چلچلاتی دھوپ تھی۔ کڑکتی ہوئی! سایہ عنقا تھا۔ درخت تھا نہ کوئی سائبان! کھلا میدان تھا۔ خلقِ خدا قطار باندھے کھڑی تھی۔ پسینہ ٹنوں کے حساب سے بہہ رہا تھا۔ قطار میں مرد تو تھے ہی‘ بچے بھی تھے‘ عورتیں بھی‘ اور بوڑھے اور بوڑھیاں بھی تھیں! لمبی قطار کے سرے پر ایک شرطہ نما پیشکار کھڑا تھا۔ وہ دروازے میں کھڑا تھا اس لیے دھوپ سے بچا ہوا تھا۔ ایک بوڑھی عورت نے اسے کہا: بھئی! ہم بوڑھے لوگ ہیں! سینئر سٹیزن ہیں۔ کب تک دھوپ میں کھڑے رہیں گے؟ شرطہ نما پیش کار نے ایک ادائے بے نیازی سے اسے دیکھا اور کہا: اچھا! میں اندر بتاتا ہوں۔ معلوم نہیں اس نے کس سے بات کی! کسی سے کی بھی یا نہیں۔ آدھا گھنٹہ اور گزر گیا۔ بوڑھی عورت کڑکتی دھوپ میں کھڑی رہی۔ کافی دیر کے بعد ایک اور داروغہ نما اہلکار آیا اور اسے عمارت کے اندر جانے کی اجازت ملی۔
یہ وفاقی دار الحکومت میں ایک نجی کمپنی کا احاطہ تھا۔ دوسرے ملکوں نے‘ یا دوسرے ملکوں کے مقامی سفارت خانوں نے اس نجی کمپنی کے سپرد اُن پاکستانیوں کو کر رکھا ہے جو ان ملکوں میں جانا چاہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کمپنی ویزا کے طلبگاروں کی درخواستیں وصول کرتی ہے اور پھر انہیں مختلف مراحل سے گزارتی ہے۔ یہ مراحل طویل اور جانکاہ ہیں۔ ان میں ایک مرحلہ انگلیوں کے نشانات (یعنی فنگر پرنٹس یا بائیو میٹرک) کا بھی ہے۔ شاید ہماری وزارتِ خارجہ نے بھی اس کمپنی کو اجازت دی ہوئی ہے۔ مگر اس سلسلے میں پورا علم لکھنے والے کو حاصل نہیں۔
سوال یہ ہے کہ ویزوں کے امیدواروں سے لاکھوں‘ کروڑوں روپے کمانے والی اس کمپنی کو اتنی توفیق نہیں کہ قطار میں کھڑے ہوئے سائلوں کے لیے کمرے کی چھت نہیں تو کم از کم ایک ترپال ہی کا بندو بست کر دے۔ ایک سائبان ہی نصب کرا دے۔ اگر لاکھوں‘ کروڑوں کمانے کے باوجود غربت کا یہ عالم ہے کہ کمپنی ترپال لگوانے کی استطاعت نہیں رکھتی‘ تو ترپال کا گھنٹوں کے حساب سے لوگوں سے کرایہ لے لے۔ دھوپ سے بچنے کی کوئی صورت تو ہو!
اندر اس سے بھی برا حال تھا۔ بتایا گیا کہ ریسیپشن سے ٹوکن لیجیے۔ جن بزرگ کے ساتھ مدد کے لیے میں گیا تھا‘ انہوں نے حسبِ ہدایت‘ ریسیپشن سے ٹوکن لیا۔ پھر انتظار کرتے رہے۔ اندر گئے تو بابو نے کہا کہ یہ ٹوکن غلط جاری ہوا ہے۔ اسے درست کرائیے۔ انہوں نے کہا: اس میں میرا کیا قصور ہے‘ یہ آپ کا اندرونی معاملہ ہے۔ میں عمر رسیدہ آدمی ہوں‘ بار بار کیسے جاؤں گا۔ مگر بابو نے کہا کہ عمر رسیدہ افراد کے لیے یہاں کوئی الگ برتاؤ نہیں ہے۔ پھر انہوں نے ڈھیر سارے پیسے فیس کی شکل میں جمع کرائے۔ پھر ایک اور ٹوکن ملا۔ جب فنگر پرنٹس کے لیے گئے تو متعلقہ کمرے کا دروازہ اندر سے بند تھا۔ ایک خاتون بھی بہت دیر سے اس بند دروازے پر دستک دے رہی تھیں۔ قصہ کوتاہ‘ فنگر پرنٹس کرانے کا مطلب ہے کہ آپ ایک بھٹی سے گزریں! یہ انسان نہیں‘ روبوٹ تھے۔ تمیز‘ ادب آداب‘ اخلاقیات‘ ہر چیز سے عاری! نہ بچوں کا خیال نہ بزرگوں کا لحاظ! کسی نے سچ کہا ہے کہ پاکستانی جب گوروں کے ملازم بنتے ہیں تو اپنے ہم وطنوں ہی سے سفاکی کا سلوک کرتے ہیں! مثلاً اگر ریسیپشن والے نے ٹوکن غلط جاری کیا تو پاکستانی بابو نے بزرگ کو حکم دیا کہ جاؤ اسے درست کرا کر لاؤ۔ (جی! اسی طرح بے ادبی سے کہا) اگر کوئی سفید فام ہوتا تو خود جا کر ٹھیک کراتا!
لیکن یہ سب باتیں‘ یہ ساری شکایتیں‘ یہ تمام حکایتیں ضمنی ہیں۔ اصل مسئلہ اور ہے۔ وہ یہ کہ ہم میز کے اس طرف ہیں! میز کے دوسری طرف امریکہ ہے اور کینیڈا! پرتگال ہے اور برطانیہ! آسٹریلیا ہے اور نیوزی لینڈ!! ہم سائل ہیں! ہم لاکھوں کی تعداد میں کشکول اٹھائے ترقی یافتہ ملکوں کے سفارت خانوں کے سامنے قطاروں میں کھڑے ہیں۔ اس امید پر کہ کشکول میں کوئی ویزا ڈال دے! کوئی امیگریشن ڈال دے۔ کوئی پی آر (پرمَننٹ ریزیڈینس) کا سکہ ڈال دے۔ کوئی گرین کارڈ کی بھیک دے دے۔ جب آپ لاکھوں کی تعداد میں ہوں گے اور سوالی ہوں گے اور کشکول بدست ہوں گے اور درخواست دہندہ ہوں گے اور امیدوار ہوں گے تو یہی سلوک ہو گا‘ جو نجی کمپنی کے پاکستانی ملازمین کر رہے ہیں! اور آپ کر بھی کیا سکتے ہیں؟ شکایت کریں گے تو ویزا نہیں ملے گا۔ کبھی بھیک مانگنے والوں نے‘ بھیک دینے والے سے شکایت یا جھگڑا کیا ہے؟ فارسی کا مشہور شعر ہے:
آنچہ شیراں را کند روبہ مزاج
احتیاج است‘ احتیاج است احتیاج
ضرورت اور حاجت مندی شیروں کو بھی لومڑی بنا دیتی ہے۔ پنجابی میں کہتے ہیں ''نوکر کی تے نخرہ کی‘‘۔ یہ ممالک ہر چند ماہ کے بعد قوانین تبدیل کر دیتے ہیں۔ کبھی نکاح نامہ مانگتے ہیں کبھی کچھ اور! اکثر قوانین ان کے مضحکہ خیز ہوتے ہیں! مقصد لوگوں کی حوصلہ شکنی بھی ہے کہ کم سے کم لوگ ویزے کے لیے ان کے دروازے پر دستک دیں! کبھی ہوائی اڈوں پر عریاں کر کے تلاشی لیتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں پاؤں یہاں رکھو اور دونوں بازو دائیں بائیں لمبے کرو! کبھی پتلون کی بیلٹ اترواتے ہیں‘ کبھی جوتے! اس لیے کہ وہ دینے والے ہیں اور ہم لینے والے! کل کو اگر یہ قانون بنا ئیں کہ جس نے ویزا لینا ہے یا ویزا لینے کے بعد جانا ہے تو پہلے اپنے چہرے پر زور سے تھپڑ مارے تو آپ کا کیا خیال ہے لوگ تھپڑ مارنے سے انکار کر دیں گے؟؟ نہیں! خود تو کیا‘ کوئی اور بھی تھپڑ مارے گا تو سر جھکا کر تھپڑ کھا لیں گے۔ چند سال پہلے میں مراکش جا رہا تھا۔ دوحہ (قطر) سے جہاز تبدیل ہونا تھا۔ پہلے جہاز نے سامان اتار دیا تھا۔ سامان کی بیلٹ چل رہی تھی مگر سامان آ نہیں رہا تھا۔ ایک دروازہ تھا شیشے کا۔ اسے کھول کر میں نے دیکھنا چاہا کہ سامان آ رہا ہے یا نہیں۔ ایک بدّو مجھ پر غرایا اور چیخا کہ دروازہ کھول کر جھانکے کیوں ہو؟ اسے جواب دیا کہ آرام سے بات کرو۔ چیخنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ جواب اس کے لیے غیر متوقع تھا۔ ایک پاکستانی کی یہ مجال کہ عرب کو جواب دے؟ اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا: اس کے لیے آتے ہو؟ میں کچھ کہنا چاہتا تھا مگر میرے تین چار ہم وطن میری منت کرنے لگے کہ خدا کے لیے چپ ہو جاؤ۔ اس کا کوئی پتا نہیں تمہیں پکڑ کر لے جائے یا ہم سب کے ساتھ کچھ کر دے! یہ ہے احتیاج! محتاجی! جو شیروں کو لومڑی بناتی ہے۔ پچپن مسلمان ملکوں میں سے جو تین چار مشرقِ وسطیٰ کے ممالک پاکستانیوں کو نوکریاں دیتے ہیں‘ پوری طرح خوار اور رسوا کرتے ہیں۔ کفیل سسٹم بذاتِ خود غلامی کی جدید شکل ہے جس کی تفصیل ہم سب جانتے ہیں۔ ان نام نہاد ''برادر‘‘ ملکوں کی نسبت یورپ اور امریکہ تارکینِ وطن سے بہتر سلوک کرتے ہیں۔ مگر جو پاپڑ ویزے یا امیگریشن کے لیے بیلنے پڑتے ہیں‘ وہ خون کے آنسو رلاتے ہیں! ملکی وسائل کی تقسیم غیر منصفانہ ہے۔ دس فیصد لوگ نوے فیصد وسائل پر قابض ہیں۔ باقی رہ گئے دس فیصد وسائل تو وہ نوے فیصد عوام کے لیے بچتے ہیں۔ ایسے میں نوے فیصد عوام کیا کریں؟ چڑی بیچاری کی کرے! ٹھنڈا پانی پی مرے! ہجرت ان عوام کے لیے واحد راستہ رہ جاتا ہے۔ دس فیصد مراعات یافتہ طبقہ بھی ہجرت کر کے امیر ملکوں میں جا بستا ہے مگر اس طبقے کے پاس دولت ہے۔ اور دولت ہو تو ویزا بھی عزت سے مل جاتا ہے اور شہریت بھی!! مراعات یافتہ طبقے کے یہاں بھی مزے ہیں اور وہاں بھی! غریب یہاں بھی مار کھاتا ہے اور وہاں بھی!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved