اگر آپ میری جنریشن سے ہیں‘ یا اس کے قریب قریب ہیں اور دیہاتی سکولوں میں پڑھے ہیں تو پہلا مضمون جو آپ نے ان جماعتوں میں لکھا تھا‘ شاید آپ کو یاد ہو۔ ہمارے زمانے میں اساتذہ فطری معلم تھے۔ اردگرد کے ماحول‘ ثقافت اور رہن سہن کے پس منظر میں ہمیں درس دیا کرتے تھے۔ ہمارا تعلق بھی اسی پیشہ سے ہے‘ اور کئی دہائیوں کے تجربے کے بعد جو سیکھ پائے ہیں وہ یہ ہے کہ ہر عمر کے بچوں کو تعلیم مقامی اور قومی حوالوں سے دی جائے تو ان کا فہم و ادراک بڑھ جاتا ہے۔ دنیا میں تعلیم و تربیت کا یہی طریقہ ہے۔ ہمارا ماحول زرعی معاشرے کا تھا۔ آنکھ کھولی تو گھر میں گائیں‘ بھیڑیں اور ساتھ ہی کنواں اور کھیت تھے۔ ایک بہت بڑے صدیوں پرانے قدرتی جنگل کے درمیان رہتے تھے۔ اسی ماحول کا اثر تھا کہ کوئی فارم پُر کرتے تو خاندانی پیشہ زراعت اور باغبانی لکھتے۔ پہلا مضمون سکول کے زمانے میں جو لکھا وہ بھی زراعت پر تھا۔ کالج اور پھر یونیورسٹی کے زمانے میں ہر ماہ گھر جا کر اپنے ماحول میں چند دن گزارتے تو تازگی روح تک اُتر جاتی۔ شہر اور جامعہ کی سحر انگیزیاں اپنی جگہ مگر واپسی کی تڑپ دل میں ایک کسک بن کر موجود رہتی۔ زراعت کو قریب سے تو ضرور دیکھا تھا مگر کبھی ہاتھ مٹی میں نہیں ڈالے تھے۔ موقع ہی نہیں ملا تھا۔ ہمارے کالجوں اور جامعات کا تدریسی ماحول کچھ ایسا ہے کہ یہاں کے تعلیم یافتہ ہاتھ سے کام کرنے کو معیوب سمجھتے ہیں۔ ہم تو اپنے اندر کا دیہاتی جہاں بھی گئے‘ ساتھ لے گئے۔ یوں سمجھیں‘ ہمارے ساتھ سائے کی طرح رہا۔
عجیب اتفاق ہے کہ جب کیلیفورنیا کی جامعہ میں پہلے سال میں تھا تو تعلیم کے ساتھ زراعت بھی زندگی کا حصہ بن گئی۔ اس کے پیچھے ایک گہرا فلسفہ ہے جس کا ایک حوالہ ہے‘ لیکن یہاں بیان نہیں ہو سکتا۔ ہمیں جہاں یونیورسٹی نے چھوٹے چھوٹے گھر دیے‘ ان کے ساتھ سبزیاں کاشت کرنے کے لیے زمین ایک ٹکڑا بھی مختص تھا۔ نئے طالب علم آتے اور پرانے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جاتے رہتے تھے‘ مگر جانے والے کالونی میں سبزیوں کے کھیت کا تعارف کرانا اپنا اخلاقی فرض خیال کرتے۔ میں نے ٹماٹر‘ مرچیں‘ خصوصاً رنگ برنگی بیل پیپرز اور کئی اقسام کی توریاں وہاں اگتی دیکھیں تو ایک خالی پلاٹ پر اپنا جھنڈا لہرا کر آزاد مملکت کے قیام کا اعلان کر دیا۔ اپنا فون بھی ایک بورڈ پر لکھ کر لٹکا دیا کہ اگر کوئی اس کا وارث ہے تو دو دن میں رابطہ کر لے‘ اس کے بعد یہ میری کُلی ملکیت تصور ہو گا۔ یہی مروجہ طریقہ تھا۔ ہفتے کے اختتام پر‘ اور کبھی ہر دوسرے تیسرے روز ہماری مختصر فیملی اس فارم پر ضرور جاتی۔ ساتھ کام کرتے‘ ہمسایوں سے گپ شپ ہوتی‘ گوڈی کرتے‘ پانی دیتے اور تازہ تیار سبزی گھر لے آتے۔ گہرے فلسفے کی بات یہ تھی کہ پی ایچ ڈی کے کئی کٹھن مراحل‘ امتحانوں‘ مقالوں اور نہ جانے کن کن مشکلات سے گزرنے میں جو الجھنیں اور فکر مندی دامن گیر ہوتی‘ اسے دور کرنے کا ایک طریقہ فطرت کے ساتھ وقت گزارنا تھا۔ جامعہ کا اپنا فطری محل وقوع ساری دنیا میں مشہور ہے کہ یہ سمندر کے کنارے واقع ہے‘ اور ایک لاگون یونیورسٹی سنٹر کے سامنے ہے۔ سبزی اگائو مہم اور سمندر کے کنارے لمبی واک سے سب تھکن اُتر جاتی‘ ذہن ترو تازہ ہو جاتا۔ یہی زمانہ تھا جب میں نے پاکستان واپس آنے پر زراعت اور باغبانی کے خواب دیکھنا شروع کیے۔ معاون استاد کی حیثیت اور پھر اس دوران مکمل استاد ہونے کا موقع ملا تو بچت کی اور اپنے علاقے میں قدیمی بنجر زمین خریدکر لی کہ جب موقع ملے گا‘ وہاں زراعت اور باغبانی کا مشغلہ جو خود سبزی اگاؤ خود کھاؤ اور دوستوں کو بھی کھلاؤ سے شروع ہوا تھا‘ اسے جاری رکھوں گا۔ عربی دوستوں سے گپ شپ ہوتی تو انہیں کہتا کہ مجھے آموں کا باغ لگانا ہے اور آپ میرے آم درآمد کریں گے اور یوں تجارتی لین دین کے ساتھ ہمارا تعلق بھی برقرار رہے گا۔ وہ میری دیوانگی پر ہنستے اور کہتے: ضرور ضرور۔
اب انہیں کہاں تلاش کروں‘ لیکن بفضل تعالیٰ میرا آموں کا باغ کئی برسوں سے تیار ہے اور ہر سال اس کے پیڑوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آپس کی بات ہے‘ باغ تو میں نے اپنے لیے لگایا تھا‘ اپنا ہی خواب تھا اور اب یہ زندگی کی کامیاب حقیقت ہے۔ جو کام یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں 45 سال پہلے شروع کیا تھا اس کا ثمر آج اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہوں۔ اسلام آباد اور اپنی مقامی جگہ عمر کوٹ میں تب سے باغبانی کر رہا ہوں۔ دوست کبھی پوچھتے ہیں کہ کون سے درخت لگائے ہیں تو میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ یہ پوچھیں کہ کون سے نہیں لگائے۔ اگرچہ گزشتہ 22 برسوں سے اکثر اسلام آباد یا لاہور کے درمیان سفر کرتے درختوں کی محبت بے چین رکھتی۔ اس کی کچھ کمی لاہور کی جامعہ میں اپنے ''واکی ٹاکی‘‘ دوستوں کے ساتھ سبزیاں اگا کر اور ان کے ساتھ درخت لگوا کر پوری کی۔ گزشتہ ہفتہ میرا وہاں آخری ہفتہ تھا۔ ہر روز صبح کی سیر کو ہمیشہ کی طرح کچھ تکلیف کے باوجود نکلا اور آخری بار آم کے ایک پیڑ کے پاس کھڑے ہوکر اس کی ایک نچلی شاخ کا پھل ہاتھ میں لے کر کچھ لمحوں کے لیے چھوا تو جنتِ ارضی کا احساس دل کی گہرائی میں اُتر گیا۔ اسے لگوانے میں اپنی کاوش‘ مشورہ اور دوستی کی حجت رنگ لائی تھی۔ یہ درخت دیگر بہت سوں کی طرح وقت کے ساتھ پھیلتا جائے گا اور ہم جہاں بھی ہوں گے‘ اس کے گہرے سبز چھاتے کو پھلتا پھولتا چشم تصور سے دیکھا کریں گے۔
اپنی زراعت اور باغبانی ہر دور اور ہر ماحول میں کسی نفع اور نقصان کی پروا کیے بغیر جاری رہے گی۔ ہم تو‘ جو نگرانوں اور ان کے سرکاری کارندوں نے پاکستان کے کاشتکاروں کو مالی اور نفسیاتی صدمے سے دوچار کیا ہے‘ برداشت کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں مگر اُن کسانوں اور کاشتکاروں کا کیا کریں جنہیں حکمرانوں کی کرپشن نے برباد کر دیا ہے۔ زراعت ان کی مجبوری ہے‘ روتے دھوتے‘ بددعائیں دیتے بیچارے کام جاری رکھیں گے۔ ہمارا زراعت اور باغبانی سے تعلق کا حوالہ قدرتی جنگل کا وہ ماحول ہے جس میں ہم پیدا ہوئے اور بچپن کے پہلے سات آٹھ سال گزارے۔ اب وہاں جاتا ہوں تو کوئی درخت نظر نہیں آتا۔ سب کٹ چکے‘ ہر طرف کھیت ہی کھیت ہیں۔ اپنے پرانے گھر اور والد بزرگوار کی بنائی مسجد کا ملبہ دیکھنے ہر دفعہ جانے کی کوشش کرتا ہوں اور کئی بار وہاں سے اینٹوں کے ٹکڑے‘ جو حویلی تعمیر کرنے کے لیے بھٹی میں پکی تھیں‘ ماضی کی نشانی کے طور پر اٹھا لیتا ہوں۔ خواہش ہے کہ اس ملبے کا ٹکڑا موجودہ مالکوں سے خرید کر سکوں مگر وہ ایک دوسرے کے خلاف عدالتوں کے چکر لگانے میں زندگی برباد کر رہے ہیں۔ ہم نے اس جنگل کی یاد میں جہاں بھی زمین کا کوئی ٹکڑا ملا‘ وہاں درخت لگائے ہیں۔ ان کے سائے میں بیٹھے‘ ان کے درمیان چلتے اور ان کی ہمسائیگی میں دن اور راتیں گزارتے تو تصور میں وہ قدرتی جنگل ہوتا۔ وہ جال اور ونڑ کے صدیوں پرانے درخت تھے جو آج کل کے موسم میں کئی رنگ کی پیلوں سے بھرے ہوتے تھے۔ پرندے اور انسان ان پر ٹوٹ پڑتے۔ ان کا رس نکال کر پکاتے اور شہد کی طرح گاڑھا مگر بالکل مختلف ذائقے میں دُشّا بنایا جاتا تھا۔ سال بھر‘ آج کل کے مربوں کی طرح‘ مکھن اور روٹی کے ساتھ کھاتے۔ زندگی بھر ہر طرح کے جنگلی پھل دار درخت لگائے ہیں‘ مگر جال کا جنگل اپنے خوابوں میں ہی رہ گیا ہے۔ قدرت کے عطیے کو ہم تباہ کر دیں تو اپنی کاوشوں سے زندگیاں کھپا دیں‘ مگر وہ بات کہاں!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved