یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی سکینڈل ہو اور اس میں ہمارے زکوٹا جن ملوث نہ ہوں۔ نگران حکومت نے کسانوں کو تباہ کرنے کی جو امپورٹ پالیسی بنائی تھی اس کی تفصیل تو آپ جان چکے‘ لیکن پنجاب میں صوبائی وزارتِ خزانہ اور فوڈ ڈپارٹمنٹ کے اعلیٰ افسران نے اس کھیل میں پچھلے کچھ عرصہ میں جو حصہ ڈالا ہے اس کی تفصیلات بھی خوفناک ہیں۔ آپ حیران ہو جاتے ہیں کہ واقعی یہ بیوروکریٹس اسی ملک میں رہتے ہیں؟ کیا یہ سب بھولے ہیں یا باقاعدہ منصوبہ بندی سے ملک کی بربادی میں حصہ ڈال رہے ہیں؟ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ ابھی نئی نئی ہیں لہٰذا وہ ان معاملات کو اس طرح سمجھ نہیں پا رہیں۔ روایتی طور پر شریف خاندان بیوروکریٹس پر زیادہ اعتماد کرتا آیا ہے۔ بیوروکریٹ بھی ایسے جن کی اتنی طاقت اور دہشت ہوتی ہے کہ اسمبلی کے اراکین چھوڑیں بڑے بڑے وزیروں تک کو جرأت نہیں ہوتی کہ ان کے سامنے ٹھہر سکیں۔ یہ بابوز سب کو انکار کر سکتے ہیں لیکن شریفوں کے سامنے بچھتے جائیں گے۔ اب تو بیوروکریٹ سیاسی وفادار طبقے میں شامل ہو چکا۔ ان کو go-getterکہا جاتا ہے۔ ان سب کو ایک دو گریڈ اوپر عہدے کا چارج دے کر‘ اپنے بیچ میٹ سے اوپر لگا کر ان کی وفاداریاں خرید لی جاتی ہیں۔ جب گریڈ 18کا افسر گریڈ 20کے عہدے کا چارج سنبھالے گا اور جو سفر اس نے 10‘ 12سال میں طے کرنا ہے وہ دس دنوں میں طے کر لے گا تو پھر آپ تصور کریں اس کی وفاداری کسی بھی سیاسی خاندان سے کس لیول پر ہو گی۔ شریفوں کو ایک ہی غرض ہوتی ہے کہ ان کے ذاتی کام نہیں رکنے چاہئیں اور بیوروکریسی کے نزدیک یہی کرائٹیریا ہے ترقی اور راتوں رات بڑے عہدے لینے کا۔
اب ذرا گندم سکینڈل پر نظر ڈالیں‘ مجھے پنجاب سیکرٹریٹ سے قابلِ اعتماد ذرائع نے بتایا ہے کہ گندم خریداری کے سکینڈل سے پہلے فیلڈ میں موجود افسران نے خبردار کرنا شروع کر دیا تھا۔ ان افسران نے اپنی رپورٹس میں لکھ کر بھیجا تھا کہ اس سال گندم کی بھرپور فصل آرہی ہے لہٰذا ابھی سے انتظامات کر لیے جائیں۔ پنجاب حکومت کو افسران نے بتایا تھا کہ اوپن مارکیٹ میں گندم کی فی من قیمت پانچ ہزار روپے ہے‘ ملوں وغیرہ کو گندم کی ریلیز کرنے سے قیمتیں کم ہوئی ہیں لیکن جب گندم کی خریداری مکمل ہو جائے گی تو قیمتیں پھر اوپر جائیں گی۔ پنجاب حکومت نے گندم کی سپورٹ پرائس 3900مقرر کی ہوئی ہے لیکن مرکزی/ پنجاب حکومت منصوبہ بنا رہی ہے کہ یہ کسانوں سے صرف دس سے بارہ فیصد گندم خریدے گی جس سے گندم کا ریٹ اوپن مارکیٹ میں نیچے گرے گا اور کسان مارا جائے گا۔ بار دانہ ایک کنٹرولڈ آئٹم ہے مطلب سرکار کی مرضی ہے وہ کسانوں کو کتنی بوریاں ایشو کرتی ہے‘ لہٰذا جب آپ صرف دس بارہ فیصد گندم خریداری کا پلان بنائیں گے تو بوریاں بھی کم ایشو ہوں گی جس سے تحصیل اور ضلع لیول پر کسانوں کا خریداری کے لیے دبائو بڑھے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پروکیورمنٹ ٹارگٹ کم از کم 30فیصد رکھیں۔ افسران کا کہنا تھا کہ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ ان مواقع پر سکینڈلز سامنے آتے ہیں۔ کرپشن کی خبریں چھپیں گی اور نئی حکومت بحران میں گھِر جائے گی۔ حکومت پنجاب کو ان کے فیلڈ افسران کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ اس وقت فارم گیٹ پر گندم کی فی من لاگت تقریباً 4500روپے ہے۔ کسان پہلے ہی پانچ چھ سو روپے فی من نقصان میں گندم بیچ رہا ہے‘ یوں جب حکومت کم خریدے گی تو کسانوں میں Panic پھیلے گا اور وہ اپنے اخراجات‘ پرانے قرضے واپس اور نئی فصل کاشت کرنے کا خرچہ پورا کرنے کے چکر میں آڑھتی اور مڈل مین کو گندم بیچے گا جو یقینا ہزار پندرہ سو روپے کم قیمت پر خریدے گا۔ مڈل مین اور آڑھتی کم قیمت پر گندم خرید کر ذخیرہ کر لیں گے اور کچھ عرصہ بعد یہی بزنس مین حکومت پر دباؤ ڈالیں گے کہ گندم سرپلس ہے لہٰذا انہیں ایکسپورٹ کرنے دی جائے۔ فوڈ ڈپارٹمنٹ/ پاسکو بھی یہی توجیہ پیش کرے گا کہ انہوں نے جو گندم خریدی تھی اس پر لیا گیا بینکوں کا قرضہ بڑھ رہا ہے لہٰذا ایکسپورٹ کرنے دیں۔ یوں امپورٹ ایکسپورٹ کا ایک حیران کن سائیکل پھر شروع ہو جائے گا۔ یہی کچھ 2019ء میں ہوا تھا جب اُسوقت کی حکومت کو کہا گیا کہ ہمارے پاس سرپلس گندم پڑی ہے ہمیں ایکسپورٹ کرنے دیں۔ جونہی ایکسپورٹ شروع ہوئی لوکل مارکیٹ میں گندم اور آٹے کی شارٹیج شروع ہوگئی اور پتہ چلا کہ پاکستان کے پاس تو اپنی ضرورت کی گندم اور آٹا بھی نہیں۔ یوں سستی گندم باہر بھیج کر کچھ دنوں بعد مہنگی گندم منگوائی گئی اور آج تک ہم گندم امپورٹ کررہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق 2019ء سے اب تک پاکستان ساڑھے تین ارب ڈالرز کی 60لاکھ ٹن سے زائد گندم منگوا چکا ہے۔ ابھی چند ماہ پہلے سوا ارب ڈالرز کی گندم نگران حکومت کے دور میں منگوائی گئی جس نے کسانوں کا بھٹہ بٹھا دیا ہے۔ ایک طرف سوا ارب ڈالرز کی گندم باہر سے منگوائی گئی ہے تو اب کسانوں کی گندم خریداری میں بحران پیدا کرکے سستی خرید کر ایکسپورٹ کرنے کا مقدمہ جلد تیار ہوگا۔پہلے امپورٹ کے نام پر جنہوں نے لمبا کمایا وہ ایکسپورٹ کے نام پر بھی کمائیں گے۔ پہلے امپورٹ پر کسان مارا گیا‘ اب پروکیورمنٹ پر بھی وہی مارا گیا جس سے سستی گندم خرید کر اب مہنگی بیچی جائے گی۔ یوں فائدے میں امپورٹرز ایکسپورٹرز رہے۔
چند ماہ بعد آپ دیکھیں گے یہی مڈل مین اور آڑھتی کسانوں کو لوٹنے کے بعد گندم باہر بھیج رہے ہوں گے اور پھر اسی طرح آٹے کا بحران پیدا ہوگا‘ جیسے ایک دفعہ پہلے بھی وزیراعلیٰ شہباز شریف اور پھر عثمان بزدار کے دور میں ہوا تھا۔ اب اسی طرز پر مریم نواز صاحبہ کے دور کیلئے بھی سکینڈل تیار کیا جارہا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ وزارتِ خزانہ اور خوراک کے اعلیٰ افسران نے وزیراعلیٰ پنجاب سے یہ بیان بھی دلوا دیا ہے کہ پنجاب میں گندم کا کوئی بحران نہیں۔ گندم بحران میں انگلیاں ایک سابق بیوروکریٹ کے بابو بیٹے کی طرف اُٹھ رہی ہیں جس نے پنجاب میں کسانوں کیلئے پروکیورمنٹ فنڈز جاری کرنے سے انکار کیا اور اپنے تئیں آئی ایم ایف کا نام استعمال کیا اور فری مارکیٹ اکانومی کا نعرہ مارا۔ کوئی بھی ملک فوڈ سکیورٹی ایشوز پر فری مارکیٹ اکانومی کا بھاشن نہیں سنے گا۔ ہر سال اربوں روپے گندم کے سیزن میں شہروں سے دیہات کی طرف ٹرانسفر ہونے ہوتے ہیں اور آبادی کا بڑا طبقہ ہر سال ان چند دنوں میں کمائی گئی دولت پر پورا سال گزارتا ہے اور شہروں کا رُخ نہیں کرتا۔ اس بحران سے دیہات میں غربت بڑھے گی۔ لوگ مزدوری کیلئے شہروں کا رُخ کریں گے۔ لاہور میں وزارتِ خزانہ کے بیوروکریٹ‘ جنہوں نے ایک رات گاؤں میں نہیں گزاری‘ کھیت تک نہیں دیکھا وہ ان کسانوں کو برباد کرنے میں شامل ہیں جنہوں نے اس ملک میں گندم وافر مقدار میں پیدا کر کے اربوں ڈالرز بچائے ہیں‘ جو پچھلے کئی سالوں سے ہم غیرملکی کسانوں سے خرید کر لاتے ہیں۔ دکھ یہ ہے کہ بیوروکریٹس کے بچوں نے اس وقت شور نہیں ڈالا جب نگران حکومت دھڑا دھڑ بیرونِ ملک سے گندم سے بھرے جہاز منگوا رہی تھی جو مئی کے پہلے ہفتے تک کراچی پورٹ پر اُتر رہے تھے اور کسان پاسکو اور فوڈ ڈپارٹمنٹ کے ہاتھوں ذلیل ہو رہا تھا۔ اس کی گندم خریدنے والا کوئی نہ تھا۔ اب اگلے سال گندم بہت کم کاشت کی جائے گی اور گندم اور آٹے کا بحران پیدا ہو گا تو یہی زکوٹے جو چپ چاپ کسان کا تماشا دیکھ رہے ہیں‘ وہ ڈالرز ادھار مانگ کر گندم کے بھرے جہاز یوکرین‘ روس کینیڈا یا آسٹریلیا سے لے آئیں گے‘ لمبا مال کمائیں گے۔
پاکستان میں لوٹ مار ہمارے لاڈلے زکوٹا جنوں کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ آج کل ان جنوں کے نشانے پر کسان ہیں کیونکہ وہ ایزی ٹارگٹ ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved