زندگی میں جو دو کھیل زیادہ پسند آئے اور زیادہ کھیلے‘ وہ ہاکی اور ٹیبل ٹینس ہیں۔ یہ دونوں پروفیشنل معیار سے کم مگر اچھے معیار پر کھیلے۔ 1960ء‘ 70ء اور 80ء کی دہائیاں‘ جب ہاکی کا نام پورے پاکستان میں گونجتا تھا اور ہر میدان بلکہ سڑکوں پر بھی ہاکیاں لیے لڑکے نظر آتے تھے‘ ہاکی کے حوالے سے مسحور کن ادوار تھے۔ ریڈیو پر رواں اردو میں کراچی کے کچھ کمنٹیٹر نہایت خوبصورت کمنٹری کیا کرتے تھے۔ بھارت کے ایک عمدہ کمنٹیٹر بھی اپنی آواز سے پورا نقشہ کھینچ دینے کا کمال رکھتے تھے۔ اُس وقت سرکاری سکولوں میں کھیلوں کے بڑے بڑے میدان ہوتے تھے؛ چنانچہ اصلاح الدین‘ شہناز شیخ‘ حنیف خان‘ منور الزماں اور اختر رسول بننے کے لیے بیتاب لڑکے سخت گرمی اور لُو میں بھی تپتے میدانوں میں نظر آتے تھے۔ مصنوعی گھاس آسٹرو ٹرف کا کسی نے نام بھی اُس وقت نہیں سنا تھا۔ سکولوں کے ہاکی ٹورنامنٹس بھی کافی ہوا کرتے تھے اور بہت سے ہاکی کلب بھی موجود تھے۔ لاہور میں سمن آباد‘ چوبرجی گرائونڈ‘ ایم اے اوکالج گرائونڈ اور گلشن راوی وغیرہ میں ہاکی کلب موجود تھے اور باغِ جناح یعنی لارنس گارڈن میں بھی ایک بڑا ہاکی کلب تھا۔ میں علی الصبح اٹھتا اور سمن آباد موڑ سے سائیکل پر باغ جناح پہنچتا۔ وہاں دو گھنٹے ہاکی کے معروف کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلتا اور واپس ڈھائی تین میل سائیکل پر گھر آتا۔ اب سوچتا ہوں تو اس مشقت پر حیرانی ہوتی ہے لیکن شوق ہر مشکل کو پانی کر دینے پر قادر ہے۔ پھر جب سائنس کی پڑھائی نے آنکھوں پر عینک چڑھا دی تو خود کھیلنا مشکل ہو گیا لیکن شوق بدستور رہا۔ میدانوں سے دور ہو جانے کے بعد بھی ہر اہم میچ میدان میں دیکھنے جاتا یا ٹی وی پر ضرور دیکھتا۔ سچ یہ ہے کہ اس وقت ہاکی کھیل نہیں بلکہ ایک آرٹ تھا۔ یہ آرٹ خاص طور پر برصغیر کے پاس تھا‘ جو اپنے مبہوت کن کھیل سے دیکھنے والے پر سحر طاری کر دیتا تھا۔ ڈربلنگ‘ باڈی ڈاجز‘ تھرو اور شارٹ پاسز ایسے ہوتے تھے جیسے کوئی مصور تصویریں بنا رہا ہو۔ ان کے لچکیلے جسموں کی پھرتی کا یورپی ہاکی ٹیموں اور دیگر اقوام کے پاس اگر کوئی توڑ تھا تو ان کی فٹنس اور جسمانی قوت تھی جو اس زمانے میں ایشیائی ہاکی سے مات کھایا کرتی تھی۔ اولمپکس ہوں‘ ورلڈ کپ ہو یا ایشین کپ‘ پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں ہر ٹورنامنٹ میں سر فہرست ہوتی تھیں۔
پھر زمانہ بدلنے لگا۔ ہاکی بتدریج گوری قومو ں کے ہاتھ میں جانا شروع ہو گئی۔ مصنوعی گھاس کے میدان بچھنے شروع ہوئے۔ کھیل سے بھی پہلے کمنٹری پہ زوال آیا۔ رواں‘ تیز اور اتار چڑھائو کے ساتھ کمنٹری کرنے والوں کو نکال باہر کیا گیا اور سست‘ بھدے اور غلط لہجوں والوں نے ان کی جگہ لے لی۔ سیاست کھیل کی دشمن ہے لیکن ہاکی فیڈریشن نام ہی سیاست اور جوڑ توڑ کا بن گئی۔ عالمی سطح پر کھیل کے میدان میں منصوبہ بندی اہم ہوگئی اور مہارت کم تر۔ بین الاقوامی ہاکی کی تنظیم میں ایشین پہلے کم اور پھر ختم ہونے لگے۔ ہاکی کے فیصلے ان ہاتھوں میں چلے گئے جو بنیادی طور پرہاکی کو کمرشل بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ مقبول بنانے کی کوشش میں تھے۔ ہاکی کے اصول اس طرح کے تھے کہ اس میں گول مشکل تھے لیکن جو ہوتے تھے وہ کلاسیک ہوا کرتے تھے۔ فیصلہ سازوں نے فیصلہ کیا کہ گول زیادہ ہونے چاہئیں تاکہ تماشائیوں میں جوش و خروش پیدا کیا جا سکے اور کھیل کو زیادہ مقبول بنایا جا سکے۔ اس کے لیے بہت سے اصول بدل دیے گئے۔ جو ناخوب تھا وہ خوب ہونے لگا۔ مثلاً گیند لے کر گھومنا یعنی ٹرننگ ایک فائول تھا یا اپنے جسم کو رکاوٹ بنا کر مخالف کھلاڑی کی گیند تک رسائی ناممکن بنا دینا یعنی آبسٹرکشن‘ بڑا فائول تھا۔ ان رُولز میں نرمی کردی گئی۔ مخالف ڈی کے اندر پنلٹی کارنر مخصوص فائولز پر ملتا تھا‘ اسے آسان کرکے زیادہ پنلٹی کارنرز ممکن بنا دیے گئے۔ گیند کے بغیر حریف کے میدان میں آخری مخالف کھلاڑی سے آگے کھڑے ہونا آف سائیڈ تھا‘ اسے بھی کافی حد تک ختم کر دیا گیا۔ گیند کا سکوپ کے بغیر بلند ہونا فائول تھا‘ اب یہ فائول نہیں پسندیدہ ہے۔ ہاکی کا اپنے کندھے سے بلند ہونا غلط تھا‘ اب یہ درست ہے۔ پینتیس منٹ کے دو ہاف کے بجائے پندرہ پندرہ منٹ کے چار کوارٹر کر دیے گئے۔ پانچ کھلاڑیوں کی ٹیم والی ہاکی بھی شروع ہو گئی۔ یہ سب تبدیلیاں کھیل کو بہتر اور مقبول بنانے کی دھن میں نیک نیتی سے کی گئی ہوں گی لیکن میں نیا کھیل دیکھتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ مقبولیت کے چکر میں ایک خوبصورت کھیل کو کیسا بگاڑ دیا گیا ہے۔ آپ آج کے بہترین میچ دیکھ لیں اور سنہرے دور کے بہترین میچ دیکھ لیں‘آپ کو کھیل کے حسن اور خوبصورتی میں نمایاں فرق دکھائی دے گا۔ مجھے یقین ہے کہ ہاکی کے لیجنڈز بھی موجودہ کھیل پر کڑھتے ہوں گے۔ رہی مقبولیت‘ تو جس کیلئے یہ سب تبدیلیاں کی گئی تھیں‘ کیا وہ منزل حاصل ہو گئی؟کیا ہاکی نے فٹبال یا کرکٹ جیسی مقبولیت حاصل کر لی؟
بے شک فن‘ ہنر‘ ادب‘ شعر‘ کھیل اور آرٹ لطیف معاملات ہیں۔ یہ سرپرستی مانگتے ہیں۔ لیکن فی زمانہ اگر سرپرستی کا یہ مطلب ہے کہ سرپرست اس کھیل کو پیسہ کمانے کی شرائط کے مطابق بنا دیں‘ اس کا حلیہ ہی بگاڑ دیں تو یہ پیسے کی خدمت ہے فن یا کھیل کی نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہاکی کا کھیل عالمی سرپرستوں کی زرپرستی کی نذر ہو گیا ہے۔
یہ دکھ اپنی جگہ لیکن ایک مدت بعد پاکستانی ہاکی ٹیم کی کچھ اچھی خبریں آئیں تو پرانا شوق تازہ ہو گیا۔ اگرچہ یہ شوق ہاکی میں مسلسل زوال کے زخم بھی تازہ کر دیتا ہے۔ ہر بار جب شہناز شیخ یا صلاح الدین یا شہباز سینئر کو ٹیم کا منیجر یا کوچ بنایا جاتا تو دل توقع لگا لیتا کہ شاید یہ سابقہ عروج کا اعادہ ہو لیکن ہر بار نیا زخم لگتا۔ پاکستانی ٹیم پہلے رینکنگ کے اولین پانچ نمبروں سے باہر ہوئی اور پھر دس نمبروں سے۔ اب اس کا رینکنگ میں سولہواں نمبر ہے۔ ایک مدت کے بعد اذلان شاہ ٹورنامنٹ میں قومی ٹیم نے کچھ کارکردگی دکھائی ہے‘ خاص طور پر ملائیشیا والے میچ میں۔ میں نے اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ کے میچ اور ان کی جھلکیاں دیکھیں‘ یقینا اس ٹیم میں ایک تازہ روح ہے۔ جان مارنے والے کھلاڑی ہیں اور ابتدائی کوارٹرز میں ہارتی ہوئی ٹیم کا آخر میں میچ جیتنے والا عزم بھی دیکھا۔ فائنل میں پنلٹی شاٹس پر گول نہ کر پانا افسوسناک تھا اور حیرت ہے کہ ٹیم میں اس کے لیے کھلاڑی تیار نہیں کیے گئے تھے۔ لیکن اس کے باوجود ولندیزی کوچ رولنٹ اولٹمن کی تربیت شاید پاکستانی ٹیم کو راس آگئی ہے۔ چاندی کا تمغہ سہی لیکن بہت مدت کے بعد اپنی ٹیم کو میڈل وصول کرتے دیکھنا اچھا لگا۔ پنجاب اور وفاق کی طرف سے ان کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی اور نقد انعامات بھی اچھے اقدامات ہیں۔ اس سے کھلاڑیوں کا حوصلہ بلند ہو گا۔ لیکن غیر ملکی کوچ مقرر کر دینا اور کھلاڑیوں کو انعام دے دینا کافی نہیں ۔ سرکاری ہاکی فیڈریشن کو اپنی لڑائیوں ہی سے فرصت نہیں۔ اندازہ کیجیے کہ اذلان شاہ ٹورنامنٹ سے چند دن پہلے تک یہی طے نہیں تھا کہ اصل ہاکی فیڈریشن ہے کون سی اور کھلاڑی کس کے ماتحت ہیں؟ وزیراعظم مداخلت نہ کرتے تو یہ جھگڑا ختم ہی نہ ہوتا۔ کوئی تنظیم جس کو ہاکی کا درد ہوتا‘ وہ ہاکی نرسریوں پر توجہ دیتی‘ اس کے لیے سپانسر ڈھونڈتی اور قومی کھیل کے لیے نوجوانوں میں شایانِ شان شوق پیدا کرتی۔ ہاکی نرسریاں بے توجہی کی وجہ سے ختم ہو گئی ہیں اور اس لیے بھی کہ پرائیویٹ سکولوں کے پاس کھیل کے میدان ہی نہیں ہیں۔ فیڈریشن اگر اچھے کلبوں کی حوصلہ افزائی کرتی تو یہ کلب ہاکی کو زندہ رکھتے۔ پھرکھلاڑیوں کی ملازمتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہاکی میں پیسہ ہی نہیں ہے۔ جو نوجوان اسے عمر بھر کا وظیفہ بنائے گا اسے زندہ رہنے کے لیے بھی تو کچھ چاہیے۔
ہاکی کا المیہ یہ ہے کہ یہ کمرشل نہ ہو سکی اور کرکٹ کمرشل ہو گئی۔ یہ اچھا ہوا یا برُا‘ یہ الگ بات ہے لیکن ہاکی کو سرپرست ڈھونڈنے مشکل ہو گئے۔ اب حال یہ ہے کہ سرکاری ٹی وی قومی کھیل کے میچز دکھانا ہی پسند نہیں کرتا کہ یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ بات صرف ہماری نہیں‘ دنیا ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے کہ وہ کھیلوں کی سرپرست ہے یا زر پرست؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved