تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     15-05-2024

آزاد کشمیر: مذاکرات کامیاب یا ناکام؟

ہماری حکومتیں ہر کام بعد از خرابیٔ بسیار کرنے کی عادی ہو چکی ہیں۔ یہاں ہر صاحبِ اختیار بروقت بات چیت اور افہام و تفہیم کو اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے۔ گزشتہ پانچ چھ روز سے حکومت کی بے تدبیری اور بے حسی کی وجہ سے آزاد کشمیر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی اپیل پر مکمل ہڑتال کی جا رہی تھی۔ حکومت کے تاخیری حربوں پر مظاہروں میں اور بھی شدت پیدا ہوئی۔ پولیس اور مظاہرین کی جھڑپوں میں تین شہری جاں بحق ہو گئے۔ اس سے پہلے ایک پولیس سب انسپکٹر شہید بھی ہو چکا ہے۔
آزاد کشمیر کے احتجاج کی کہانی نئی نہیں‘ پرانی ہے۔ گوکہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال ختم کر دی گئی ہے ‘ تاہم ہر کشمیری اور پاکستانی کے لیے اس تحریک کا پس منظر جاننا بہت ضروری ہے ۔ موجودہ احتجاج آج نہیں‘ اوائل مئی 2023ء میں شروع ہوا تھا۔ تب بھی یہ پُرامن تھا اور اب بھی ابتدا میں عوامی تحریک مکمل طور پر پُرامن تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بعد میں یہ پُر تشدد کیسے ہو گئی؟ مئی 2023ء میں اس تحریک کا بنیادی مطالبہ بجلی کے نرخوں میں کمی تھا۔ راولا کوٹ سے یہ تحریک شروع ہوئی تھی۔اُس وقت کی حکومت نے عوام کے اس یک نکاتی مطالبے پر کوئی توجہ نہ دی‘ یوں اہلِ آزاد کشمیر کی بے بسی اور بے کسی مایوسی میں بدل گئی ۔جذبات کا جو لاوا اندر ہی اندر اُبل رہا تھا ایک سال کے بعد وہ شدت سے پھٹ پڑا ۔
آزاد کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے 11مئی کو راولا کوٹ سے مظفر آباد تک لانگ مارچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے پر عملدرآمد سے پہلے ہی آزاد کشمیر حکومت نے پولیس اور رینجرز طلب کرلی اور پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی اس وقت آزاد کشمیر کے تقریباً 98فیصد عوام کی نمائندگی کر رہی ہے۔ دوسری طرف صرف 52اراکین کی ننھی منی اسمبلی کے بل بوتے پر تشکیل پانے والی کابینہ میں وزیروں‘ مشیروں اور ایڈوائزروں کو ملا کر کوئی 48افراد کی فوج ظفر موج ہے‘ مگر ان میں کوئی صاحبِ حکمت و دانش نہیں وگرنہ ''لانگ مارچ‘‘ اور طویل احتجاج کی نوبت ہی نہ آتی۔
کشمیری عوام کا ایک سال پہلے بنیادی مطالبہ بجلی کے نرخوں میں کمی تھا‘مگر اب یہ ایک سے بڑھ کر چار مطالبات ہو گئے ہیں ۔ نیلم جہلم ڈیم سے 2500میگاواٹ بجلی کئی برسوں سے نیشنل گرڈ میں شامل ہو رہی ہے جبکہ آزاد کشمیر صرف 350میگاواٹ بجلی استعمال کر رہا ہے۔ کشمیری صارفین کا کہنا ہے کہ ہم سے نیلم جہلم پراجیکٹ کے مکمل ہونے کے بعد بھی کئی اقسام کے سرچارجز وصول کیے جا رہے ہیں۔ چار پانچ روپے فی یونٹ پیدا ہونے والی بجلی بہت مہنگی فروخت کی جا رہی ہے۔آزاد کشمیر کے عوام کو ہوم پروڈکشن کی بنا پر ریلیف ملنا چاہیے۔ تاہم ایک نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ اگر بجلی کی پیداوار پر آزاد کشمیر حکومت خالص منافع اوررائلٹی لے رہی ہے تو پھر عوام کو پیداواری لاگت پر بجلی کیسے دی جا سکتی ہے؟ آزاد کشمیر کے عوام کا مطالبہ یہ تھا کہ بجلی کے بلوں میں لگائے گئے ٹیکسز ختم کر کے ہمیں بجلی پیداواری لاگت پر کچھ سروس چارجز شامل کر کے مناسب نرخ پر ملنی چاہیے۔بجلی کے علاوہ دوسرا مطالبہ جو گزشتہ سال سے چلا آ رہا تھا وہ آٹے پر سبسڈی کا تھا ۔ تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ حکمران طبقے کی مراعات اور پروٹوکول ختم کیا جائے۔ اس وقت تک تقریباً آزاد کشمیر اسمبلی کا ہر ممبر وزیر یا مشیر ہے‘ ہر کسی کے پاس سرکاری گاڑیاں بھی ہیں‘سٹاف بھی ہے‘ پولیس گارڈ بھی ہے‘سرکاری گھر بھی ہے جس میں سینکڑوں یونٹ بجلی ماہانہ فری ہوتی ہے۔ حکمرانوں اور بیورو کریسی کی آسائشات کے لیے مختص بجٹ عوام الناس پر ٹیکسز اور مزید ٹیکسز لگا کر پورا کیا جاتا ہے اس لیے کشمیری عوام کا یہ مطالبہ بھی بالکل جائز ہے۔
پہلے یہ دیکھنا ہے کہ اس پُرامن عوامی احتجاج پر آزاد کشمیر کے حکمرانوں نے کس طرح کے ردِعمل کا مظاہرہ کیا۔ دراصل ابھی تک ہمارے حکمرانوں اور پولیس نے اپنا استعماری طرزِ عمل اور کلچر نہیں بدلا۔ ہمارے سابق برطانوی آقاؤں کی برطانیہ میں پولیس انتہائی مہذب اور فرینڈلی ہوتی تھی اور اب تک اسی طرح بلکہ پہلے سے بھی بڑھ کر عوام دوست ہے۔ وہاں کی پولیس اوئے ٹوئے جانتی ہی نہیں اور لاٹھی چارج کا وہاں سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
برطانیہ کی استعماری حکومت ہندوستان کے محکوم عوام پر پولیس کی طاقت سے حکومت کرتی رہی۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ توفیق ہی نہیں ہوئی کہ وہ سابق پولیس کلچر میں ایک آزاد ملک کے شایانِ شان تبدیلیاں لے آتے۔نہ ہی ان میں اتنی فہم و فراست ہے کہ وہ بات کو بڑھنے سے پہلے اور متاثرین کے سڑکوں پر آنے سے پہلے یا اُن کے پاس جا کر حقائق کی روشنی میں اُن سے مذاکرات کریں۔ یہاں حکمران پہلے ہیبت و رعب سے اپنے ہی عوام کو دہشت زدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں پھر جب پانی سر کے اوپر سے گزر جاتا ہے تو پنجابی محاورے کے مطابق انہیں ''بھاجڑ‘‘ پڑ جاتی ہے۔یہی کچھ پچھلے دنوں گندم کے مسئلے پر ہوا۔ پنجاب حکومت نے اپنی ہی دی ہوئی قیمت پر گندم خریدنے سے انکار کر دیا اور اب‘ 16مئی کو سارے پاکستان میں کسان سڑکوں پر نکل کر احتجاج کا ارادہ رکھتے ہیں۔
پیر کے روز بعد از خرابی ٔ بسیار وزیراعظم میاں شہباز شریف نے آزاد کشمیر کے لیے 23ارب روپے کی منظوری دی ہے ۔ان فنڈز کے بعد آزاد کشمیر حکومت نے بجلی اور آٹا سستا کرنے کا اعلان کر دیا ہے‘ مگر اس تاخیری فیصلے سے پہلے پلوں کے نیچے سے ہی نہیں بلکہ پلوں کے اوپر سے بھی بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ جیسا کہ ہم اوپر بتا چکے ہیں مظفر آباد میں تین افراد جاں بحق ہوئے‘ چودہ زخمی ہوئے‘ تین سرکاری گاڑیاں نذر آتش ہو ئیں اور منگل کی صبح تک آنے والی خبروں کے مطابق مختلف مقامات پر مظاہرے اور جھڑپیں جاری تھیں۔حکمرانوں کو تو یقینا اس تاخیر کے نتائج کا اندازہ ہی نہیں جبکہ شاعروں کو بھی یہ حقیقت معلوم تھی کہ
صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا
آزاد کشمیر کے پیرو جواں سے جس کسی کا بھی واسطہ پڑا ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ آ زادی کے یہ متوالے حلقۂ یاراں میں بریشم کی طرح نرم اور رزم ِحق و باطل میں فولاد بن جاتے ہیں۔ان سے مذاکرات کرنا تو نہایت آسان کام تھا مگر حکومت کی غیر حکیمانہ پالیسی کی وجہ سے بات بننے کے بجائے بگڑ گئی ۔پولیس کی مظاہرین کے ساتھ جھڑپیں اور رینجرز کی طلبی وغیرہ ہماری جگ ہنسائی کا سبب بنی ہے۔ آزاد کشمیر میں عوام اور حکومت کے درمیان حائل خلیج سے مودی حکومت بہت خوش اور مقبوضہ کشمیر کے عوام اور مجاہد نہایت غم زدہ ہیں۔ خدا جانے ہمارے اندر بالغ نظری کب آئے گی بلکہ کبھی آئے گی بھی یا نہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved