قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے اُدھرآل انڈیا ریڈیو دہلی سے اس کی ملازمت کا پروانہ آیا ادھر شمشاد کی طبیعت خراب ہو گئی۔ یوں وہ خواہش کے باوجود دہلی نہ جا سکی۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد‘ 1934ء میں پشاور میں آل انڈیا ریڈیو کاآغاز ہوا تو شمشاد کو وہاں گانے کی پیشکش ہوئی۔ لاہور سے پشاور جانا بھی اس کے لیے آسان نہ تھا۔اس کی بڑی وجہ معاشرتی پابندیاں تھیں۔آخر یہ فیصلہ ہوا کہ اس کا بڑا بھائی شمشادکے ہمراہ پشاور جایا کرے گا اور واپسی پر اسے اپنے ہمراہ پشاور سے لاہور لائے گا۔ شمشاد کو بتایا گیا تھا کہ اس کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ برقع پہن کر پشاورآئے۔ یوں پشاور کے دنوں میں شمشاد برقع پہن کے گیت گاتی تھی۔ پشاور ریڈیو پر شمشاد نے بے شمار گیت گائے لیکن بدقسمتی سے ان کا کوئی ریکارڈ نہیں کیوں کہ اُس وقت گانے براہ راست (live)گائے جاتے تھے۔ اُن دنوں کا ایک گیت ''اک بار پھر کہو ذرا‘‘ تھا۔ ریڈیو کے سامعین کی فرمائش پر اسے یہ گیت کئی بار گانا پڑا۔ گجندر کھنہ کو ایک انٹرویو میں شمشاد نے بتایا کہ پشاور میں وہاں کے لذیز کھانے خاص طور پر نان اور چپلی کباب اسے بہت پسند تھے۔
1934ء کا سال شمشاد کی زندگی کا اہم سال تھا۔ اس سال اس نے آل انڈیا ریڈیو پشاور میں گانے کاآغاز کیا اور اسی سال شمشاد بیگم نے اپنی زندگی کا اہم ترین فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ اس کی شادی کا تھا۔ شمشاد کی عمر اس وقت صرف پندرہ برس تھی۔ ایک روز جب اس نے اعلان کیا کہ وہ ایک ہندو وکیل گنپت لال بٹوسے شادی کرے گی تو شمشاد کے گھر والے سناٹے میںآ گئے۔ اس کی ایک وجہ دونوں کی عمروں کا فرق تھا اور دوسری وجہ دونوں کے مذاہب کا اختلاف تھا۔ شمشاد مسلمان تھی اور اور اس کا ہونے والا شوہر گنپت لال بٹو ہندو تھا۔ خاندان بھر کی مخالفت کے باوجود اس نے اپنی مرضی کی شادی کی۔
جب لاہور سے آل انڈیا ریڈیو کی نشریات کاآغاز ہوا تو شمشاد کے لیے آسانی ہو گئی کیونکہ اس کا گھر بھی لاہور میں تھا۔ شمشاد کا معمول تھا کہ وہ صبح ریڈیو جاتی جہاں گانے کی ریہرسل ہوتی تھی۔ گانوں کی ریکارڈنگ شام چھ بجے کے بعد ہوتی۔ اپنے ایک انٹرویو میں شمشاد ان دنوں کو یاد کرتی ہے کہ کیسے ہر گیت کی چار پانچ بار ریہرسل کرائی جاتی تھی۔ اس زمانے میں ریکارڈنگ کے جدیدآلات نہیں تھے۔ ایسے میں پہلے کمپوزرز اور پھر سازندوں کے ساتھ coordination آسان کام نہ تھا۔ر یہرسل کے بعد ریکارڈنگ ایک مختلف سٹوڈیو میں ہوتی۔ چونکہ وہJien-O-Phone میوزک کمپنی کی ملازم تھی اس لیے بعض اوقات اس کے گائے ہوئے گانے پر اسے creditنہ ملتا لیکن بعد میں یہ مسئلہ اس طرح حل ہو گیا کہ معروف HMV کمپنی نے Jien-O-Phoneکو خرید لیا۔ فلموں میں شمشاد کے گیتوں کاآغاز دو پنجابی فلموں ''یملا جٹ‘‘ اور ''گوانڈی‘‘ سے ہوا۔ ان دونوں فلموں کو باکس آفس پرشاندار کامیابی ملی۔ ''خزانچی‘‘ فلم میں بھی شمشاد نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔ اس فلم میں معروف موسیقار اور شمشاد بیگم کے محسن ماسٹر غلام حیدر نے موسیقی دی تھی۔ اس فلم نے بھی باکس آفس پر گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ ''خزانچی‘‘ کی شاندار کامیابی میں شمشاد کے گیتوں کا اہم کردار تھا۔ ان گیتوں کی مقبولیت کے بعد دوسرے فلم ساز بھی اس کی طرف متوجہ ہوئے ۔ان میں اپنے وقت کا معروف پروڈیوسر اور ڈائریکٹر محبوب خان بھی تھا۔ وہی محبوب خان جس نے بالی وڈ کو''آن‘‘،'' انداز‘‘،'' امر‘‘ اور'' مدر انڈیا‘‘ جیسی فلمیں دیں۔ اس وقت تک اس کی فلمیں ''جاگیردار‘‘، ''دکن کوئین ‘‘اور ''عورت ‘‘آچکی تھیں۔ یہ 1943 کا سال تھا اور محبوب خان اپنی نئی فلم ''دیدار‘‘ پر کام کر رہا تھا۔ وہ ہمیشہ نئے چہروں اور نئی آوازوں کی تلاش میں رہتا۔ اس فلم میں وہ ادارکارہ نرگس کو متعارف کرا رہا تھا۔ وہی نرگس جو بعد میں بالی وڈ کی دنیا میں شہرت کی بلندیوں کو پہنچی۔ خزانچی فلم میں نئی گلوکارہ شمشاد بیگم کے گانوں کی شہرت اس تک پہنچ چکی تھی۔ اس فلم میں اس نے لاہور کی نوجوان گلوکارہ شمشاد کو چانس دینے کا فیصلہ کیا اور اپنے سیکرٹری کو شمشاد سے رابطہ کرنے کو کہا۔محبوب خان جیسے بڑے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کی فلم میں کام کرنا ایک اعزاز کی بات تھی اور کسی بھی نئے فن کار کے لیے یہ زندگی کا سب سے بڑا خواب تھا اور شمشاد بیگم تو ابھی اپنے فنی سفر کاآغاز کر رہی تھی لیکن اگلے روز جب محبوب خان کے سیکرٹری نے اسے بتایا کہ شمشاد ہماری فلم میں گانے کے لیے تیار نہیں تو محبوب خان کو یقین نہیں آیا۔ وہ سوچ میں پڑ گیاآخر شمشاد کے انکار کی وجہ کیا ہے؟ سیکرٹری نے پوچھنے پر محبوب خان کو بتایا کہ شمشاد کے والد اسے لاہور سے باہر جانے کی اجازت نہیں دے رہے۔ اگر کوئی اور پروڈیوسر ہوتا تو وہ خاموش ہو جاتا لیکن وہ محبوب خان تھا جو اپنی فلم کو کامیاب بنانے کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا۔ اس نے خود لاہور جانے اور شمشاد کے والد سے ملنے کا فیصلہ کر لیا۔ لاہور میں شمشاد کے گھر دونوں کی ملاقات ہوئی۔ شمشاد نے ایک انٹرویو میں بتا یا کہ محبوب خان نے اس کے والد سے کہا کہ آپ کی بیٹی کو خدا نے غیر معمولی آواز سے نوازا ہے۔ اس وقت توآپ اس کی زندگی کو کنٹرول کر رہے ہیں لیکن جب یہ وقت بیت جائے گا اور شمشاد کی آواز میں پہلے جیسی تازگی نہیں رہے گی تو وہ یاد کرے گی کہ اسے زندگی میں ایک بڑا موقع ملنے والا تھا لیکن اس کے والد کی وجہ سے اس نے یہ موقع کو گنوا دیا۔ تب وہ سارا دوش آپ کو دے گی۔ محبوب خان نے اس کو بتایا کہ وہ شمشاد کو رہائش اور ساری مراعات دے گا جو صرف سینئر فنکاروں کو دی جاتی ہیں۔آخر کار محبوب خان نے شمشاد کے والد کو راضی کر لیا اور یوں شمشاد کو بمبئی جانے اور محبوب خان کی نئی فلم ''تقدیر ‘‘میں کام کرنے کی اجازت مل گئی۔ یوں شمشاد کے لیے شہرت کادریچہ کھلا اور وہ فلم میں گانے کے لیے بمبئی آ گئی۔ اس فلم کے بیشتر گانے شمشاد کی آواز میں تھے جو انتہائی مقبول ہوئے۔ ان میں ''بابو داروغہ جی‘‘، ''میرے من کی دنیا بسا دی‘‘، ''اوجانے والے آجا‘‘، ''تم سے دنیا مجھے چھڑالی ہے‘‘، ''میرا میکہ ہوتا سسرال‘‘،''آپ کیوں آئیں گے‘‘، ''ماتاجاتا بھارت ماتا ‘‘اور گھنگھور گھٹائیں شامل ہے۔ اگلے ہی برس 1944ء میں ماسٹر غلام حیدر کے موسیقار بھتیجے عامر علی نے ''پنا‘‘ فلم میں شمشاد بیگم کو گانے کی پیشکش کی۔ اس فلم میں گانے کیلئے شمشاد جب بمبئی آئیں تو موسیقار سی رام چندر اور انیل بسو اس نے بھی اسے اپنی فلموں میں گیت گانے کی پیشکش کی۔
اگلے ہفتے وہ پھر لاہور سے بمبئی گئی اور ان دونوں موسیقاروں کیلئے ایک ایک گانا گایا۔ یوں تو شمشاد بیگم نے اپنے وقت کے سبھی موسیقاروں کے ساتھ کام کیا لیکن اس کی فنی زندگی میں ماسٹر غلام حیدر کا کردار بہت اہم تھا۔ یہ ماسٹر غلام حیدر ہی تھے جنہوں نے شمشاد بیگم کیلئے شہرت کا دروازہ کھولا تھا۔ یہ 1944ء کی بات ہے جب ماسٹر غلام حیدر بمبئی گئے تو شمشاد بیگم بھی ان کی ٹیم کے ایک ممبر کے طور پر بمبئی چلی گئیں۔ پھر 1947ء کا سال آیا جب ہندوستان کی تقسیم ہو ئی اور پاکستان وجود میں آیا۔ دونوں طرف سے کثیر تعداد میں لوگوں نے ہجرت کی۔ ماسٹر غلام حیدر بمبئی سے لاہور واپس آگئے لیکن شمشاد بیگم نے بمبئی رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت اسے کیا پتہ تھا کہ وہ آ ئندہ کبھی اپنا دل بر شہر لاہور نہ دیکھ پائے گی۔(جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved