ایک مسوّدے کی ترتیب اور موازنے کے لیے مدد درکار تھی۔ ایک دوست نے ایک پڑھے لکھے‘ ڈگری یافتہ نوجوان کا نام تجویز کیا‘ جو فارغ بیٹھا تھا۔ اس سے رابطہ ہوا۔ طے ہوا کہ وہ اگلے دن صبح دس بجے پہنچ جائے گا۔ اسے تلقین بھی کی کہ دس بجے کا مطلب دس بجے ہے۔ دوسرے دن میں نے اپنے پڑھائی لکھائی والے والے کمرے میں ضروری اشیا ترتیب دیں اور چائے اور رس کا ''شاہانہ اور متعیشانہ‘‘ ناشتہ کر کے اس تعلیم یافتہ‘ ملازمت کے متلاشی‘ نوجوان کا انتظار کرنے لگ گیا۔ دس سے سوا دس ہو گئے۔ پھر ساڑھے دس۔ پھر پونے گیارہ۔ اور پھر گیارہ بج گئے۔ ان دنوں میں جہاں قیام پذیر ہوں وہ جگہ‘ شہر کے وسط میں‘ ایسی ہے کہ وہاں پہنچنے میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہیے۔ ایک گھنٹے کے انتظار کے دوران اس کا فون بھی نہ آیا۔ جب سوا گیارہ ہو گئے تو میں نے فون کیا کہ بھائی کہاں ہو؟ انتہائی بے نیازانہ لہجے میں جواب ملا ''سر! آ رہا ہوں‘‘! موصوف آئے تو کہنے لگے: کچھ دوست آ گئے تھے‘ ان کی وجہ سے دیر ہو گئی۔ نو ساڑھے نو بجے دوستوں نے کیا آنا تھا۔ بس اپنے وقت پر بیدار ہوئے۔ پھر آرام سے تیار ہوئے اور چل پڑے۔ کچھ اندازہ تھا نہ فکر کہ کب پہنچیں گے۔ ہم میں سے اکثر جب کہیں جانے کا یا ملاقات کا وقت طے کرتے ہیں تو جانا یا ملاقات یاد رہتی ہے‘ وقت یاد نہیں رہتا‘ اس لیے کہ وقت پر پہنچنے کا یہاں کوئی تصور نہیں!
یہ جو مائنڈ سیٹ ہے وقت سے مکمل بے نیازی کا‘ کیا اس کی ذمہ داری حکومتوں پر ہے؟ ہم میں سے ہر شخص تلوار سونت کر کھڑا ہے۔ کسی کا ہدف عمران خان ہے‘ کسی کا نواز شریف یا زرداری۔ کوئی فوج کے خلاف غصے سے بھرا ہے‘ کوئی سول بیورو کریسی کے خلاف! مگر سوال یہ ہے کہ ہم خود کیا ہیں؟ کیا کر رہے ہیں؟ اس کم فہم کی رائے میں وقت کے حوالے سے ہماری اجتماعی بے نیازی ہماری پستی کا اگر واحد نہیں تو بہت بڑا سبب ضرور ہے۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ریاست؟ یا ماں باپ؟ یا پورا معاشرہ؟ اگر پورا معاشرہ ذمہ دار ہے تو اصلاح کیسے ہو گی؟ جو اِکا دکا لوگ وقت کے پابند ہیں‘ وہ ہر جگہ منہ کی کھاتے ہیں۔ مگر کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو اپنی پابندیٔ وقت کو نقصان کا باعث نہیں بننے دیتے۔ ہمارے ایک دوست شادی کی کسی تقریب میں جائیں تو ایک معقول انتظار کرنے کے بعد اُٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ ایک بار کھانا کھائے بغیر واپس جا رہے تھے تو میزبان نے دیکھ لیا۔ کہنے لگے: صاحب ایسی بھی کیا بات ہے‘ کھانا کھائے بغیر کیسے جا سکتے ہیں۔ اس تجاہلِ عارفانہ پر ہمارے دوست کو غصہ آ گیا۔ کہا: آپ کی دو چپاتیوں اور ایک پلیٹ سالن کے لیے میں کب تک بیٹھا رہوں گا؟ یہی ہمارے دوست شادیوں پر وقت کے سخت پابند ہیں۔ اپنے ایک عزیز کی شادی انہوں نے کی تو برات کی روانگی کا وقت مقرر کر کے اعلان کیا کہ وقت پر امی جان بھی تیار نہ ہوئیں تو انتظار نہیں کروں گا اور امی جان سے بڑھ کر کوئی نہیں۔ پھر وقت کی پابندی کر کے بھی دکھائی۔ کسی نے چوں بھی نہیں کی۔
یہ جو عام کہاوت ہے کہ تبدیلی اوپر سے شروع ہوتی ہے‘ اتنی غلط بھی نہیں۔ پابندیٔ وقت کے جتنے پرخچے حکومت اڑاتی ہے‘ شاید عوام بھی نہیں اڑاتے۔ کوئی اجلاس‘ یہاں تک کہ کابینہ کے اجلاس بھی وقت پر نہیں شروع ہوتے۔ پریس کانفرنسیں بار بار ملتوی ہوتی ہیں۔ صدر یا وزیراعظم نے قوم سے خطاب کرنا ہو تو گھنٹوں کی نہیں‘ پہروں کی تاخیر معمول ہے۔ روایت ہے کہ ہمارے ایک وزیراعظم نے ماضی میں مشرقِ وسطیٰ کے ایک ملک کے سربراہ کے ساتھ ملاقات ضائع کر دی کہ بازار میں مبینہ طور پر گھڑیاں دیکھتے رہے اور تاخیر سے پہنچے تو میزبان کی اگلی میٹنگ شروع ہو چکی تھی۔ اس معاشرے میں کوئی افسر یا وزیر اگر وقت کا پابند نکل بھی آئے تو ماتحت اس سے ناخوش ہی رہتے ہیں اور اس کے تبادلے کی خوشی میں شکرانے کے نفل ادا کرتے ہیں۔
جاپان سے لے کر امریکہ تک اور نیوزی لینڈ سے لے کر کینیڈا تک‘ تمام ترقی یافتہ ملکوں میں وقت کی سخت پابندی ہے۔ انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر۔ اس کا مطلب ہے کہ پابندیٔ وقت اور ترقی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ وقت کی پابندی کے بغیر ملک کا ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا ہونا ناممکن ہے۔ اس ضمن میں کبھی کوئی مہم نہیں چلی! حکومتی سطح پر نہ نجی سطح پر! یہ کام انفرادی سطح سے شروع ہونا چاہیے۔ چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ بارش کا پہلا قطرہ ہی موسلا دھار بارش کا سبب بنتا ہے۔ یہ فقیر اپنے قارئین کی خدمت میں دست بستہ گزارش کرتا ہے کہ مندرجہ ذیل اقدامات پر غور فرمائیے۔ خود بھی ان کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کیجیے اور اپنے اپنے دائرہ کار اور دائرہ اثر میں بھی ان پر عمل کرانے کی کوشش کیجیے۔
1:کسی فنکشن یا کسی تقریب کو کسی ایک یا چند افراد کے تاخیر سے آنے کی بنا پر خراب مت کیجیے۔ جو وقت پر آ چکے ہیں‘ ان کا خیال کیجیے اور تقریب کی کارروائی شروع کر دیا کیجیے۔ 2: جب آپ کسی کو وقت دیتے ہیں تو ہمیشہ یہ تخصیص کیجیے کہ کس وقت سے لے کر کس وقت تک انتظار کریں گے۔ اگر وہ مقررہ وقت کے اندر نہ آئے تو ملنے سے معذرت کر دیجیے۔ ایسا کرنے کی ہمت نہیں تو گھر سے کہیں باہر چلے جائیے۔ جب وہ آئے تو آپ کے اہلِ خانہ اسے بتائیں کہ انتظار کر کر کے چلے گئے ہیں۔ 3: شادی اور اس قبیل کی تقریبات میں دعوتی کارڈ کے مطابق وقت پر پہنچئے۔ میزبان ابھی نہ آیا ہو تو اپنا کارڈ یا نام پتا چھوڑ کر واپس چلے آئیے۔ 4: یا کم از کم اتنا کیجیے کہ کھانے میں بے ہودگی کی حد تک تاخیر ہو تو اٹھ کر چلے جائیے اور میزبان کو بتا کر جائیے کہ مزید انتظار نہیں کر سکتے۔ 5: اپنے بچوں‘ خاص طور پر خواتین کو وقت کا پابند کیجیے۔ اس ضمن میں سختی بھی کرنی پڑے تو کیجیے۔ آپ نے بھی گھر والوں کو کہیں لے جانے کا بتایا ہوا ہے تو وقت کی پابندی کیجیے۔ 6: اگر آپ دکاندار ہیں تو از راہ کرم وقت پر دکان کھولیے۔ نماز کا وقفہ کرنا ہے تو تخصیص کیجیے کہ وقفہ کس وقت ختم ہو گا۔ 7: تقریب کا صدر یا مہمانِ خصوصی وقت پر نہ آئے تو انتظار نہ کیجیے۔ حاضرین میں سے کسی کو کرسیٔ صدارت پر بٹھا کر تقریب شروع کر دیجیے۔ ایسا انسان‘ مرد ہے یا عورت‘ کرسیٔ صدارت کا یا مہمانِ خصوصی بننے کا اہل ہی نہیں! 8: جہاں بھی کوئی تقریب تاخیر کا شکار ہو رہی ہے اور آپ وہاں موجود ہیں تو منتظمین کو تاخیر کا احساس دلائیے۔ گائے بکری بن کر بیٹھے مت رہیے۔ 9: ٹرین یا بس یا جہاز کی روانگی میں دیر ہو رہی ہو تو ممکن حد تک احتجاج ضرور کیجیے۔ آپ کو دیکھ کر دوسرے مسافر بھی ہمت پکڑیں گے اور آپ کا ساتھ دیں گے! تاخیر سے پریشان سب ہو رہے ہوتے ہیں مگر ہمارے معاشرے میں‘ احتجاج کی یا بولنے کی جرأت سب میں نہیں ہوتی۔
یہ اقدامات آسان نہیں! معاشرہ‘ اس ضمن میں‘ مکمل طور پر بے حس ہو چکا ہے۔ آپ کے اقدامات کو کسی حلقے میں بھی پسند نہیں کیا جائے گا۔ کچھ لوگ ناراض ہو ں گے۔ کچھ آپ کو خود سر اور متکبر بھی کہہ سکتے ہیں! مگر ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے آپ اپنا فرض نبھائیے۔ اگر کچھ لوگ ناخوش ہوتے ہیں تو ہونے دیجیے۔ انہیں نرمی اور محبت سے سمجھانے کی کوشش کیجیے۔ خدا کرے کہ ہم‘ بحیثیت قوم‘ اندھے کنویں سے باہر نکل آئیں!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved