پاکستان میں یوں تو ہر شخص آئین کا نام لیتا ہے‘ اُٹھتے بیٹھتے اس کی مالا جپتا ہے اور آئین پر عمل کرنے کے مطالبے کرتا رہتا ہے لیکن اگر بغور کیا طائرانہ جائزہ ہی لیا جائے تو بہت سوں کو آئین کی پروا نہیں ہے۔ ہر شخص دوسرے کو آئین کے دائرے میں قید کرنا چاہتا ہے‘ افراد تو رہے ایک طرف‘ ادارے بھی اسی شوق میں مبتلا ہیں۔ اور تو اور جج صاحبان‘ جو آئین کی حفاظت پر مامور ہیں اور وکلا جو قانون کی حاکمیت کو ذریعۂ روزگار بنائے ہوئے ہیں‘ وہ بھی اپنی مرضی کو فوقیت دیتے ہیں‘ اسے دوسروں پر نافذ کرنے کو آئین کا تقاضا قرار دیتے ہیں۔ زیریں عدالتوں کے ججوں کا جینا تو انہوں نے دوبھر کر ہی رکھا ہے‘ اعلیٰ عدالتوں سے بھی دو دو ہاتھ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ لاہور شہر میں مہینوں زیریں عدالتوں میں عملاً تالے لگے رہے۔ کچہریوں کے محلِ وقوع کو بنیاد بنا کر عدالتوں کا بائیکاٹ کرایا گیا۔ قانون نافذ کرنے والے تو کیا انصاف فراہم کرنے والے بھی بے بسی کی تصویر بنے نظر آئے۔
پرویز مشرف نے اپنے چیف جسٹس افتخار چودھری سے نجات حاصل کرنا چاہی تو انہیں یہ سودا مہنگا پڑ گیا۔ ایسی کشمکش کا آغاز ہوا جس میں بالآخر موصوف کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ چیف جسٹس اور اعلیٰ عدالتوں کے جن ججوں کو نکال باہر کیا گیا تھا‘ وہ سب بحال ہو گئے۔ نوازشریف اور عمران خان اس وقت یک جان تھے‘ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے سر تسلیم خم کیا اور بیک جنبش قلم تاریخ میں پہلی بار ''باغی جج صاحبان‘‘ کو ان کے عہدوں پر بحال کر دیا۔ یہ اقدام انہیں ذاتی طور پر مہنگا پڑا کہ چیف جسٹس نے انہی کو توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دے کر ان کے اقتدار کو ڈس لیا۔ چیف جسٹس اور ان کے جانثاروں نے عدالتی تقرریوں میں فیصلہ کن حیثیت حاصل کر لی‘ پارلیمنٹ کے کردار کو محدود کر دیا۔ قوم کے بڑے حصے نے اس وقت یہ امید لگائی تھی کہ عدلیہ آزاد ہو کر نئی تاریخ رقم کرے گی‘ آئین کا بول بالا ہوگا اور ماضی کا ازالہ ہوگا لیکن جو کچھ دیکھنے کو ملا وہ خدا کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ چیف جسٹس کے عہدے میں طاقت مرتکز ہوئی تو چیف جسٹس صاحبان کی بے لگامی کو عدلیہ کی آزادی کا لبادہ اوڑھا دیا گیا۔ افتخار چودھری اور ان کے بعد آنے والے کئی چیف جسٹس صاحبان جس طرح کھل کے کھیلے وہ ہماری تاریخ کا ایک ایسا باب ہے کہ محض سیاہ کہہ کر اس کے تعارف کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کی تاریخ میں بھی مذکورہ جج صاحبان کے تجاوزات کی مثالیں ڈھونڈنا آسان نہیں ہوگا۔ آئین اور قانون کو برُی طرح روند ڈالا گیا اور پاکستان کے سیاسی‘ سماجی اور معاشی نظم کو تہہ و بالا کر دیا گیا۔ مقننہ اور انتظامیہ دونوں ان کی ذاتی پسند و ناپسند کے سامنے ڈھیر تھیں۔ چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوئی کوشش اس لیے کامیاب نہ ہو سکی کہ اہلِ سیاست منقسم تھے اور ایک دوسرے کی درگت بنتا دیکھ کر لطف اندوز ہوتے تھے۔ اگر پارلیمنٹ اپنے ادارہ جاتی کردار پر توجہ دیتی تو لگام ڈالی جا سکتی تھی لیکن اس کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں تھی انہیں یہ پسند نہیں تھا۔ خدا خدا کرکے وزیراعظم شہباز شریف کی اولین حکومت کو یہ توفیق نصیب ہوئی کہ چیف جسٹس کے انتظامی اختیارات پر قدغن لگائی اور سو وموٹو نوٹس لینے کا اختیار محدود کر دیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال راستے کی دیوار بن گئے‘ خدا بھلا کرے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہ انہوں نے منصب سنبھال کر اپنے انتظامی اختیارات کو محدود کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی اور بندیال کورٹ کا معطل شدہ قانون بحال کر دیا۔ چیف جسٹس کو دیو سے انسان بنا کر دکھا دیا۔
عدلیہ کی منہ زوری کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ بڑے بڑے منہ زوروں نے اس کا رخ کرلیا۔ مقننہ اور انتظامیہ کو تابع فرمان بنانے بلکہ وزیراعظم کو مٹّی کا مادھو بنانے کیلئے جج صاحبان کی خدمات حاصل ہو گئیں نتیجتاً وہ کچھ ہونے لگا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا‘ اس پر خود عدلیہ کے اندر اضطراب پیدا ہوا اور اسلام آباد کے چھ جج صاحبان نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ ڈالا جس میں خفیہ اداروں کی مداخلت کے خلاف دہائی دی گئی تھی‘ سپریم کورٹ میں اس حوالے سے سماعت شروع ہے‘ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی توہینِ عدالت کی کارروائی کی جا رہی ہے ۔ اہلِ سیاست میں سے کئی جج صاحبان پر چڑھ دوڑے ہیں‘ سپریم کورٹ کو اُن کی بدزبانی یا بے لگامی کا نوٹس لے کر توہینِ عدالت کے نوٹس جاری کرنا پڑے ہیں۔
ایک طرف یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو دوسری طرف سیاست کی دنیا تہہ و بالا ہے۔ گزشتہ سال 9مئی کو فوجی اور قومی تنصیبات پر جس طرح حملے کیے گئے اُس نے تحریک انصاف کی مشکلات میں اضافہ تو کرنا ہی تھا‘پورا سیاسی ماحول متعفن ہو چکا ہے۔8فروری کو جو انتخابات ہوئے ‘ اُن کے حوالے سے شکایات کا انبار لگا ہوا ہے۔ عمران خان حوالۂ زنداں ہیں اور اُن پر قائم مقدمات کی تعداد کم ہونے میں نہیں آ رہی۔ وہ بضد ہیں کہ بات چیت صرف فوجی قیادت سے ہوگی لیکن اس پر الزامات کی بوچھاڑ بھی جاری ہے۔ تحریک انصاف سنی اتحاد کونسل کا لبادہ اوڑھ کر اسمبلیوں میں بیٹھنے پر مجبور ہے۔الیکشن کمیشن کو اُس کے پارٹی انتخابات پسند ہی نہیں آ رہے‘ سو وہ پارلیمانی جماعت کے طور پر کردار اد اکرنے سے قاصر ہے۔عمران خان کے حکم پر اُن کے جیالوں نے محمود خان اچکزئی کی قیادت میں ''تحریک تحفظ آئین‘‘ بنا (یا چلا) رکھی ہے جو لوگ حکومت میں بیٹھے ہیں‘ وہ اپنے آئینی جواز اور حقوق پر زور دے رہے ہیں اُنہیں بھی پارلیمنٹ کی بالا دستی پر اصرار ہے۔ لیکن دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے کے ساتھ بیٹھنے پر تیار نہیں ہے۔ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن ایک دوسرے کے ''گناہ‘‘ معاف کر چکے ہیں‘ خان صاحب مولانا سے اُمیدیں بھی لگائے بیٹھے ہیں لیکن اُن کی جمہوریت میں اپنے اصلی اور وڈّے حریفانِ سیاست کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
جس آئین کی ''بحالی‘‘ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور جس کیلئے تحریک چلانے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں اُس کی کون سی دفعہ اہلِ سیاست کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے انسانی حقوق سے انکار کریں‘ ایک دوسرے پر زمین تنگ کریں اور ایک دوسرے کا مینڈیٹ چوری کرنے کو جمہوری کارنامہ قرار دیں۔ ایک دوسرے کو آئین کا سبق پڑھانے کے بجائے ہر شخص اور ہر ادارہ اگر آئین کا مطالعہ شروع کر دے اور اُس کے تحت اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرلے تو ڈگمگاتی کشتی کسی کنارے لگ سکتی ہے۔ ایک دوسرے کو سبق پڑھانے یا سکھانے کا مرض پالا جاتا رہے گا تو بالآخر تاریخ سب کو سبق سکھا دے گی۔آئین کا مذاق اُڑانے والے مذاق بن کر رہ جائیں گے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved