وزیر اعظم محمد نواز شریف نے امریکہ کے چار روزہ سرکاری دورے پر جاتے ہوئے لندن میں ایک بیان میں کہا کہ امریکہ کو پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مداخلت کرنی چاہیے کیونکہ ان دونوں ملکوں کے ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے کشمیر ایک ’’نیو کلیئرفلیش پوائنٹ‘‘ بن چکا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کشمیر کی وجہ سے دونوں میں ایٹمی جنگ ہوسکتی ہے،جو نہ صرف جنوبی ایشیا کے خطے کے لیے تباہ کن ہوگی، بلکہ پورے عالمی نظام کو غیر مستحکم کر سکتی ہے۔وزیراعظم نے یہ بھی فرمایا کہ جتنی توجہ اور وسائل امریکہ نے اب تک مشرق وسطیٰ میں عرب۔ اسرائیل تنازعہ کو حل کرنے پر صرف کیے ہیں،ان کا اگر ایک قلیل حصہ بھی کشمیر پر صَرف کیا جاتا تو اب تک یہ مسئلہ حل ہو گیا ہوتا۔ وزیراعظم کی یہ تمام باتیں پاکستانی نکتہ نظر سے صحیح بھی ہیں اور جائز بھی‘ کیونکہ شروع سے ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور مسئلہ کشمیر رہا ہے۔ پاکستان نے 1950ء کی دہائی میں امریکہ کے ساتھ جو سکیورٹی تعلقات قائم کیے تھے اور ان کے علاوہ سیٹو(SEATO)اور معاہدہ بغداد میں شرکت کی تھی،ان کا مقصد بھی کشمیرکے مسئلے کے حل کے لیے اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانا تھا۔پاکستان نے سرد جنگ کے دوران روس کے خلاف امریکہ کا اتحادی بن کر جو رسک(Risk)لیا تھا،اس کا مقصدبھی یہی تھا کہ امریکہ جیسی سپر پاور کا اتحادی بن کر بھارت کے ساتھ اپنے تنازعات کے حل کے لیے حمایت حاصل کرسکے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہو کر اور خصوصاََ افغانستان میں لڑنے والی امریکی اور نیٹو افواج کے لیے سپلائی کا راستہ مہیا کر کے پاکستان جائز طور پر سمجھتا ہے کہ امریکہ کو بھی پاکستان کے بنیادی مفادات کے تحفظ کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنا چاہیے۔چنانچہ وزیراعظم نوازشریف پاکستان کے پہلے یا واحد رہنما نہیں جنہوں نے اس قسم کی توقعات کے ساتھ مسئلہ کشمیر میںامریکی مداخلت پر زور دیا ہے۔اس کے علاوہ پاکستانی رہنمائوں کے سامنے یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ کشمیر ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اس کا ثبوت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی وہ قرار دادیں ہیں جن میں کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کی گئی ہے۔ان قراردادوں کی منظوری میں سلامتی کونسل کے اس وقت کے پانچوں مستقل اراکین نے‘ جن میں امریکہ بھی شامل تھا،اپنا ووٹ دیاتھا۔چنانچہ پاکستانی یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر 1948ء میں امریکہ کشمیر پر پاکستانی اور کشمیری عوام کی حمایت کے لیے سفارتی کوششوں میں حصہ لے سکتا ہے اور اپنا وزن پاکستان کے پلڑے میں ڈال سکتا ہے،تو اب ایسا ممکن کیوں نہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی سے امریکہ کی جانب سے اس نوع کی کوشش اور مداخلت اور بھی ضروری ہے۔ لیکن جیسا کہ پہلے کہا جاچکا ہے،یہ دلائل پاکستانی نکتہ نظر سے درست اور وزنی ہو سکتے ہیں‘ مگر جہاں تک بین الااقوامی سیاست کے موجودہ حقائق اور امریکہ کی ترجیحات کا تعلق ہے،وہ سرے سے ہی مختلف ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کے اس بیان پر امریکہ کے محکمہ خارجہ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے بارے میں امریکہ کی موجودہ پالیسی وہی ہے جو اس سے پہلے تھی اور اس میں ذرّہ بھر تبدیلی نہیں آئی‘ یعنی کشمیر ایک تنازعہ ہے جسے پاکستان اور بھارت کو دوطرفہ بنیادوں پر بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔رہا یہ کہ پاکستان اور بھارت کب اس پر بات چیت کریں گے،کہاں کریں گے اور کتنی مدت میں اس مسئلے کو حل کریں گے؟اس کا انحصار خود ان ممالک کی حکومتوں پر ہے۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے،وہ نہ تو اس میں مداخلت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور نہ ہی اس میں وہ ثالثی کا کردار اداکرنے کی خواہش رکھتا ہے۔البتہ اگر پاکستان اور بھارت دونوں مشترکہ طور پر خواہش کا اظہار کریں تو امریکہ اس مسئلے کے پر امن حل کے لیے مدد فراہم کر سکتا ہے۔ اس بیان کا اگربنظرغور جائزہ لیا جائے تو جہاں اس میں پاکستان کے لیے مایوسی کا عنصر موجود ہے،وہاں کشمیر پر بھارت کو موقف سے اختلاف بھی جھلکتا ہے۔دنیاکے بہت سے دیگرممالک کی طرح امریکہ بھی بھارت کے اس موقف کو تسلیم نہیں کرتا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ امریکہ اسے ایک متنازعہ مسئلہ قراردیتا ہے جس کاحتمی حل ابھی باقی ہے۔امریکہ نے براہ راست نہیں،بلکہ بالواسطہ طور پر اس مسئلے کے حل کے لیے نہ صرف دونوں ملکوں پر زور دیا ہے بلکہ وہ جنوبی ایشیا کے امن اور استحکام کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن،صلح اور تعاون کو ضروری سمجھتاہے۔امریکہ یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ کشمیر جیسے سنگین مسئلے کے حل کے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا‘ لیکن اس کے حل کا واحد راستہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دوطرفہ بنیادوں پر پرامن مذاکرات ہیں۔یہی راستہ پاک۔بھارت امن مذاکرات کے موجودہ سلسلے کے تحت اختیار کیا گیا ہے۔امریکہ کی طرف سے پاک۔بھارت امن مذاکرات کے عمل کی ہمیشہ حمایت کی گئی ہے اور اس کا مقصد بھی دونوں ملکوں کو اپنے دوطرفہ تنازعات‘ جن میں کشمیر بھی شامل ہے‘ کو پرامن طریقے سے حل کرنے پر راغب کرنا ہے۔امن کے لیے امریکہ نے اب تک جو کوششیں کی ہیں وہ پردے کے پیچھے رہ کرکی ہیں۔2004ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان امن مذاکرات کے احیاء کے لیے جوسمجھوتہ ہوا تھا،اس کو ممکن بنانے میں جن ممالک نے درپردہ اہم کردار اداکیاتھا،ان میں چین،روس،برطانیہ اور یورپی یونین کے علاوہ امریکہ بھی شامل ہے۔اس سے قبل1997ء میں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کی دوسری مدت کے دوران پاک۔ بھارت کے درمیان 4برس سے معطل شدہ مذاکرات دوبارہ شروع کروانے میں امریکہ نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اگر کشمیر کے مسئلے پر امریکہ کی جانب سے کھل کر اور موثر انداز میں مداخلت کی کوشش نہیں کی گئی تو اس کی دوبڑی وجوہ ہیں۔ایک بھارت کی طرف سے شدید مخالفت اور دوسرے خود امریکہ کی کشمیر کے مستقبل کے بارے میں ایک ایسی سوچ ہے جو جزوی طور پر بظاہر کچھ کچھ بھارتی موقف سے مطابقت رکھتی ہے اور کسی حد تک پاکستانی موقف کو سپورٹ کرتی ہے،لیکن دراصل ان دونوں ملکوں کے موقف سے متصادم ہے۔ مثلاََ امریکہ کا سرکاری موقف یہ ہے کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ ہے جس کادونوں ملکوں کو پر امن مذاکرات کے ذریعے ایسا حل تلاش کرنا چاہیے جو نہ صرف پاکستان اور بھارت کے لیے قابل قبول ہو بلکہ اس میں کشمیری عوام کی خواہشات اور مفادات بھی منعکس ہوتے ہوں۔ بھارت اور پاکستان کے بعض حلقوں میں اس موقف سے یہ مطلب لیاگیا ہے کہ امریکہ ایک آزاد کشمیری ریاست کے حق میں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ماضی میں جب بھی امریکہ کی طرف سے کشمیر پر پروایکٹو (Pro-Active) کردار اداکرنے کی ہلکی سی بھی بات یا حرکت کی گئی،بھارت کی طرف سے سخت ردِعمل سامنے آیا‘ اور اس کا جواب دینے کی بجائے،امریکہ نے ہمیشہ پسپائی اختیار کی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت خطے میں ایک بڑا ملک ہے اور گذشتہ چند برسوں کے دوران میں امریکہ نے بھارت کے ساتھ تجارت، توانائی، صنعت، زراعت، ٹیکنالوجی حتیٰ کہ فوجی اور دفاعی شعبے میں تعلقات کی جو بلند عمارت کھڑی کی ہے،امریکہ نہیں چاہتا کہ وہ دھڑام سے نیچے آگرے۔ خود پاکستان میں بھی جب کبھی امریکہ کی طرف سے مسئلہ کشمیر کو حل کروانے کے لیے ذرا سی بھی جنبش کے آثار نمایاں ہوتے ہیں،تو ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جاتا ہے۔کچھ حلقوں کو امریکہ کی نیت پر شک ہے اور بھارت کے چند حلقوں کی مانند سمجھتے ہیں کہ امریکہ کشمیر سے چین کے علاقے تبت اور سنکیانگ میں حالات اور واقعات پر نظر رکھنا چاہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مشرف کے زمانے میں جب امریکہ کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل کی خاطر سفارتی سطح پر کوشش کی گئی تھی اور چند امریکی تھنک ٹینکس(Think Tanks)نے تجاویز بھی پیش کی تھیں،تو پاکستان میں بعض حلقوں نے کہا تھا کہ اس وقت کے حالات مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سازگار نہیں کیونکہ باہر سے جو بھی حل مسلّط کیا جائے گا،وہ پاکستان کے مفاد کے خلاف ہوگا۔بلکہ کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ بھارت اور پاکستان کی سیاسی قیادت اس حد تک بالغ نظر اور تجربہ کار ہو چکی ہے کہ انہیں اپنے درمیان معاملات طے کرنے کے لیے باہرکی طاقتوں کو نہیں گھسیٹنا چاہیے‘ کیونکہ ان کا اپنا ایجنڈا ہے جو ضروری نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مفادات کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔معلوم نہیں وزیراعظم کے مشیران برائے خارجہ اور دفاعی امور کی نظروں سے یہ پہلو کیوں اوجھل رہا اور انہوں نے وزیراعظم کی جانب سے ایک ایسا بیان جاری کروادیا جو سرے سے ہی نان سٹار ٹر(Non-Starter) تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved