بھارت ایران کے ساتھ کیے گئے 10سالہ معاہدے کے تحت اب چابہار شہید بہشتی بندرگاہ کے ذریعے وسط ایشیائی خطے تک باآسانی جا سکتا ہے۔ اس منصوبے کے لیے بھارت چابہار میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے۔ چابہار بندرگاہ اور ایران کے روڈ ریل نیٹ ورک کے ذریعے بھارت چابہار سے افغانستان اور وسطی ایشیا‘ ترکی‘ آذربائیجان‘ جارجیا اور شام تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور ہم ہیں کہ ابھی تک گوادر بندر گاہ کو بے مثال چینی تعاون و سرمائے کے باوجود مکمل طور پر فعال نہیں کر سکے۔ بھارت اور ایران دونوں بطور خود مختار ملک دوسرے ملکوں کے ساتھ معاہدے کرنے میں آزاد ہیں مگر مذکورہ معاہدے میں پاکستا ن کے ساتھ بھارت دشمنی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چابہار بندرگاہ بھارت کے حوالے ہونے کے بعد پاکستان بالخصوص صوبہ بلوچستان میں بھارتی دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان اس سلسلے میں ایران سے پہلے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے۔ بلاشبہ ایران ہمارا برادر ملک ہے اور وہ بھی یہ جانتا ہے کہ بھارت خطے کی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے‘ وہ نہ سی پیک کی ترقی چاہتا ہے اور نہ ہی ایران کی خوشحالی۔ گزشتہ ماہ جب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی پاکستان آئے اور اس دوران کچھ معاہدوں اور یادداشتوں پر دستخط کیے گئے تو امریکہ کی طرف سے پاکستا ن کو تجارتی پابندیوں کی دھمکیاں ملیں۔ پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدہ ایران پر لگائی گئی امریکی قدغنوں کی وجہ سے کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ ایران کی طرف سے اپنے حصے کی پائپ لائن اربوں ڈالر کی لاگت سے تیار کر لی گئی ہے جبکہ پاکستان امریکی پابندیوں کے باعث اس لائن کی تعمیر کا آغاز بھی نہیں کر سکا۔ گو کہ بھارت ایران حالیہ معاہدے پر بھی امریکی ردِ عمل سامنے آیا ہے لیکن بھارت ذاتی مفادات کی پالیسی پر عمل پیرا نظر آتا ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ نے گزشتہ تین برس کے دوران ایرانی کمپنیوں اور اداروں پر 600سے زیادہ تجارتی پابندیاں عائد کی ہیں‘ تاہم بھارت اور ایران دونوں نے امریکہ کو یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ کسی سے بھی ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اس ضمن میں امریکی دھمکیوں اور اسرائیل دوستی کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی۔ بھارت اسرائیل کو مظلوم فلسطینیوں کو مارنے کے لیے ڈرون بھی دے رہا ہے مگر اس معاہدے میں اس نے اپنا تجارتی و اقتصادی مفاد مقدم رکھا ہے۔
بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے‘ اس سے پاکستان کی خوشحالی و سلامتی ہضم نہیں ہو رہی‘ وہ سی پیک کو سبو تاژ کرنے کے لیے مسلسل سرگرم عمل ہے اور چابہار معاہدے کے پس پردہ خطے میں دہشت گردی کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ اگر بھارت اور ایران کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملحق ہوتیں تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ بھارت نے امریکی پابندیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی تیل کی تمام ضروریات بھی ایران سے پوری کرنی تھیں۔ بھارت نے امریکی مخالفت کے باوجود روس سے سستے داموں تیل درآمد کیا پھر اسی تیل کو یورپ کو بیچ کر 50ارب ڈالر کمائے۔ کیا امریکہ نے کوئی قدم اٹھایا؟ہرگز نہیں۔اس کی گیڈر بھبکیاں صرف پاکستان کے لیے ہیں جبکہ دوسری جانب بھارت کسی امریکی پابندی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ کئی ممالک کو ایرانی خام تیل خریدنے کی اجازت ہے جن میں چین‘ اٹلی‘ یونان‘ جاپان‘ جنوبی کوریا‘ تائیوان اور ترکی شامل ہیں۔ ایران کو بھی بعض معاملات میں استثنا حاصل ہے تا کہ ایران کی چابہار بندرگاہ کو پاکستان کی گوادر بندرگاہ سے پہلے ترقی دی جا سکے۔ جب بات چین اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کی آتی ہے تو ایران پر امریکی پابندیاں نرم ہو جاتی ہیں۔
ایران کیساتھ تجارت کے باوجود بھارت پر امریکی مہربانیوں اور نوازشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت کو ٹرمپ دور میں خصوصی استثنا دیتے ہوئے چابہار بندرگاہ کی تعمیر و ترقی کی اجازت دی گئی تھی۔ اس دوران بھارت کو ایک اور ٹھیکہ بھی ملا کہ وہ چابہار کو ریلوے کے ذریعے افغانستان سے ملائے تاکہ بھارتی سامان با آسانی چابہار سے افغانستان پہنچایا جا سکے۔ افغان سرزمین پر پہلے ہی بھارتی اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے اور 'را‘ نے وہاں اپنا جال بچھا رکھا ہے۔ افسوس! افغانستان پر امریکی حملوں اور دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کو بدستور اس کی قربانیوں کے باوجود افغان حکومت کے مخاصمانہ رویے کا سامنا ہے؛ چنانچہ اب ہمیں بھی اندازہ ہو جانا چاہیے کہ اس گلوبلائزیشن کے دور میں آپ کا دشمن آپ کے ہمسایے کا دوست ہوتا ہے اور ہر ملک کو محض اپنے تجارتی اور اقتصادی مفادات مقدم ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ وہ تمام تر مجبوریوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف ملکی مفادات کو ترجیح دیں‘ ہم امریکہ کی نوآبادیاتی نہیں کہ جو وہ کہے ہم وہ کریں۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی ازسر نوتشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اگر بھارت اور ایران ڈٹ سکتے ہیں تو پھر ہم ملکی مفادات کی خاطر امریکی پابندیوں کو بالائے طاق کیوں نہیں رکھ سکتے؟ آج بھارتی سرمایہ دار افغانستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ اگر کل کو افغانستان نے بھارت سے اسلحہ و بارود مانگ لیا تو وہ کس کے خلاف استعمال ہو گا؟ یقینا ہمارے خلاف ہی استعمال ہو گا۔ ادھر چین بھی کشیدگی کے باوجود بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ چین نے ایران میں بھی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ چین صرف سی پیک تک محدود نہیں‘ وہ ''ون بیلٹ‘ ون روڈ‘‘ کے ذریعے ایشیا‘ افریقہ اور یورپ کو کئی راستوں سے ملانے کا خواہاں ہے جس کے سامنے امریکہ ایک دیوار بن کر کھڑا ہے۔
ایران عراق جنگ کے دوران آبنائے ہرمز اور خلیج فارس کے باہر بندرگاہ کی ضرورت کے پیشِ نظر 1983ء میں شہید بہشتی بندرگاہ کو چابہار کی دوسری اہم ترین بندرگاہ کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ گوادر پورٹ چابہار بندرگاہ سے سڑک کے ذریعے صرف 400کلو میٹر کے فاصلے پر ہے جبکہ یہ فاصلہ سمندر کے ذریعے صرف 100کلومیٹر ہے۔ چابہار بندرگاہ بھارتی ریاست گجرات کی کانڈلا بندرگاہ سے محض 550 اور ممبئی کی بندرگا ہ سے 786 بحری میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ بھارت سے ایران کی سب سے قریبی بندرگاہ یہی ہے۔ 2014ء میں سینئر امریکی اہلکار کے انتباہ کے باوجود بھارت اور ایران نے چابہار بندرگاہ کی ترقی کے لیے ایک نئی یادداشت پر دستخط کیے تھے۔ مئی 2016ء میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایران کے دورے کے دوران چا بہار بندرگاہ کو ترقی دینے اور چلانے‘ ایران‘ بھارت اور افغانستان کے مابین سہ فریقی تعلقات کے فروغ کے لیے 550 ملین ڈالر کے فنڈ کا اعلان کیا تھا۔ نومبر 2018ء میں چابہار بندرگاہ سے برآمد ہونے والی چند مصنوعات کو امریکی پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا جن میں ایران سے افغانستان کو پٹرولیم مصنوعات کی برآمد شامل تھی۔ اُس وقت امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ افغانستان کی ترقی اور ایران سے انسانی امداد بھیجنے کے لیے مواصلاتی راستے کو کھلا رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔ فروری 2019ء میں پہلی مرتبہ افغانستان سے برآمدی سامان بھارت لے جانے والے ٹرک چابہار کے لیے روانہ ہوئے۔ فروری 2024ء میں طالبان حکومت کے ایک وفد نے چابہار بندرگاہ کا دورہ کیا اور اس کے بعد ایران کے خصوصی نمائندہ برائے افغان امور حسن کاظمی قمی نے اعلان کیا تھا کہ طالبان حکومت اس بندرگاہ میں 35ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہی ہے۔ یعنی اس معاہدے کے بعد افغانستان بھی ہم سے مزید دور ہو سکتا ہے بلکہ یوں کہیے کہ اسے بھی اب پاکستان کی ضرورت نہیں رہے گی۔ بھارت اس بندرگاہ کے راستے افغانستان اور سنٹرل ایشیا کے ملکوں کو اپنی اشیا برآمد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
حالیہ ایران بھارت معاہدے میں پاکستان کے لیے یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ آخر ہم کب تک دوسروں کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالے رکھیں گے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved