سیاست کی ایک خوبی ہے کہ یہاں دوست‘ دشمن اور وقت بدلتا رہتا ہے۔ اگر آپ اخلاقیات یا انا کے چکر میں نہ پڑیں تو آپ حیران ہوں گے کہ عام زندگی میں جو لوگ کسی کو گھورنے پر لڑنے مرنے پر تل جاتے ہیں‘ بندے اٹھوا لیتے ہیں‘ تھانے میں پٹوا دیتے ہیں‘ وہ کیسے اس ہاؤس میں ایک دوسرے کے گریبان پر ہاتھ ڈالتے ہیں‘ گالیاں دیتے ہیں اور کچھ دیر بعد سب ایسے بیٹھے ہوتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
آپ تصور کر سکتے ہیں کہ جو گفتگو یا کبھی کبھار گالیاں اس ہاؤس میں یہ عزت دار ایم این ایز ایک دوسرے کو دیتے ہیں وہ عام لائف میں کوئی انہیں اپنے حلقے میں دے سکتا ہے؟ کس کی جرأت کہ انہیں حلقے میں گھوری تک ڈال سکے۔ لیکن یہاں ہاؤس میں یہ لوگ سب کچھ برداشت کرتے ہیں اور اگلے دن مسکرا کر مل رہے ہوتے ہیں۔ اسے سیاست کا نام دیا گیا ہے۔ جو جتنا بڑا اداکار ہے یا گالیاں برداشت کرسکتا ہے اتنا بڑا سیاستدان ہے۔ جو گالیاں کھا کر بے مزہ نہ ہو وہی کھلاڑی۔ہمارے دوست میجر عامر اکثر کہتے ہیں کہ تم صحافیوں نے ماتھے پر آنکھیں رکھنے کو پروفیشنلزم کا نام دیا ہوا ہے۔یہی حال سیاست کا ہے‘ جیسے چرچل نے کہا تھا کہ سیاستدان کو موٹی کھال والاہونا چاہئے۔ اس پر کسی گالی یا تنقید کا اثر نہ ہو اور نہ وہ مخالفین کی باتیں سُن کر رات کو بے سکون رہے۔
خیر بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ بات خواجہ آصف اور عمر ایوب کے درمیان قومی اسمبلی میں ہونے والی جھڑپ پر کرنی تھی۔ کبھی عمر ایوب اور خواجہ آصف اکٹھے بھی پارٹی میں رہے۔ عمر ایوب کے والد گوہر ایوب اور خواجہ آصف کابینہ میں اکٹھے وزیر تھے‘ جس کا ذکر خواجہ آصف نے بار بار کیا۔ اب وہ دونوں مخالف کیمپس میں ہیں۔اب وہی خواجہ آصف اپنے سابقہ کابینہ کولیگ گوہر ایوب کے والد جنرل ایوب خان بارے کہہ رہے تھے کہ انہیں قبر سے نکال کر پھانسی دیں۔ یقینا یہ بات عمر ایوب کے لیے تکلیف دہ ہوگی لیکن عمر ایوب نے اپنی تقریر میں آرٹیکل 6 کا ذکر کر کے بات ہی ایسی کہہ دی تھی۔ بلکہ یوں کہیں عمر ایوب نے لوز بال کی تھی جس کا فائدہ خواجہ آصف نے اٹھایا۔ سیاست میں کوئی کسی کا سگا نہیں ہوتا چاہے آپ کے کتنے اچھے تعلقات کیوں نہ ہوں۔ یہی دیکھ لیں اس ہاؤس میں طارق بشیر چیمہ اور (ن) لیگ کے ایم این ایز کے درمیان کئی دفعہ تکرار ہوئی۔ بدترین الفاظ کہے گئے۔ یہ چیمہ صاحب کبھی عمران خان کی کابینہ کے وزیر تھے۔ عمر ایوب اور وہ اکٹھے عمران خان کی کابینہ میں رہے۔ آج وہی چیمہ صاحب خواجہ آصف کے ساتھ بیٹھے ڈیسک بجا رہے تھے ۔ اتنی دیر لگتی ہے اس ہاؤس میں دوست اور دشمن بننے میں۔میرے لیے خواجہ آصف کا یہ جارحانہ انداز ہرگز حیران کن نہیں۔ بلکہ جو انہیں برسوں سے سیاست میں فالو کررہے ہیں ان کے لیے بھی یہ کوئی نئی بات نہیں تھی جو انہوں نے کہی۔میرے لیے حیران کن بات عمر ایوب کی ٹرانسفارمیشن ہے۔ عمر ایوب کو میں 2002ء سے جانتا ہوں جب وہ پہلی دفعہ ایم این اے بن کر اسمبلی آئے اور وزیرخزانہ شوکت عزیز کے ساتھ بطور وزیرمملکت برائے خزانہ کام کیا۔ شوکت عزیز وزیراعظم بنے تو سلمان شاہ ان کی جگہ وزیرخزانہ بنے تو بھی عمر ایوب اس عہدے پر قائم رہے۔ یوں عمر ایوب ان خوش قسمت نوجوانوں میں سے ہیں جنہیں آغاز ہی اچھا مل گیا۔ اس کے بعد بھی وہ ہاؤس میں آتے جاتے رہے۔ عمران خان کے دور میں انرجی کی اہم وزارت ملی۔ اس تمام عرصے میں نے عمر ایوب کو ہمیشہ ایک decent آدمی پایا۔ ایک جینٹلمین‘ تمیز دار جو ہر ایک کے ساتھ ادب اور احترام سے پیش آتا تھا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ انہوں نے کبھی معیار سے گری گفتگو کی یا ٹوئٹر پر مخالفین پر تبرہ کیاہو۔ لیکن عمران خان کے ہٹائے جانے کے بعد عمر ایوب بھی دبائو کا شکار ہوئے لہٰذا ان کے لفظوں میں سختی آنی شروع ہوگئی۔
اب اس میں عمر ایوب کا کتنا قصور ہے وہ الگ بحث ہے لیکن جب عمر ایوب پر ٹارچر کیا جائے گا‘ گھر پر چھاپے مارے جائیں گے‘ چادر چاردیواری کا تقدس پامال ہوگا‘ بچوں سے بدتمیزی کی جائے گی تو پھر یہ ردعمل فطری ہے۔ اور تو اور آپ کا باپ جو ملک کا وزیرخارجہ اور قومی اسمبلی کا سپیکر رہا ہو‘ فوت ہو جائے اور بیٹا جنازے میں شرکت کے لیے آئے تو پولیس گرفتار کرنے پہنچ جائے اور آپ کو فرار ہونا پڑے تو یہ سنگین واقعہ آپ کے ذہن کے ساتھ ہمیشہ کے لیے چپک جاتا ہے۔ عمر ایوب نے جو کچھ ان دو سالوں میں بھگتا ہے اس نے ان کی سوچ کو بدلا ہے۔ عمر ایوب کے پاس دو‘ تین راستے تھے۔ ایک تو تھا کہ جب عمران خان لڑائی جھگڑے پر تل گئے تھے تو وہ سائیڈ پر ہوجاتے کہ ہمارا مزاج خان صاحب کی سیاست سے نہیں ملتا‘ہم پڑھے لکھے لوگ ہیں‘ ہم سیاست کرنے آئے ہیں گوریلا جنگ لڑنے نہیں۔ لیکن اس اپروچ کے ساتھ عمر ایوب کو لگا کہ اُن کی خاندانی سیاست کو نقصان ہوگا۔ ایک تو الزام لگے گا کہ وہ مشکل وقت میں عمران خان اور پارٹی کو چھوڑ گئے۔ دوسرے خیبرپختونخوا میں ان کا حلقہ ہے‘ جہاں نہ صرف پی ٹی آئی کی حکومت تھی بلکہ خان کا ووٹ بینک بھی ہے۔ پارٹی حمایت کے بغیر عمر ایوب کا الیکشن جیتنا مشکل ہوجاتا۔ شاید وہی حال ہوتا جو شیخ رشید کا ہوا۔
یوں عمر ایوب کے لیے اس کے علاوہ آپشن نہیں تھا کہ وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوں اور جو سختیاں اور مشکلات ہیں ان کا سامنا کریں‘ چاہے انڈر گراونڈ ہو جائیں یا پولیس تشدد برداشت کریں۔ اُس وقت عمر ایوب کے والد گوہر ایوب زندہ تھے جب یہ سارا سلسلہ شروع ہوا۔ عمر ایوب نے یقینا باپ سے مشورہ کیا ہوگا۔ پھر عمر ایوب نے مستقبل کی سیاست کا سوچا کہ وہ نوجوان نسل کی پارٹی میں رہے گا تو اس کی فتح کے زیادہ امکانات ہیں جیسے مونس الٰہی نے سوچا۔ مونس الٰہی کے سیاسی مستقبل کی خاطر قربانی اس کا والد چوہدری پرویز الٰہی جیل میں دے رہا ہے۔ اگرچہ والد اکثر اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر ایسی قربانیاں دیتے آئے ہیں‘ لہٰذا ستر سالہ چوہدری پرویز الٰہی قربانی دے رہا ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کیا جو سلوک عمر ایوب کے ساتھ کیا گیا وہ مناسب تھا؟ کیا ایک سمجھدار نوجوان سیاستدان کو اس طرح ٹارچر سے گزارنا چاہیے تھا کہ اس کی کمر دیکھ کر ہر بندے کو تکلیف ہوئی۔ آج عمر ایوب کے لب و لہجے میں جو تلخی ہے وہ اسی تشدد کا نتیجہ ہے جو ریاستی اداروں نے ان پر کیا تھاکہ وہ عمران خان کے ساتھ کیوں کھڑا ہے۔ میں نے شاید کالم لکھا تھا کہ عمران خان نے عمر ایوب کو وزیراعظم کا امیدوار بنایا ہے ‘اسے ہی سب پارٹیاں مل کر اپنا وزیراعظم بنا کر ملک سے بحران ختم کریں۔ عمر ایوب پڑھا لکھا بندہ ہے‘ پارلیمنٹ اور حکومت کا دو تین دفعہ کا تجربہ ہے‘ اچھا وزیراعظم ثابت ہوگا۔ پھر اس کا فیملی بیک گراونڈ بھی ہے۔
میں ذاتی طور پر یہ بھی سمجھتا ہوں کہ عمر ایوب کو اپوزیشن لیڈر نہیں بنانا چاہئے تھا۔ وہ جب بھی جمہوریت کی بات کرے گا اسے اپنے دادا صدر ایوب خان کا طعنہ سننا پڑے گا‘ جو خواجہ آصف نے انہیں دیا بھی۔مجھے اگر ان حالات میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانا پڑتا تو یقین کریں بغیر سوچے عمر ایوب کا نام دیتا۔ اپوزیشن لیڈر کے طور پر وہ اپنے کندھوں پر اپنے دادا ایوب خان کا بوجھ اٹھائے پھر رہے ہیں ‘جسے وہ کبھی نہیں اتار سکیں گے۔ اوپر سے ان کے اندر غصہ ہے کہ ان کے دادا فیلڈ مارشل تھے‘ باپ کیپٹن اور اب ایک بیٹا فوج میں لیفٹیننٹ ہے‘ لیکن پھر بھی ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا۔ یہ وہ ٹراما ہے جس سے شاید عمر ایوب عمر بھر باہر نہ نکل سکیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved