تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     18-05-2024

کرکٹ کا جنون

ایک مدت کے بعد ٹی وی سکرین پر صلاح الدین‘ سمیع اللہ اور حسن سردار کو دیکھا۔ وہی کیفیت ہوئی جسے پروین شاکر نے ایک مصرع میں سمیٹ دیا ہے:
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
کرکٹ نے اس ملک میں کھیلوں کا وہی حشر کیا جو عمران خان صاحب نے سیاست کا کیا۔ پوری قوم کرکٹ کے جنون میں مبتلا ہو گئی اور دوسرے تمام کھیل اس کی ملبے تلے دفن ہوتے گئے۔ میڈیا اور سرمایہ دارانہ نظام نے ایک ایسا ہیجان برپا کیا کہ نام کا توازن بھی باقی نہیں رہا۔ یہ تو بھلا ہو قومی ہاکی ٹیم کا جس نے اپنی محنت سے قوم کو اپنی موجودگی کا احساس دلایا اور یوں اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کی ان پر نظر پڑ گئی۔
قومی ٹیم سلطان اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ کے فائنل تک پہنچی اورکپ کو چھو کر واپس آ گئی۔ حکومت‘ میڈیا اور قوم کی بے اعتنائی کا شکار ہوتے ہوئے بھی یہ کارکردگی متاثر کن رہی۔ وزیراعظم صاحب نے اس ٹیم کو شرفِ ملاقات بخشا۔ پی ٹی وی نے ان کے اعزاز میں ایک پروگرام ترتیب دیا۔ اس طرح ہم نے ان بھولے بسرے چہروں کو دیکھا جو کبھی قومی تفاخر کی علامت تھے۔ وہ وقت یاد آیا جب پاکستان ہاکی کی دنیا کا بے تاج بادشاہ تھا۔
پاکستانی کھلاڑیوں نے ہاکی کے معیار کو جس سطح تک پہنچایا اس کی کوئی مثال موجود نہیں۔ جنہوں نے سمیع اللہ کو کھیلتے دیکھا ہے انہوں نے گویا فطرت کو اپنے جمال کے ساتھ مشہود ہوتے دیکھا ہے۔ ایک بے مثل مصور کی تصویر کو دیکھا ہے جس نے کمال مہارت کے ساتھ اپنے رنگ کھیل کے میدان میں بکھیر دیے تھے۔ جیسے ایک دلکش نغمہ سماعتوں کو مسحور کر دے۔ جیسے کوئی مجسمہ تراش کر آپ کے سامنے رکھ دے اور آپ اس کے حسن کو دیکھ کر ورطۂ حیرت میں ڈوب جائیں۔ دنیا نے فی الواقع انگلیاں دانتوں میں داب لیں اور کہا: ''یہ تو اُڑتا ہوا گھوڑا ہے‘‘۔ یہی معاملہ حسن سردار ، صلاح الدین، کلیم اللہ، منظور جونیئر اور شہباز سینئر کا بھی تھا۔
ہاکی کے کھلاڑی ہماری تہذیب کا بھی ایک نمونہ تھے۔ سکینڈلز سے پاک‘ صاف ستھری زندگی اور متانت۔ کسی گوری سے وابستہ دل فریب داستانیں نہ کرپشن کا کوئی سکینڈل۔ کسی مذہبی یا سیاسی بحث کا حصہ نہ کسی اختلاف کا عنوان۔ نہ پیسوں کی وہ ریل پیل جو خرمستیوں کا راستہ دکھاتی ہے اور نہ وہ افلاس کہ عزتِ نفس مجروح ہونے لگے۔ تمام عالمی اعزاز پاکستان کے نام کر دیے مگر کسی تفاخر کا اظہار نہ نرگسیت کا مرض۔
پھر یہ سب قصۂ پارینہ بنتا چلا گیا۔ کوئی سمیع اللہ کی جگہ لینے والا آیا نہ حسن سردار کا جانشین پیدا ہوا۔ کوئی دوسرا صلاح الدین بال سے اٹکھیلیاں کرتا نظر آیا نہ کلیم اللہ کی طرح میدان میں بھاگتا دکھائی دیا‘ نہ دوسرا منظور جونیئر آیا اور نہ شہباز سینئر۔ اب ایسا بھی نہیں تھا کہ قدرت نے وہ کارخانہ بند کر دیا جس میں یہ کھلاڑی ڈھلتے تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت نہیں کہ وہ ایک زمانے کو نواز دے اور ایک کو بڑے لوگوں سے محروم کر دے۔ نبوت و رسالت کے سوا ہر در کھلا ہے۔ یہ سماج اور ریاست ہیں جو ایسے لوگوں کو تلاش کرتے‘ ان کی تہذیب کرتے اور ان میں چھپے ہنر کو سامنے لاتے ہیں۔ ہم نے کرکٹ کے علاوہ کسی کھیل میں اپنی یہ ذمہ داری نہیں نبھائی اور ہم ان اعزازات سے محروم ہوتے گئے جن پر کبھی پاکستان کا نام لکھا تھا۔
سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ سب سے طاقتور ہوتا ہے۔ ریاست بھی اس کے مقابلے میں کمزور پڑ جاتی ہے۔ جب اس نظام کا غلبہ نہیں تھا تو طاقت دوسرے اداروں کے پاس تھی۔ مذہب‘ بادشاہ‘ ریاست۔ طاقت کے بہت سے مراکز تھے۔ سرمایہ دارانہ نظام آیا تو دنیا میں سرمایے کا اقتدار قائم ہو گیا۔ اب ریاست بھی اس کے سامنے بے بس تھی۔ اداروں کی نجکاری اس سرمایہ دارانہ نظام کا ایک اہم پہلوہے۔ پس منظر میں یہ تصور کار فرما ہے کہ ریاست کا کام سرمایے کا راستہ متعین کرنا نہیں۔
اشتراکیت نے اس تصور کو چیلنج کیا۔ اس کا کہنا ہے کہ ریاست کو طاقتور ہونا چاہیے اور سرمایے کو لگام ڈالنی چاہیے۔ اسی تصور کے تحت پاکستان میں بھٹو صاحب نے صنعتوں کو قومیانے کا فیصلہ کیا۔ میں غلط اور صحیح کی بحث سے دانستہ گریز کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سرمایہ داری نے غلبہ پایا اور اب سرمایہ ہی کسی ریاست کی ترجیحات کا تعین کرتا ہے۔ ہمارے معاملے میں اس نے کرکٹ کے حق میں فیصلہ سنایا جسے ریاست اور سماج نے قبول کر لیا۔
ریاست کی قبولیت یہ ہے کہ اس نے خود اپنی ترجیحات طے نہیں کیں۔ یہ کام مارکیٹ کے حوالے کر دیا۔ میڈیا اس مارکیٹ کا ایک اہم کارندہ ہے۔ ہمارا سماج تہذیبی طور پر منفعلانہ ہے۔ اس نے اس تاثر کو قبول کیا جو میڈیا نے سرمایے کے کہنے پر قائم کیا۔ ہر طرف کرکٹ کی بات ہونے لگی۔ ریاست اور سماج نے وہی دیکھا جو میڈیا اور سرمایہ داروں نے دکھایا۔ وہی سوچا جس کی طرف ان کے ذہن کو لگا دیا گیا۔ ہاکی طاقِ نسیاں کی نذر ہو گئی۔یہ صرف ہاکی کے ساتھ نہیں ہوا۔ سکواش میں بھی کبھی ہم نے وہ لوگ پیدا کیے جن کی کوئی نظیر آج تک دنیا پیش نہیں کر سکی۔ جہانگیر خان کو سکواش کی تاریخ کیسے فراموش کر سکتی ہے؟ جان شیر بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ رہے کشتی اور کبڈی جیسے کھیل تو وہ ہمیشہ ہی ریاست کی توجہ سے محروم رہے۔ اب چونکہ عالمگیریت کا دور ہے اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام فٹ بال کو فروغ دینا چاہتا ہے‘ اس لیے آج ہماری نئی نسل میں فٹ بال مقبول ہو رہا ہے۔ گویا یہ بھی کوئی سوچا سمجھا فیصلہ نہیں‘ یہ نظام کا دکھایا گیا راستہ ہے جس نے ہمیں کبھی کرکٹ کے راستے پر ڈالا تھا۔
زندگی توازن کا نام ہے۔ ریاست اور سماج میں یہ اخلاقی قوت ہونی چاہیے کہ وہ سرمایے یا کسی دوسری قوت کے دباؤ کا سامنا کر سکے اور اپنی ترجیحات کا تعین کر سکے۔ کرکٹ کے ساتھ ہمیں دوسرے کھیلوں کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ قدرت نے انسانوں کو صلاحیتوں کے تنوع کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ انہیں تلاش کرنا اور ان کی تہذیب کرنا سماج اور ریاست کا کام ہے۔ عدم توازن سماجی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ ہم کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں کہ کرکٹ سے وابستہ ہیجان نے پورے سماج کو کس صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ اس نے سماج اور ریاست کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے کر سیاسی و سماجی نظاموں کو تلپٹ کر دیا ہے۔
میرے نزدیک تو ہیرو ازم کو کھیل اور فلم ڈرامے سے نکال کر سماج کے ان دائروں کی طرف منتقل کر دینا چاہیے جو معاشرے کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ فلم اور کھیل اصلاً تفریح کے لیے وجود میں آئے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام مذہب و اخلاق سمیت ہر اس معاملے کو کمرشلائز کر دیتا ہے جس سے عوام کو دلچسپی ہو اور اسے نفع کمانے کے ادارے میں بدل دیتا ہے۔ اس لیے اس نے کھیل اور فلم کو بھی پیسے کمانے کا ایک ذریعہ بنا دیا ہے۔ تاہم اصلاً یہ تفریح کے مظاہر ہیں۔ قوموں کی تعمیر علم‘ ہنر اور اخلاق سے ہوتی ہے۔ سماج کے اصل ہیرو وہی ہوتے ہیں جو ان شعبوں میں کمال حاصل کرتے ہیں۔
اگر ہم نئی نسل کو اس جانب متوجہ کریں اور ایسے لوگوں کو ہیرو بنائیں تو نوجوان ان میدانوں کا انتخاب کریں گے ورنہ ہر کوئی کرکٹر بننا چاہے گا۔ کھیل کی ایک سماج میں جتنی اہمیت ہے اسے اتنی اہمیت ضرور ملنی چاہیے۔ کھیل میں بھی پھر توازن چاہیے۔ ایک مدت کے بعد صلاح الدین‘ سمیع الحق اور حسن سردار کو دیکھا تو خوشی ہوئی اور ساتھ ہی ہاکی کو نظر انداز کرنے کا ملال بھی ہوا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved