ماضی میں جھانک کر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب گورنر اور وزیر اعلیٰ آمنے سامنے آئے تو اس کا خمیازہ صوبے کے عوام ہی کو بھگتنا پڑا۔ اگر گورنر ترقیاتی فنڈز کی منظوری میں تاخیر کرے یا وزیر اعلیٰ کی ترجیحات سے اتفاق نہ کرے تو ضروری منصوبوں پر عمل درآمد میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اس سے صوبے کی ترقی‘ روزگار کے مواقع کی فراہمی اور عوام کی بنیادی ضروریات کی تکمیل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گورنر اور وزیر اعلیٰ کے مابین کشیدگی سے صوبے میں سیاسی عدم اعتماد اور انتشار کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ اس سے صوبائی سیاست غیر ضروری بحث و مباحثے اور الزام تراشی کی زد میں آ جاتی ہے‘ جس سے عوام کے اصل مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں سیاسی جماعتیں اپنی طاقت کو مضبوط بنانے پر زیادہ توجہ دیتی ہیں اور عوام کے مفاد کی باتیں نظر انداز کر دی جاتی ہیں‘ جیسا کہ اس وقت خیبرپختونخوا میں دیکھنے میں آ رہا ہے۔ صوبے کے کئی اہم مسائل حل طلب ہیں لیکن اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات سیاست سے ہٹ کر سوچنے سے قاصر ہیں۔
سیاسی قیادت کو ریاست کا انتظام چلانے کے لیے بنیادی آئینی اصولوں کو کھلے دل سے اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ آئین ہی ہے جو مختلف اداروں کے اختیارات اور ذمہ داریوں کو متعین کرتا ہے اور یہ یقینی بناتا ہے کہ حکومت قانون کی حکمرانی کے تحت ہموار انداز میں چلے۔ تاہم جب کوئی فرد یا ادارہ اپنی آئینی حدود کی خلاف ورزی کرتا ہے یا اس سے تجاوز کرتا ہے تو پورا نظام بگڑنے لگتا ہے اور اس کے نتیجے میں ملک اور اس کے عوام کو شدید نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ آئینی حدود کی خلاف ورزی سب سے پہلے قانون کی حکمرانی کے اصول کو نقصان پہنچاتی ہے۔ جب حکومتی ادارے یا عہدیدار آئین کو پس پشت ڈال کر اپنی من مانی کرتے ہیں تو اس سے قانون کی سربلندی اور اس پر اعتماد متزلزل ہوتا ہے۔ لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ طاقتور افراد قانون سے بالاتر ہیں اور انہیں کوئی نہیں پوچھ سکتا۔ اس سے معاشرے میں بے اعتمادی اور قانون کی خلاف ورزی کا رجحان عام ہوتا ہے۔ آئینی حدود کی پابندی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ حکومت کے مختلف ادارے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرتے رہیں‘ لیکن جب ان حدود کو عبور کیا جاتا ہے تو اس سے اختیارات کا غلط استعمال ہوتا اور استبداد جنم لیتا ہے۔ جب مختلف ادارے آپس میں لڑتے ہیں اور ایک دوسرے کی حدود میں مداخلت کرتے ہیں تو اس سے ملک کا سیاسی و انتظامی نظام متاثر ہوتا ہے‘ معاشی ترقی رک جاتی ہے اور لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اندرونی خلفشار اور کشیدگی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ جو توانائیاں اور وسائل ترقی کے لیے خرچ ہونے چاہئیں وہ آپس کی لڑائیوں میں خرچ ہو رہے ہیں۔
ماضی میں آزاد کشمیر میں پُرتشدد احتجاج کی بہت کم مثالیں ملتی ہیں‘ اب اگر آزاد کشمیر کے لوگ مہنگائی اور بجلی کے اضافی بلوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں تو اربابِ اختیار کو سمجھ جانا چاہیے کہ عوام کی سکت اب جواب دے چکی ہے۔ اگر عوام کو اب بھی ریلیف فراہم نہ کیا گیا تو احتجاج کے اس ریلے کو دوسرے صوبوں کا رخ کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved