اپنے ارد گرد نظر ڈالیں‘ ملکی حالات اور قوم کے معاملات پر نظر ڈالیں تو ہر طرف بے یقینی اور بے چینی نظر آتی ہے۔ حکمران اس صورتحال پر پریشان ہیں یا نہیں‘ لیکن یہ حقیقت ہے کہ عوام بہت پریشان ہیں۔ انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ کیا کریں‘ کدھر جائیں۔ گزشتہ تین دہائیوں میں حالات نے ایسا پلٹا کھایا ہے اور واقعات نے ایسی اُلٹ بازی لگائی ہے کہ سب کچھ تبدیل ہو گیا ہے۔ معیشت بھی‘ معاشرت بھی‘ اقدار بھی‘ روایات بھی‘ طرزِ زندگی بھی اور سماجی تعاملات بھی۔ جو رویے اور دستور ماضی میں کھوٹے سکے تصور کیے جاتے تھے‘ وہ آج سکہ رائج الوقت بن چکے ہیں‘ اور جن رویوں کی کبھی سب سے زیادہ تعظیم تھی وہ آج منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ زندگی نے ایسا یُوٹرن لیا ہے کہ گزرے ماہ و سال خواب و خیال معلوم ہونے لگے ہیں۔ لگتا ہی نہیں کہ اس ملک میں کبھی وہ وقت بھی تھا جب لوگوں میں محبت‘ یگانگت اور اُلفت تھی اور بھائی چارہ‘ ہمدردی تھی اور درد مندی و غم خواری بھی۔ کہیں کوئی موت ہو جاتی تو پورے محلے میں سوگ کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی‘ پڑوس میں دور دور تک‘ کئی کئی روز تک ٹی وی نہیں لگایا جاتا تھا۔ یہ حقیقی دکھ ہوتا تھا‘ اندر کا کرب‘ آج کل کی طرح محض دکھاوا نہیں۔ لوگ مثالیں دیتے ہیں‘ لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اس زمانے میں لوگ حقیقتاً ایک پاؤ یا زیادہ سے زیادہ آدھا کلو گوشت خریدتے تھے اور اس سے بنے سالن سے سات آٹھ نفوس پر مشتمل پورا گھرانہ دو وقت روٹی کھاتا تھا۔ وہ زمانہ ایک وسیع متوسط طبقے اور محدود امیر اور غریب طبقوں کا زمانہ تھا‘ یعنی درمیانی مالی حالت کے حامل لوگ زیادہ تھے۔ سب ایک دوسرے جیسے تھے‘ اس لیے سب ایک دوسرے کا دکھ درد سمجھتے تھے اور وقت پڑنے پر ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے تھے‘ اوپر اوپر سے نہیں‘ جیسا کہ آج کل چلن ہے بلکہ اندر سے‘ بالکل دل سے‘ بلکہ دل کی گہرائیوں سے۔ تب یقین اس لیے تھا کہ سب کو ایک دوسرے پر یقین تھا‘ اب بے یقینی اور بے چینی اس لیے ہے کہ کسی کو کسی پر یقین نہیں رہا۔ دولت‘ پیسے اور مادہ پرستی کا چلن اس قدر عام ہو چکا ہے کہ لگتا ہے انسانی اقدار کا سٹیشن کہیں پیچھے چھوٹ چکا۔
معاشرے میں پائی جانے والی بے چینی کی ایک وجہ سیاست کے میدانوں اور اقتدار کے ایوانوں میں پائی جانے والی بے چینی بھی ہے۔ محض ایک دن کی خبروں کی صرف سرخیاں پڑھ لیں‘ اندازہ ہو جائے گا کہ کیسے چار سُو ایک غدر سا مچا ہوا ہے۔ اب بتائیے کہ اس کے بعد سکون کہاں سے آئے؟ طاقت اور اقتدار کے ایوانوں میں کچھ سکون ہو اور حکمرانوں کو کچھ فرصت ملے تو وہاں بیٹھے لوگ عوام اور ان کے مسائل کے بارے میں سوچیں۔ ذرا تصور کریں کہ جب حکمرانوں اور اپوزیشن کا سارا وقت بیانات اور جوابی بیانات میں لگ جائے گا‘ مقدمے بازی میں صرف ہو جائے گا تو وہ حکومت اور حکمرانی کے بارے میں کب سوچیں گے؟ عوام کے مسائل کا حل کب اور کہاں سے تلاش کریں گے؟
ایسی اتھاہ بے یقینی اور بے کیفی میں رانا ثنااللہ کی باتیں ہوا کا خوشگوار جھونکا بن کر سامنے آئی ہیں۔ گزشتہ روز اپنے انٹرویو میں انہوں آگے بڑھنے کا راستہ سجھایا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کو ایک طرف کر کے آج سے نیا آغاز کیا جائے‘ وزیر اعظم سوچ رہے ہیں کہ وہ صدرِ مملکت سے کہیں کہ معاملے کو سلجھائیں۔ سیاستدان‘ عدلیہ‘ مقتدرہ سب کو ماضی کے معاملے سے نکلنا ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر سیاستدان کہیں کہ وہ بے قصور ہیں‘ ساری غلطی مقتدرہ اور عدلیہ نے کی تو یہ درست نہیں۔ عدلیہ کہے کہ ہم نے تو بالکل آئین و قانون کی پاس داری کی ہے وہ بھی درست نہیں ہو گا۔ مقتدرہ کہے کہ کبھی کسی کے معاملے میں دخل نہیں دیا تو یہ بات بھی سچ نہیں ہو گی۔ کیا انہوں نے حالات کی درست نباضی کی ہے؟ انہوں نے جو کچھ کہا وہ دریا کو بلکہ میرے خیال میں سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ یہی آج کے دور میں ہمارے ارد گرد موجود چھوٹے بڑے‘ سادہ و پیچیدہ مسائل کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اب یہ بات تسلیم کر لینے میں کوئی حرج نہیں کہ ہم نے بحیثیت قوم انفرادی سے لے کر اجتماعی سطح تک ہر جگہ‘ ہر مقام پر اور ہر مرحلے میں اپنی حدود پھلانگیں اور اپنے پیرامیٹرز سے باہر نکل کر کھیلنے کی کوشش کی۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اگر اختیار اور طاقت ہو تو بھی ضروری نہیں کہ اس کو استعمال بھی کیا جائے‘ لیکن ہمارے ہاں اختیارات کا جائز و ناجائز‘ ہر طرح کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ اگر آپ سیاسی داؤ پیچ جانتے ہیں تو ضروری نہیں کہ دوسرے کو داؤ پیچ کے ذریعے ہی زیر کیا جائے‘ معاملات کو بات چیت کے ذریعے افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرکے بھی درست نہج پر لایا جا سکتا ہے۔ میں نے بات کی انفرادی سے لے کر اجتماعی سطح تک ہر جگہ لغزشوں کا مظاہرہ کرنے کی اور ہر گام پر ٹھوکر کھانے کی۔ آپ ریڑھی پر فروٹ یا دکان پر سبزیاں فروخت کرنے والے کی مثال لے لیں۔ آپ اس کو منہ مانگی قیمت ادا کریں گے اس کے باوجود وہ آپ کو ناقص سودا تول کر دے گا۔ کسی سرکاری ادارے کے کلرک کو لے لیں‘ سرکار کی طرف سے تنخواہ ملنے کے باوجود وہ آپ کا جائز کام رشوت لیے بغیر نہیں کرے گا۔ آپ ایک پولیس مین کو لے لیں‘ اس کا کام سرکار سے تنخواہ لے کر امن و امان برقرار رکھنا اور قانون کے نفاذ کو یقینی بنانا ہے‘ لیکن وہ آپ کو کسی موڑ پر‘ کسی دو راہے پر‘ کسی ناکے پر‘ کسی موٹر سائیکل والے کو گھیرے کھڑا نظر آئے گا۔ مقصد نظام میں بہتری لانا نہیں بلکہ اپنی مٹھی گرم کرنا ہے۔ ہمارے مختلف اداروں کے اعلیٰ حکام کی کارکردگی کا اندازہ پاکستان کی موجودہ صورتحال سے لگا لیں۔ یہ ماضی میں کیے گئے ناقص فیصلوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہم خود کو ہر حوالے سے بے بس پاتے ہیں۔ متعدد حکومتیں آئیں اور گئیں۔ حکومتیں لانے میں عوام کا ہاتھ ہو سکتا ہے‘ لیکن کوئی بتائے گا کہ حکومتیں رخصت کرنے میں کس کا ہاتھ رہا ہے؟ خود سیاست دانوں کا جو اپنی باری کا انتظار کرنے کے بجائے اقتدار کی کرسی پر بیٹھے ہوؤں کی ٹانگیں کھینچنے میں زیادہ فرحت محسوس کرتے ہیں۔ آپ آج کا سینیاریو ہی دیکھ لیں کہ اپوزیشن کی جماعتیں حکومت کے ساتھ بات کرنے کے بجائے اور سیاسی تنازعات کو سیاسی انداز میں حل کرنے کے بجائے ان طاقتوں کی طرف رجوع کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں جنہوں نے خود کو سیاست سے الگ رکھا ہوا ہے اور وہ اپنے اس فیصلے پر پوری طرح قائم ہیں۔ ہم معاشی طور پر بدحال اس لیے ہیں کہ ہمارے معیشت دانوں نے بروقت اچھے فیصلے نہیں کیے۔ یہ نہیں سوچا کہ آنے والے وقت میں کیا معاملات پیش آ سکتے ہیں اور تب ہماری کیا ضروریات ہوں گی اور ان کی کیا تیاری کی جا سکتی ہے۔
تو شروع میں‘ میں نے جو بات کی کہ اقدار و روایات تبدیل ہو گئی ہیں اور معاملات جو ہیں وہ یُوٹرن لے چکے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ وکٹ سے باہر نکل کر کھیلنے کی یہی کوششیں ہیں جن کا ذکر درج بالا سطور میں کیا ہے۔ میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آج بھی اگر ہم اپنے معاملات ٹھیک کر لیں‘ اپنے پیرامیٹرز کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دیں اور اختیارات کا ناجائز استعمال بند کر دیں تو سیاسی‘ معاشرتی اور معاشی ہر طرح کی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے ہمیں وہ راستہ اختیار کرنا پڑے گا جس کی طرف رانا ثنااللہ نے اشارہ کیا ہے 'ماضی کو ایک طرف کرکے آج سے نیا آغاز کیا جائے‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved