لوگ جب مجھ سے مختلف محکموں میں کرپشن اور زیادتیوں کی شکایتیں کرتے ہیں تو میں کچھ دیر خاموش ہو جاتا ہوں کہ انہیں کیا جواب دوں جبکہ وہ توقع رکھتے ہیں کہ میں فوری طور پر حکمرانوں پر تبرا کرنے لگوں گا۔ اگر آپ بحث و مباحثہ سے بچنا چاہتے اور یہ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کے بارے میں مثبت رائے قائم رکھیں تو پھر وہی گفتگو کریں جو وہ سننا چاہتے ہیں۔ آپ اپنی دانشوری کو چند منٹ کنٹرول میں رکھیں تو وہ ہنسی خوشی آپ کو داد دیتے اُٹھ جائیں گے۔ لیکن اگر آپ پر یہ بھوت سوار ہے کہ آپ نے ہر صورت اپنی دانشوری دکھا کر اگلے بندے کو متاثر کرنا ہے‘ اس پر اپنی دانشوری کی دھاک بٹھانی ہے تو تسلی رکھیں‘ وہ آپ سے ناراض ہو کر ہی جائے گا۔ میرے بہت سے کولیگز اور ساتھی سمجھدار ہیں‘ وہ ڈیمانڈ اور سپلائی کے اسی سنہری اصول پر چل رہے ہیں‘ یعنی لوگ جو سننا چاہتے ہیں انہیں وہی سناؤ۔ عوام کی گڈ بکس میں رہنے کا یہی فن ہے۔ ایک دوست اکثر کہا کرتا تھا کہ تمہیں کیا پڑی ہے کہ برے بنو‘ لوگوں کی باتیں سنو اور گالیاں کھاؤ۔ تم انہیں وہی سناؤ جسے سن کر وہ تالیاں بجاتے ہیں۔ وہ اپنی مثال دیتا تھا کہ مجھے دیکھو‘ میں تالیاں بجواتا ہوں اور خوش رہتا ہوں۔ میں نے کہا: بطور اینکر یا صحافی تمہاری ذمہ داری اس معاشرے کو بہتر کرنے کی ہے‘ ایسے سچ جھوٹ میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ وہ ہنس کر کہتا کہ چلیں! مان لیا میں پوری بات نہیں کر رہا‘ تم تو کر رہے ہو‘ کیا تم نے کامیابی پا لی؟ لوگ کس کی باتیں سن کر تالیاں بجاتے ہیں‘ تمہاری یا میری؟ میں نے کہا: تمہاری! اس نے کہا کہ پھر خود فیصلہ کر لو‘ اس قوم کو بس گولی دیے رکھو‘ یہ خوش رہے گی۔ کیوں دن رات اپنا دل جلائیں اور جن کی بھلائی کیلئے لوگوں کو اپنا دشمن بناتے ہیں وہ اُلٹا آپ کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ روم میں وہی کرو جو رومن کرتے ہیں۔ اس کی اس بات سے یاد آیا ایک دفعہ مجھے ایک دوست کا میسج آیا تھا کہ تمہارے لیہ میں ڈبل اور ٹرپل شاہ بہت ایکٹو ہیں‘ لوگوں کو لوٹ رہے ہیں‘ تم لوگوں کو خبردار کرو‘ انہیں لٹنے سے بچاؤ۔ میں نے کہا کہ میرے بھائی! میں کیا اور میری اوقات کیا۔ اگر میں نے کسی کو سمجھانے کی کوشش کی تو وہ سمجھے گا کہ میں اس کی ترقی سے حسد کرتا ہوں۔ وہ بڑا پرافٹ اور پیسہ کما رہا ہے لہٰذا میں جھوٹی کہانیاں گھڑ رہا ہوں تاکہ وہ شارٹ کٹ سے پیسے نہ کما سکے۔ وہ بولا: ایسے تو وہ لُٹ جائیں گے۔ میں نے کہا کہ جسے ہم لٹنا سمجھ رہے ہیں وہ لوگ اسے راتوں رات امیر ہونا سمجھتے ہیں۔ یہ انسانی مزاج ہے کہ جب تک وہ خود نہیں ڈسا جاتا یا خود اچھا یا برا تجربہ نہیں کرتا‘ وہ سیکھتا نہیں۔ لوگ دوسروں کے تجربات سے نہیں‘ اپنے تجربے سے سیکھتے ہیں۔ آپ کے بچے تک آپ کے تجربے سے سیکھنے کو تیار نہیں ہوتے۔ اور میں اس بات کا حامی ہوں کہ وہ خود تجربہ کریں‘ یہ ہمیشہ ان کے کام آئے گا۔ ہاں! بطور والد آپ اپنے بچوں سے اپنا تجربہ بیان کر سکتے ہیں لیکن یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ آپ کی بات پر عمل کریں گے۔ آپ نے بھی تجربہ کرکے سیکھا تھا‘ وہ بھی تجربہ ہی کریں گے۔ آپ چونکہ وہ تجربہ کرکے ناکام ہو چکے ہیں لہٰذا آپ کو اس کے نتیجے کا علم ہے جس کی بنیاد پر آپ اپنے بچے کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہر انسان دوسروں کے تجربے کی بنیاد پر اپنا فیصلہ کرے گا تو اس کی گروتھ رک جائے گی۔ وہ کبھی بھی اپنی زندگی انجوائے نہیں کر سکے گا۔ اس لیے یہ تاریخی جملہ کہا جاتا ہے کہ انسان تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا اور وہی پرانی غلطیاں دہراتا ہے جو اس سے پہلے کے انسان کر چکے ہوتے ہیں اور ان کے نتائج بھی وہی نکلتے ہیں۔ اب آپ بتائیں انسان پھر وہ غلطیاں کیوں دہراتا ہے جو اس سے پہلے لوگ کر چکے ہوتے ہیں؟ انسان سمجھدار ہے‘ آج کے جدید دور میں تمام معلومات اس کی انگلیوں پر ہیں‘ پھر بھی وہ اپنے سے پہلے لوگوں یا حکمرانوں کی غلطیاں دہراتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ انسان کے اندر تجسس ہے‘ خود اعتمادی ہے۔ ہر انسان خود کو دوسروں سے زیادہ سمجھدار سمجھتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں اس صورتحال کو بہتر طریقے سے ہینڈل کروں گا جو مجھ سے پہلے حکمران‘ پچھلی قومیں یا لوگ نہیں کر سکے تھے۔ لیکن وہ بھول جاتا ہے کہ انسانی جبلت ہزاروں سال سے ایک جیسی ہے‘ جو تمام تر ترقی کے باجود نہیں بدلی۔ آج کا انسان ویسا ہی ہے جیسے غار کے دور کا تھا۔ صرف لباس بدل گیا ہے۔ محبت‘ نفرت‘ دشمنی‘ قتل و غارت کا شوق‘ لالچ‘ حکمرانی کا جنون‘ دولت اکٹھی کرنے کا شوق‘ یہ سب چیزیں آج بھی انسان کے اندر موجود ہیں۔ لہٰذا وہ نہیں بدلے گا۔ آج کے دور میں بھی جنگیں ہورہی ہیں‘ بے گناہ لوگ مارے جا رہے ہیں۔ اتنے لوگ شاید پانچ ہزار سال کی انسانی تاریخ میں نہیں مارے گئے ہوں گے جتنے صرف پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں مارے گئے تھے۔ ابھی ایک نئی کتاب پڑھ رہا تھا‘ اس میں یہ پڑھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کہ چار سال تک لڑی گئی پہلی عالمی جنگ میں ایک کروڑ 60 لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔ میں آپ کو دوسری عالمی جنگ‘ جو پہلی سے بھی زیادہ تباہ کن تھی‘ میں مارے گئے لوگوں کی تعداد بتا کر آپ کا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتا۔ ایک بات پر‘ پاکستان اور بھارت کے عوام ہوں یا حکمران‘ ہم انہیں داد دیں گے کہ ہم نے تین جنگیں لڑیں‘ کوئی جنگ بیس دن سے زیادہ نہیں چلی۔ جبکہ یورپین کو دیکھیں‘ وہ جب تک پانچ چھ سال لڑ کر ایک دوسرے کے لاکھوں لوگ نہیں مار لیتے‘ انہیں لگتا ہے انہوں نے جنگ ہی نہیں لڑی۔
ابھی روس یوکرین جنگ دیکھ لیں۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ بمشکل چند ہفتے چلے گی مگر وہ دو سال سے چل رہی ہے۔ لاکھوں لوگ مار گئے ہیں لیکن روسی اور یوکرینی ابھی تک لڑ رہے ہیں۔ اس لیے کبھی کبھار مجھے پاکستان اور بھارت کا خطہ اور عوام اچھے لگتے ہیں کہ یورپین کی طرح برسوں لڑ لڑ کر لاکھوں انسان نہیں مارتے‘ ہاں بڑھکیں ضرور مارتے رہتے ہیں خون کو گرم رکھنے کیلئے۔پاکستانی آج تک امریکیوں سے گلہ کرتے ہیں کہ 1971ء کی جنگ میں چھٹا امریکی بحری بیڑا نہ آیا۔ جنگ بند ہو گئی‘ بنگلہ دیش بن گیا لیکن آپ کا بیڑا نہ پہنچا۔ اس سوال کا جواب امریکی لکھاری بروس ریڈل نے اپنی کتاب میں یوں دیا ہے کہ امریکی ہوں یا یورپین‘ وہ تو کئی کئی سال تک جنگ لڑتے ہیں‘ انہیں کیا پتا تھا کہ پاکستان اور بھارت دو ہفتے سے زیادہ جنگ نہیں لڑتے۔ اب ایک بحری جنگی جہاز کو الرٹ کرتے‘ ٹاکی شاکی مارتے اور سٹارٹ کر کے پاکستان کے سمندری پانیوں تک پہنچنے میں کچھ دن تو لگنے ہی تھے۔ ہم تو آرام سے تیاری پکڑ رہے تھے کہ ابھی پاکستان اور بھارت کچھ عرصہ محاذ گرم رکھیں گے اور اتنی دیر میں ہم پہنچ جائیں گے اور پاکستان کو سپورٹ دیں گے۔ بروس ریڈل کہتا ہے کہ اتنی جلدی جنگ بندی ہو جانا امریکہ کیلئے بہت حیران کن تھا۔ اس لیے تو صدر نکسن کو اندرا گاندھی کو دھمکی دینا پڑی تھی کہ اگر مغربی پاکستان پر حملہ کیا تو یہ امریکہ پر حملہ تصور ہو گا۔ پاک ایران تعلقات پر ایک نئی کتاب کے مطابق یہی دھمکی شاہِ ایران نے بھی بھارت کو دی تھی کہ اگر مغربی پاکستان پر حملہ ہوا تو ایران پاکستان کے شانہ بشانہ لڑے گا۔
ہماری درسی کتب اور کالم نگاروں کی تحریروں میں امریکہ کے چھٹے بیڑے کے نہ پہنچنے کی کہانی بڑے دکھ کے ساتھ دھوکے کے طور پر سنائی جاتی ہے لیکن امریکیوں کے اس جوابی طعنہ بارے کوئی نہیں جانتا کہ ہمیں کیا پتا تھا کہ آپ صرف سولہ دن جنگ لڑتے ہیں۔ ہم امریکی اور یورپی تو پانچ پانچ سال جنگ لڑتے ہیں اور جب تک لاکھوں‘ کروڑوں لوگ نہ مار لیں ہمیں لگتا ہی نہیں کہ ہم نے کوئی جنگ لڑی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved