تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     21-05-2024

یومِ تکبیر اور ڈاکٹر عبدالقدیر…(2)

ریاست بھوپال کی آخری بیگم نے 1926ء میں اپنے بیٹے حمید اللہ خان کے حق میں دستبرداری کا اعلان کیا۔ یوں مسلم ریاست بھوپال پر صرف ایک مرد حکمران نواب حمید اللہ خاں نے حکومت کی‘ جو اس ریاست کے آخری حکمران بھی تھے۔ یہ ایک عالمی ریکارڈ ہے کہ اس سے قبل چاروں حکمران خواتین تھیں۔ برطانوی استعمار کے خاتمے کے وقت اس ریاست کے حکمران نواب حمید اللہ خاں ہی تھے۔ آزادی کے بعد بھی وہ جون 1949ء تک (23 سال) حکمران رہے۔ اس کے بعد بھارتی حکومت نے ریاست کی خصوصی حیثیت ختم کر کے بھوپال کو اپنی یونین میں شامل کر لیا۔
نواب آف بھوپال اہلِ علم و دانش کے قدر دان تھے۔ انہوں نے کئی قابلِ قدر شخصیات کے وظائف مقرر کر رکھے تھے۔ حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے اپنی معرکہ آرا کتاب ضربِ کلیم کا آغاز جن فارسی اشعار کے ساتھ کیا ہے‘ ان کا عنوان ہے ''اعلیٰ حضرت نواب سر حمید اللہ خاں‘ فرمانروائے بھوپال کی خدمت میں‘‘۔ ان اشعار کو پڑھ کر بھوپال اور اس کے حکمران کی شخصیت کا خوب تعارف ہو جاتا ہے۔ یہ تین فارسی اشعار ہیں جو انتہائی مؤثر پیرائے میں نواب صاحب کی خدمت میں پیش کیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ بھی کلامِ اقبال میں بھوپال کا گیارہ مرتبہ تذکرہ ملتاہے۔ علامہ اقبال نے کئی غزلیں اور نظمیں بھوپال میں قیام کے دوران مختلف اوقات میں لکھیں۔ نواب آف بھوپال حمید اللہ خاں اور سرراس مسعود سے علامہ مرحوم کے دوستانہ تعلقات تھے۔ بھوپال سے تعلق رکھنے والی بہت سی علمی و ادبی شخصیات اپنے نام کے ساتھ بھوپالی لکھا کرتی تھیں۔ ہم اس مضمون میں جس شخصیت کے بارے میں لکھ رہے ہیں ان کی جنم بھومی بھی بھوپال ہے‘ مگر ہماری نظر سے نہیں گزرا کہ انہوں نے اپنے نام کے ساتھ کبھی بھوپالی لکھا ہو حالانکہ وہ بے مثال سائنسدان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ آپ کے خوبصورت اور دلنشین اشعار کا مختصر تذکرہ بھی اس سلسلۂ کالم میں کیا جائے گا۔
اس حوالے سے ایک قابلِ ذکر بات البتہ یہ ہے کہ جب آپ پر ملک سے غداری کا الزام لگا اور آپ سے جبراً پرویز مشرف دور میں اعترافِ جرم پر دستخط کرانے کی سازش ہوئی تو آپ نے کھل کر کہا : ''میری جنم بھومی بھوپال ہے‘ تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کبھی کوئی غدار پیدا ہوا ہے نہ ہی قادیانی‘‘۔ ان چند الفاظ میں مرحوم نے اپنے محب وطن اور غیور مسلمان ہونے کے ساتھ نبیٔ رحمتﷺ کی ذاتِ اقدس سے اپنی محبت و عقیدت اور ختمِ نبوت کا دفاع کرنے کا دوٹوک اعلان کیا۔ ان الفاظ کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مرحوم ایٹمی سائنسدان تو تھے ہی مگر آپ کی اصل پہچان سچے عاشقِ رسول اور پروانۂ شمع ختم نبوت کی ہے۔ قادیانی اقلیت اور ان کے کرتا دھرتا مرحوم کے شدید مخالف تھے اور ان کے خلاف خفیہ سازشوں کے جال بُنتے رہتے تھے۔
ڈاکٹر خان مرحوم کو بجا طور پر ''محسنِ پاکستان‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کی خدمات کے عوض انہیں بہت سے حکومتی اعزازات سے نوازا گیا‘ مگر افسوس کہ ان کے ساتھ زندگی کے آخری سالوں میں جو سلوک کیا گیا وہ انتہائی شرمناک اور بے حمیتی کی بدترین مثال ہے۔ بزدل حکمرانوں نے بیرونی قوتوں کے سامنے بھیگی بلی بن کر محسنِ پاکستان کو محرم سے مجرم بنا دیا۔ ڈاکٹر صاحب جبری اعتراف پر مجبور کر دیے گئے۔ یہ ساری واردات کیسے ہوئی؟ ڈاکٹر صاحب نے خود اس کو بیان کر دیا تھا۔
بھوپال سے ہجرت کر کے پاکستان آنے کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ڈی جے سائنس کالج کراچی سے سائنس میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا اور پھر کراچی یونیورسٹی میں مزید تعلیم کے لیے داخلہ لیا۔ 1956ء میں یہیں سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کا پسندیدہ مضمون فزکس تھا۔ کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران آپ جمعیت طلبہ سے متعارف ہوئے۔ آپ کی رہائش جمعیت کے مرکزی دفتر واقع عبدالمالک شہید روڈ کے قریب تھی اور سائنس کالج بھی وہاں سے دور نہ تھا۔ اس روڈ کا پرانا نام ایک انگریز گورنر کے نام پر سٹریچن روڈ تھا جو قیام پاکستان کے بعد بھی چلتا رہا۔ جب جمعیت کے مایہ ناز رہنما اور جمعیت ڈھاکہ کے ناظم عبدالمالک کو عوامی لیگی غنڈوں نے اگست 1969ء میں بربریت کے ساتھ ڈھاکہ یونیورسٹی میں شہید کر دیا تو اس روڈ کا نام تبدیل کر کے شہید عبدالمالک روڈ رکھا گیا۔ اب یہی نام اس کی شناخت اور پہچان ہے۔
عبدالقدیر خان صاحب نے تقسیمِ ہند کے دوران اور اس کے بعد غیر مسلم آبادی کی طرف سے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ انہیں پاکستان سے عشق کی حد تک محبت تھی۔ یہ عشق زندگی بھر ان کے رگ و ریشے میں موجزن رہا اور انہوں نے ثابت کر دیا کہ سچے عاشق اپنے معشوق کی خاطر ہر قربانی دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ دورانِ تعلیم اپنے گھریلو حالات اور معاشی مشکلات کی وجہ سے بی ایس سی کرنے کے بعد ڈاکٹر عبدالقدرخان نے تین سال میٹروپولیٹن کارپوریشن کراچی میں ملازمت کی۔ اس دوران انہوں نے سکالرشپ کیلئے کوشش کی تو انہیں جرمنی میں تعلیمی سکالرشپ مل گئی۔ آپ نے 1961ء میں برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں میٹریل سائنسز میں داخلہ لیا۔ یہاں ان کا ریکارڈ بہت شاندار تھا۔ ان کا خاص موضوع جس میں انہیں امتیازی حیثیت حاصل ہوئی‘ Metallurgyتھا۔ یہاں سے انہوں نے ہالینڈ‘ جسے اب نیدر لینڈز کہا جاتا ہے‘ جانے کا فیصلہ کیا۔ وہاں آپ نے اپنے شعبے میں دن رات محنت کی اور دنیا کے اعلیٰ ترین سائنسدانوں میں ممتاز مقام حاصل کر لیا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے دورِ طالبعلمی میں پروفیسر خورشید احمد ‘ خرم مراد مرحوم سے متعارف ہوئے اور پھر زندگی بھر ان سے تعلق قائم رہا۔ خرم مراد مرحوم کی اہلیہ کا تعلق بھی بھوپال سے تھا۔ یوں ڈاکٹر عبدالقدیر خان ان سے مزید مانوس ہو گئے۔ پروفیسر خورشید احمد سے بھی ڈاکٹر صاحب کا آخری دم تک انتہائی قریبی دوستانہ تعلق رہا۔ مرحوم سے اپنی جن ملاقاتوں کا میں نے تذکرہ کیا ہے ان میں سے دو ملاقاتوں میں قاضی حسین احمدؒ بھی موجود تھے جبکہ سید منور حسن تینوں ملاقاتوں میں شریک تھے۔ ان ملاقاتوں کے دوران مجھے علم ہوا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ان سب شخصیات (خرم مراد‘ پروفیسر خورشید احمد‘ قاضی حسین احمد‘ سید منور حسن وغیرہ) کا بہت احترام سے نام لیتے تھے اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کیساتھ تو بے حد عقیدت رکھتے تھے۔ مرحوم نے منصورہ میں ہونے والی ملاقاتوں میں مولانا کے کارنامہ تجدید و احیائے دین کی بڑی تحسین کی۔
ڈاکٹر عبدالقدیر مرحوم عالمی شہرت کے حامل سائنسدان ہونے کے باوجود تصوف کی طرف خاصے مائل تھے جس کا اظہار تحریر و تقریر میں اکثر کیا کرتے تھے۔ وہ اس تصوف کے ہرگز قائل نہ تھے جو عمل کی جگہ بے عملی کو رواج دے۔ ان کے نزدیک تصوف اسی صورت میں قابلِ قبول ہو سکتا ہے جب وہ بندے کے باطن کو پاک صاف کرے اور اس کے ظاہر کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام پر یکسوئی کے ساتھ‘ ہرحال میں کاربند رہنے کے قابل بنائے۔ اس کا اظہار انہوں نے اپنی ایک ملاقات میں تبادلۂ خیالات کے دوران فرمایا تھا‘ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ تصوف درحقیقت تزکیہ نفس کا دوسرا نام ہے۔ اگر تزکیۂ نفس کا اہتمام نہ ہو تو تصوف کارِ لاحاصل ہے۔ ڈاکٹر صاحب یورپ میں بھی نماز روزے کی پابندی کا ہمیشہ اہتمام کرتے تھے۔ اس کے ساتھ اسلام کے انقلابی پیغام کو بھی انہوں نے سید ابوالاعلیٰ مودودی کے لٹریچر سے اخذ کیا۔ جب آپ صحافت کے شعبے میں بطور کالم نویس داخل ہوئے‘ تو ان کے کالموں میں اسلام کی تاریخ‘ نظریات‘ اخلاقیات اور نظام کے بارے میں بہت معتبر دلائل پڑھنے کو ملتے۔ قرآن حکیم کی آیات کا حوالہ کم و بیش ہر کالم میں نظر آتا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved