تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     15-05-2024

سیاسی استحکام وقت کا تقاضا

حالیہ دنوں سعودی ولی عہد‘ شہزادہ محمد بن سلمان کی دورۂ پاکستان کے حوالے سے خبریں زیرِ گردش رہیں پھر اچانک یہ خبر سامنے آئی کہ سعودی ولی عہد کا دورہ ملتوی ہو گیا ہے۔اسلام آباد کے سفارتی حلقوں کے مطابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلطان کا دورۂ پاکستان ملک میں موجود سیاسی عدم استحکام اور سکیورٹی خدشات کے باعث ملتوی کیا گیا ہے۔ شنید ہے کہ امریکی سفیر نے بھی پاکستان کو درپیش سیاسی عدم استحکام‘ نو مئی کے حوالے سے مقتدرہ کے ردِ عمل اور حالیہ دنوں ہونے والی ایک اہم پریس کانفرنس اور اس کے جوابی تاثرات پر مبنی رپورٹ امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو بھجوا دی ہے۔ چند روز قبل صنعت کاروں اور تجزیہ کاروں نے سیاسی عدم استحکام اور گندم بحران پر کسانوں کے مظاہروں پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے نتیجے میں کاروباری سرگرمیوں اور معاشی استحکام پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ کاروباری برادری پہلے ہی مہنگائی اور بلندشرح سود کے سبب مشکلات کا شکار ہے‘ ایسے میں وہ محسوس کرتے ہیں کہ سیاسی مسائل کے سبب معاشی ترجیحات پر توجہ نہیں دی جا سکے گی۔حکومت نے اقتدار کی مضبوطی کے حوالے سے درپیش چیلنجز کے پیشِ نظر معیشت کو ایک طرف کر دیا ہے جس کے نتیجے میں کاروبار کو مؤثر انداز میں چلانا مشکل ہوگیا ہے۔گوکہ کچھ تاجروں اور صنعتکاروں نے گزشتہ سال کے مقابلے میں موجودہ معاشی صورتحال کو بہتر قرار دیا ‘تاہم مستقل سیاسی خلفشار نے استحکام کی امیدوں کو توڑ دیا ہے۔گندم سکینڈل سے کاشتکاروں کے مفادات کو زک پہنچی ہے ‘مگر اس حوالے سے سامنے آنی والی کیبنٹ سیکرٹری کی رپورٹ غلام گردشوں میں گھوم رہی ہے لیکن گندم سکینڈل کے ذمہ داران کے خلاف کوئی کارروائی کیا عمل میں آتی‘ وہ ابھی تک حکومتی مراعات سے مستفید ہو رہے ہیں۔
دوسری طرف خیبر پختونخوا کی بات کی جائے تو وہاں گورنر فیصل کریم کنڈی اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کے درمیان لفظی جنگ شدت اختیار کر چکی‘ دونوں ایک دوسرے کو دھمکیاں دینے پر اُتر آئے ہیں۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے گورنر ہاؤس بند کرنے کی دھمکی کے جواب میں فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ میں ایک آئینی عہدے پر موجود ہوں‘ مجھے گورنر ہاؤس کا تحفظ کرنا آتا ہے۔وزیراعلیٰ اور گورنر کے درمیان جاری لفظی جنگ کی وجہ سے صوبے کے عوام متاثر ہو رہے ہیں۔ صوبے کے اعلیٰ ترین عہدوں پر براجمان شخصیات کے اس طرزِ عمل کی وجہ سے سرمایہ کار بھی خیبر پختونخوا کا رُخ نہیں کریں گے۔ پہلے ہی بلوچستان میں ملک دشمن عناصر کی مذموم کارروائیوں کی وجہ سے مقامی یا بیرونی سرمایہ کار اُس صوبے کا رُخ نہیں کرتے۔ خیبر پختونخوا میں آئے روز ہونے والی کالعدم ٹی ٹی پی کی کارروائیاں اس وقت بڑا چیلنج ہیں۔ صوبائی قیادت کو آپسی چپلقش کے بجائے ان بیرونی عناصر کے خلاف کمر بستہ ہونا چاہیے۔ آپسی مخالفت ملک دشمن عناصر کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول میں معاون ثابت ہو رہی ہے۔گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کا شمار پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات بھی ہیں۔ ان کا خاندانی پس منظر بھی رواداری اور وضع داری کا حامل ہے۔اب فیصل کریم کنڈی نے صوبے میں امن و امان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کو کھانے کی دعوت دے کر برف پگھلانے کی کوشش کی ہے۔ یہ دعوت دیتے ہوئے فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں امن وامان کی صورتحال بہتر نہیں ہے‘ مرکز سے کچھ چاہیے تو میں بات کروں گا۔ بجلی‘ پانی‘ گیس ودیگرمقدمات وفاق کے سامنے میں رکھوں گا۔خیبرپختونخوامیں تمام سیاسی جماعتوں کومل کرمسائل سے نکلناہوگا‘ گورنرہاؤس میں صوبائی حکومت کیخلاف کوئی سازش نہیں ہورہی۔وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پورکو بھی اس حوالے سے سمجھداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ وہ صوبے کے عوام کو ڈیلیور کرنے کے لیے اقتدار میں آئے ہیں‘ ان کی لفظی گولہ باری عوامی خدمت نہیں ہے۔ عوام نے انہیں اپنی اور صوبے کی خدمت کے لیے منتخب کیا ہے۔ صوبے کا وزیراعلیٰ ہونے کی حیثیت سے ان کے پاس بہترین موقع ہے کہ اپنے دورِ اقتدار کوصرف سیاسی ایجنڈوں تک محدود رکھنے کے بجائے وہ خیبر پختونخوا کے عوام کی بھرپور خدمت کریں ۔گوکہ ابھی صوبے میں گورنر راج کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی لیکن اگر یہ چپلقش یونہی جاری رہی اور اس صورتحال کی وجہ سے ملک دشمن عناصر فائدہ اٹھاتے رہے تو صوبے میں گورنر راج کی نوبت بھی آ سکتی ہے۔ اس لیے فریقین کو عوام کا احساس کرتے ہوئے سمجھداری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اب کچھ بات نو مئی‘ اس کے ذمہ داران اور محرکات کے حوالے سے۔ چند روز قبل گزرے نو مئی نے گزشتہ برس کے نو مئی کی یاد تازہ کر دی۔ نو مئی ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ نو مئی کو وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں نگران دورِ حکومت میں نو مئی کو پیش آنے والے واقعات کی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی کابینہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کی گئی۔نگران حکومت کی کابینہ کمیٹی کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ نو مئی کو پیش آنے والے واقعات پیشگی منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اُس روز پیش آنے والے واقعات کا مقصد مقتدرہ پر بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے مطالبات ماننے کے لیے زور ڈالنا تھا۔ اگر صاف الفاظ میں کہا جائے تو اس ساری کارروائی کا مقصد فوج میں بغاوت اور ملک میں خانہ جنگ کرانا تھا۔ یہ رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد نگران کابینہ کے کردار پر بھی سوال اُٹھ سکتا ہے کہ یہ سب انکشافات ہونے کے باوجود نگران دور میں ذمہ داران کے خلاف آئین کے آرٹیکل (2) 17کے تحت کارروائی کیوں نہ عمل میں لائی گئی۔
اسی طرح پی ڈی ایم حکومت‘ جو 16 ماہ اقتدار میں رہی‘ اس نے چیف جسٹس آف پاکستان کے اُس حکم نامے پر عملدرآمد کیوں نہ کیا جس میں چیف جسٹس عمرعطابندیال نے تحریک عدم اعتماد کے دوران قائم مقام سپیکر قاسم سوری کی سات اپریل2022ء کی رولنگ کو خلافِ آئین قرار دیتے ہوئے آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت اُن کے خلاف کارروائی کرنے کے حوالے سے جاری کیا تھا۔ پی ڈی ایم حکومت نے اس حکم نامے پر عملدرآمد کے لیے وفاقی وزیر قانون و انصاف کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی تھی لیکن اس سے پہلے کہ یہ کمیٹی کوئی عملی اقدام کرتی‘ آٹھ اگست 2023ء کو پی ڈی ایم حکومت تحلیل ہو گئی۔ اسی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان جولائی 2022ء میں عمران خان کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس میں وفاقی حکومت کو الیکشن ایکٹ کی دفعہ 210 اور 213 کے تحت کارروائی کرنے کی سفارش کر چکا ہے ‘ لیکن اس فیصلے کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔
نگران کابینہ کمیٹی کی تیار کردہ رپورٹ نہ صرف فوجی تنصیبات پر حملوں کے ذمہ داران کی طرف حکومتی توجہ مبذول کروائی ہے بلکہ یہ اس بات کی بھی عکاس ہے کہ کس طرح اُس روز تشدد کو ہوا دی گئی اور اس میں حصہ لیا گیا جس کا ملک نے اپنی تاریخ میں پہلے کبھی مشاہدہ نہیں کیا تھا۔ اس رپورٹ کے تناظر میں حکومت تحریک انصاف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 17کے تحت کارروائی کرتے ہوئے پارٹی کو خلافِ قانون قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ریفرنس بھجواسکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved