جس سلوک کا سامنا ان دنوں جج‘ وکیل‘ سائل اور سیاسی قیدی کر رہے ہیں‘ وہ جنگی قیدیوں کے لیے بننے والے جینوا کنونشن میں درج مظالم سے بھی اگلی سطح پر جا پہنچا ہے۔ تین سو سے زائد نوجوان اور بزرگ 365 دن سے زائد عرصے سے ریمانڈ پر پابندسلاسل ہیں۔ مگر نہ اُن کا ٹرائل ہو رہا ہے اور نہ ہی ضمانت پر رہائی۔ پچھلے کچھ ہفتوں سے ان قیدیوں سے فیصل آباد‘ سرگودھا‘ راولپنڈی‘ اسلام آباد‘ گوجرانوالہ‘ لاہور اور ہری پور میں ملاقاتیں ہوتی آ رہی ہیں۔ آپ ان ملاقاتوں کو حبیب جالب کی ڈِکشن میں حالات کے ماتم کے بجائے قانون و انصاف کا ماتم کہنے میں حق بجانب ہوں گے۔ ضمیر کے یہ اسیر اپنی قید بیتی تو سناتے ہیں‘ مگر اُس سے زیادہ اپنے غیر متزلزل عزم‘ حوصلے اور ناقابلِ شکست عزائم کی کتھا پسند کرتے ہیں۔ ضمیر کے یہ قیدی اپنے خلاف جھوٹی ایف آئی آر اور غیر قانونی اسیری کے بارے میں نہیں پوچھتے لیکن قیدی نمبر 804 کا احوال ضرور جاننا چاہتے ہیں۔
ضمیر کے ان سینکڑوں قیدیوں میں سے قیدی نمبر 804 سے تازہ ملاقات میں عمران خان کا عزم اور تازہ عزائم جاننے کا موقع ملا۔ اس دوران پاکستان کی جگ ہنسائی کے چار کارنامے سامنے آ چکے تھے۔ پہلا آزادیٔ کشمیر کے بیس کیمپ آزاد ریاستِ جموں کشمیر میں ریاست کے منیجرز کی بے رحمانہ بے حسی تھی۔ کون نہیں جانتا ہائیڈرو بجلی پیدا کرنے کے لیے دریائے نیلم اور جہلم کا پانی استعمال ہوتا ہے۔ میرپور کے بے لوث لوگوں نے اپنے گھر قربان کر کے واپڈا جیسے سفید ہاتھی کو اربوں کھربوں روپے کمانے کا موقع دیا۔ اُن سے ابتدائی وعدہ تھا کہ آپ کو بجلی مفت ملے گی۔ ماں جیسی ریاست منگلا ڈیم کی تعمیر کے ساتھ ہی اس وعدے سے مکر گئی۔ پھر یہ نیا وعدہ کیا گیا کہ میرپور اور آزاد کشمیرکے عوام کو انرجی پروڈکشن کاسٹ یعنی بجلی کی پیداوار پہ اُٹھنے والی لاگت کے ریٹ پر بجلی دی جائے گی۔
ماں جیسی ریاست کے منیجرز نے اس وعدے کو بھی پسِ پشت ڈال کر کشمیریوں پر گھر گھر میں بجلی بم گرانا شروع کر دیے۔ یہ بھی 365 دن پہلے کی بات ہے کہ لوگوں نے ڈڈیال سے وادیٔ لیپا تک اس زور زبردستی کو ماننے سے انکار کر دیا‘ جس کے جواب میں گھر سے مال بنا کر اُسے سمندر پار دبئی پہنچانے والی ایلیٹ مافیا نے عوام پر ریاستی طاقت سے اپنا فیصلہ مسلط کرنے کی کوشش کی۔ اس سال بھر کی مسلسل مزاحمت میں لوگوں نے جانیں قربان کر دیں مگر معاشی مستقبل پر ڈاکہ ڈالنے والوں کی دوڑیں لگوا دیں۔ کہانی کا نتیجہ یا مورال آف دی سٹوری یہ ہے کہ طاقت کے استعمال سے عوامی مزاحمت کو کبھی نہیں روکا جا سکتا۔ دوسرا‘ رسوا کن کارنامہ کیڑے زدہ‘ بدبودار گندم سکینڈل والا سامنے آیا جس پر دنیا تھو تھو کر رہی ہے اور ہمارے فیصلہ ساز حکمران کمیٹی در کمیٹی بنا کر اُسے چاٹتے جا رہے ہیں۔ تیسرا کارنامہ دبئی پراپرٹی لیکس والا ہے۔ ان لیکس میں بھی وہی لیک ہوئے‘ جو منی لانڈرنگ کی ہر واردات میں جگہ جگہ لیک ہوتے آئے ہیں۔ چوتھا کارنامہ کرغزستان جانے کا اعلان کرنے والے تین عدد وزیر وں نے سر انجام دیا۔ کرغزستان میں ہمارے زیرِ تعلیم لڑکے لڑکیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ وہ ان لوگوں نے واپسی پر لینڈ کرتے ہی کھول کر قوم کے سامنے رکھ دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بیٹھ کر سوشل میڈیا کے خلاف بھاشن جھاڑنے والے نمائشی وزیروں نے ہماری بے توقیری کرائی‘ جس کی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں سے ملے۔ کرغزستان جیسے ملک نے انہیں آنے سے روک دیا۔ ابھی تک کرغزستان میں ہمارے سفارت خانے پرسکوتِ مرگ طاری ہے۔ اس فارن مشن کو کوہ قاف میں بیٹھے ہمارے طالب علموں نے محکمۂ بے رحمی قرار دے چھوڑا۔
اس ماحول میں آپ سب کو مبارک ہو کہ قیدی نمبر 804 کی درِ زنداں سے لیک ہونے والی تصویر کے اصل ملزموں تک قانون و انصاف کے ادارے پہنچ چکے ہیں۔ ہمارے قانونی حقوق کے وہی رکھوالے‘ جو لیاقت علی خان کے قاتل‘ ذوالفقار علی بھٹو کے قاتل‘ بے نظیر کے قاتل‘ ارشد شریف کے قاتل‘ سقوطِ ڈھاکہ کے ملزم‘ گندم سکینڈل‘ پاناما سکینڈل‘ سانحہ ماڈل ٹائون‘ سانحہ اے پی ایس‘ دبئی لیکس کے مجرموں تک نہ پہنچ رہے ہیں اور نہ ہی ان قومی سانحات کی ذمہ دار میلی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکے ہیں۔
ریکارڈ کے لیے کہنا چاہتا ہوں قیدی نمبر 804 نے آج تک کسی بھی ملاقات میں مجھ سے اپنے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ عمران خان ہمیشہ چار موضوعات پر اظہارِ خیال کرتے ہیں۔
عمران خان کا پہلا پسندیدہ موضوع: ہم‘ بھارت اور چین تقریباً ایک ہی وقت میں آزاد ہوئے تھے۔ آج بھارت‘ چین اور بنگلہ دیش کہاں جا پہنچے اور میرے لوگوں کو 76 سال سے مسلسل ظلم‘ فاشزم اور غربت کی چکی میں پیسا جا رہا ہے۔ کرپشن کے بادشاہ‘ غریب کے بچوں کو گھاس کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اُن کے اپنے بچے مہنگے برگر کھاتے ہیں۔ اس طبقاتی نظام کے خاتمے تک‘ عمران خان کے الفاظ میں: جب تک پاکستان مہذب قوموں کی طرح اوپر نہیں جاتا‘ کوئی میرے ارادے نہیں توڑ سکتا‘ میں لڑتا رہوں گا۔
عمران خان کا دوسرا پسندیدہ موضوع: ادارے سب میرے ہیں‘ آئین بھی میرا ہے‘ جو سب اداروں سے اُوپر ہے۔ ملک 76 سال سے غلامی در غلامی کے چکر میں پھنسا ہوا ہے۔ غلامی کی زنجیریں ٹوٹنے تک مجھے کوئی نہیں توڑ سکتا۔ سب کو رُول آف لاء کے نیچے لائوں گا۔
عمران خان کا تیسرا پسندیدہ موضوع: دیہاڑی دار‘ کھیت مزدور‘ کسان‘ منڈی مزدور اور ریڑھی ٹھیلا لگانے والے یہ ریاست کے سب سے لاڈلے بچے ہونے چاہئیں۔ کرپشن میں ڈوبی ایلیٹ مافیا کوصرف اپنے بچوں‘ اُن کے بچوں‘ اُن کے بچوں کے بچوں اور سمدھیوں کے مال بڑھانے سے فرصت نہیں۔ اس لیے یہ صحت کارڈ‘ پناہ گاہیں‘ لنگر خانے اور باعزت سوشل سیکٹر ریفارمز کے دشمن ہیں۔ میری جنگ اُن لوگوں کے لیے ہے‘ جن کو ملک میں ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔
عمران خان کا چوتھا پسندیدہ موضوع: پاکستان فیئر‘ فری اور شفاف الیکشن کے بغیر نہ جمہوری ملک کہلا سکتا ہے اور نہ ہی یہاں استحکام آ سکتا ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین بھارت‘ بنگلہ دیش‘ امریکہ اور روس سمیت کئی ملکوں میں فیئر الیکشن کی گواہ ہے۔ ہمیں فارم 47 اور پوسٹ پولنگ دھاندلی سے بچنے کے لیے مثبت نتائج والوں سے جان چھڑانا ہو گی۔ ووٹروں کے پسندیدہ نتائج مانے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ 77 سال ہونے کو آئے ہیں‘ کرپٹ مافیا کو بار بار عوام کی مرضی کے بغیر زبردستی کرسی پر بٹھایا جاتا ہے۔ اسی لیے منی لانڈرنگ‘ سمگلنگ‘ کرپشن اور لاقانونیت کرنے والے سب کردار مجھے راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔
اب قیدی نمبر 804 کو کسی ملاقاتی سے ہاتھ ملانے کی اجازت بھی نہیں رہی۔ اس کے باوجود اُس کا عزم اور عزائم ناقابل شکست ہیں۔ وحشتؔ رضا علی کلکتوی نے عمران خان کے حسب حال کہا:
کچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موجِ دریا کا حریف
ورنہ میں بھی جانتا ہوں عافیت ساحل میں ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved