تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     18-05-2024

دانائی کی تلاش

عربی زبان کا مشہور مقولہ ہے کہ حکمت مومن کی گم شدہ چیز ہے۔ مراد یہ کہ حکمت جہاں سے بھی ملے اسے اپنی میراث سمجھ کر لے لو۔ مگر ''مومن‘‘ یہ ''میراث‘‘ تبھی لے گا جب وہ سمجھتا ہو کہ حکمت ہے کیا؟ حکمت کو قرآن پاک میں ایک عظیم عطیۂ خداوندی قرار دیا گیا ہے۔ سورۃ البقرہ میں ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم یہ ہے کہ جس کو حکمت ملی اسے حقیقت میں بہت بڑی دولت مل گئی۔ حکمت کے معانی و مفاہیم بہت وسیع و عمیق ہیں۔ حکمت سے مراد بصیرت‘ معاملہ فہمی‘ دور بینی‘ دور اندیشی اور باتوں کی تہہ تک پہنچنے کی خداداد صلاحیت ہے۔ ایک صاحبِ حکمت کے پاس علمِ غیب تو نہیں ہوتا مگر وہ حالات و واقعات اور مشاہدات کی کڑیاں آپس میں ملا کر مستقبل میں پیش آنے والی صورتحال کا بڑی حد تک ٹھیک ٹھیک اندازہ لگا لیتا ہے۔ یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ حکمت کے وسیع تر مفہوم میں علم و استدلال اور عدل و انصاف بھی شامل ہیں۔
حکمت پر کسی کا اجارہ نہیں جو قوم علم و استدلال‘ عدل و انصاف اور غور و فکر کو اپنا شعار بنا لیتی ہے اسے حکمت کی دولت عطا ہو جاتی ہے۔ آج وہی اقوام دوسروں سے آگے ہیں جنہوں نے ہر شعبے میں مراکزِ حکمت و دانش قائم کیے ہیں۔ سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ ہمیں اپنے اچھے برُے کی تمیز ہو۔ ہمیں معلوم ہو کہ ہمارا قومی اور اجتماعی فائدہ کس میں ہے۔ ہم حکمت کی عظیم دولت تک تو تب پہنچیں گے کہ جب ہمیں احساس ہو کہ ہماری عزیز ترین متاعِ دانش کھو گئی ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے ہم پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنا حال تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہر کوئی اپنے ذاتی مفادات و اختیارات کی دنیا میں مگن ہے۔ اس میں الا ماشاء اللہ شاذ ہی کوئی استثنا ہو۔ اسی لیے تو جون ایلیا نے اپنے قومی حالِ تباہ کی عکاسی کرتے ہوئے کہا تھا:
تُو میرا حوصلہ تو دیکھ‘ داد تو دے کہ اب مجھے
شوقِ کمال بھی نہیں خوفِ زوال بھی نہیں
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
بس یہی ہمارا مختصر فسانہ بھی ہے اور طویل قصہ بھی۔
آئیے ذرا اپنے گرد و پیش پر ایک نظر ڈال لیں کہ وہاں شوقِ کمال کن بلندیوں تک پہنچ چکا ہے اور ہم کن پستیوں میں باہم دست و گریباں ہیں۔ انڈیا میں امریکی سفیر ایرک گارسیٹی نے وہاں اپنی ملازمت کا ایک سال مکمل ہونے پر اپنی ایک وڈیو ایکس پر جاری کی ہے۔ اس میں سفیر محترم بتاتے ہیں کہ انہوں نے ایک سال میں بھارت کی 22 ریاستوں کا سفر کیا ہے اور وہاں انہوں نے بھارتی ترقی کے بعض حیران کن مراکز دیکھے اور انہیں انڈین کلچر کے دلچسپ مظاہر سے بھی لطف اندوز ہونے کا موقع ملا ہے۔ گارسیٹی کا کہنا ہے کہ انڈیا کے ساتھ صرف ایک سال میں امریکہ نے200 بلین ڈالر سے اوپر کے تجارتی‘ تعلیمی اور سائنسی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں‘ انڈیا کے ساتھ امریکی دوستی نئی رفعتوں کی طرف پرواز کر رہی ہے۔بھارت میں امریکی نمائندے کے بقول دونوں ممالک کی مشترکہ کاوشوں سے سمندر کی تہہ میں پڑے ہوئے خزانوں سے لے کر لامحدود خلا میں نئی دنیائیں دریافت کرنے تک کے منصوبوں پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔ اگلے سال فضا میں امریکن انڈین مشترکہ سیٹلائٹ بھیجا جا رہا ہے۔ اس وڈیو میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ امریکی خلائی ادارہ ''ناسا‘‘ اور بھارتی سپیس ریسرچ ادارہ ''اِسرو‘‘ کے مابین وسیع تر بنیادوں پر مفاہمت ہو چکی ہے۔ گزشتہ دس برس کے دوران بھارت میں بے پناہ ترقی ہوئی۔ روایتی ترقی سے آگے بڑھ کر وہاں اب ڈیجیٹل ترقی ہو رہی ہے۔ انڈیا دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔ دس سال میں 25 کروڑ بھارتی خطِ غربت سے باہر آئے ہیں۔ بھارتی برآمدات اس عشرے میں 1249 کھرب سے بڑھ کر 2252 کھرب روپے تک پہنچ گئی ہیں۔ عالمی ڈیجیٹل لین دین کا 46 فیصد بھارت کے ذریعے ہونے لگا ہے۔ چار کروڑ دس لاکھ غریبوں کو پکے گھر ملے ہیں۔ پہلے وہاں میٹرو کی سہولت صرف پانچ شہروں تک محدود تھی اور اب 20 شہروں کو فراہم کر دی گئی ہے۔ ان دس برسوں میں بھارت جو کچھ کرتا رہا وہ قابلِ رشک ہے اور اس دوران ہم جو کچھ کرتے رہے ہیں اور ابھی تک کر رہے ہیں وہ ہمارے پڑوسی کے لیے باعثِ اطمینان و مسرت ہے۔
2014ء سے لے کر 2024ء تک ہم ہر گزرتے لمحے کے ساتھ حکمت و دانش سے دور ہوتے چلے گئے۔ اس دوران ہمارے سیاستدانوں‘ اداروں‘ ایوانوں اور عدالتوں نے اور تو شاید بہت کچھ سوچا ہو مگر حکمت نامی عطیۂ خداوندی کی طرف مراجعت کے لیے کوئی سنجیدہ کاوش نہیں ہوئی۔ انہی برسوں میں 2018ء کے انتخابات ہوئے جنہیں اہلِ پاکستان کی ہی نظر میں نہیں‘ دنیا میں متنازع قرار دیا گیا۔ اس کے بعد حکمران بننے والی جماعت نے پارلیمانی اصولوں کے مطابق اس وقت کی اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے سے انکار کر دیا کہ جس نے اُن کا مینڈیٹ تسلیم کر لیا تھا۔ پھر 2024ء کا الیکشن ہوا تو فیئر اینڈ فری الیکشن ایک بار پھر خوابِ پریشاں بن گیا۔ بس اس دوران اتنا ہوا کہ پچھلے حکمران شکست سے دوچار ہو چکے تھے یا کر دیے گئے تھے۔ اب 2018ء والی حزبِ اختلاف اقتدار کی فرنٹ سیٹوں پر براجمان ہو گئی ہے اور فارم 45 اور 47 والا نیا تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔
اس عشرے میں ہمارے ہاں سب سے زیادہ معیشت اور قومی یکجہتی کو نظر انداز کیا گیا۔ آئی ایم ایف پانچ چھوڑ دس بلین ڈالر مزید قرض کیوں نہ دے دے مگر جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہو گا اس وقت تک یہ قرضے بے ثمر رہیں گے۔ بھارت اربوں ڈالر کا زرِمبادلہ کما رہا ہے اور ہم اربوں ڈالر کے قرضے جہاں کہیں سے ملتے ہیں اپنی پشت پر لادے چلے جا رہے ہیں۔ خود آئی ایم ایف نے ہمیں متوجہ کیا ہے کہ آپ کے ملک میں نئے انتخابات کے بعد بھی سیاسی قرار ہے نہ استحکام۔
مجھے حیرت ہے کہ ملک میں ایک سے بڑھ کر ایک معزز و محترم ادارہ ہے مگر اداروں کے مابین جو احترامِ باہمی ہونا چاہیے وہ کم کم نظر آ رہا ہے۔ سینیٹ کے رکن فیصل واوڈا نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں جو الفاظ استعمال کیے ہیں اُن کا کسی ملک میں تصور تک بھی نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کے مہذب ملکوں میں عدالتِ عظمیٰ کو نہایت مقدس مقام حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح جمعرات کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران ایک پرانے پارلیمنٹرین نے ایک خاتون رکن کے خلاف جس گرم گفتاری بلکہ گالی گفتاری سے کام لیا ہے وہ بھی نہایت قابلِ مذمت ہے۔ ہم یہی کچھ گزشتہ دس برس سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ نجانے ہمیں کیا ہو گیا ہے‘ ہم اپنے حال بلکہ حالِ تباہ سے اتنے بے خبر کیوں ہیں۔ ہم اپنے رویوں پر نظرثانی کیوں نہیں کرتے۔
اس وقت بلاشبہ معیشت ہماری اولین ترجیح ہے‘ تاہم ہمیں اپنی متاعِ گم گشتہ کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرور ت ہے۔ ہمیں ہنگامی بنیادوں پر سارے کام چھوڑ کر اپنے گھر میں دانائی کی تلاش شروع کر دینی چاہیے۔ ایک مرتبہ یہ عزیز ترین متاعِ دانائی ہمارے ہاتھ آ گئی تو پھر ان شاء اللہ وطنِ عزیز میں احترامِ باہمی بھی ہو گا اور ہم شاہراہِ ترقی پر دوسرے ملکوں سے آگے بھی نکل جائیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved