سولر بجلی کا استعمال ہمارے خطے میں چند برسوں سے بڑھنا شروع ہوا ہے۔ اس کی فوری وجہ بجلی کے بے تحاشا بلز بنے۔ چند سال پہلے تک بجلی کا جو یونٹ 25 سے 30 روپے تک تھا‘ وہ اب 60 سے 70 روپے تک پہنچ چکا ہے۔ 20 ‘30 روپے تک تو لوگوں نے برداشت کیا بلکہ 40 روپے تک بھی سب خاموشی سے بل دیتے رہے لیکن اب لگتا ہے سب کی بس ہوگئی ہے۔ اسی رفتار سے کام چلتا رہا تو بہت جلد ریٹ 100 روپے فی یونٹ ہو جائے گا۔یوں سب کا دھیان سولر کی طرف گیا جو سستی بجلی پیدا کرتا ہے بلکہ یوں کہیں مفت بجلی ملتی ہے۔ آپ کو بس شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے والے آلات یا ٹیکنالوجی پر کچھ بنیادی سرمایہ کاری کرنا پڑتی ہے۔ کچھ سال بعد بیٹر یاں تبدیل کرنا پڑتی ہیں۔ سولر سسٹم سے آپ کے گھر کا بل صفر آتا ہی آتا ہے‘ الٹا آپ حکومت کوفالتو بجلی بیچ کر پیسہ بھی کما سکتے ہیں۔
سولر کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے۔ کہا جاتا ہے سولر کا استعمال تو آج سے تین ہزار سال قبل کا انسان بھی کرتا تھا جب Magnifying glass کی مدد سے سورج کی روشنی سے آگ جلائی جاتی تھی۔ پھر ایسی عمارتیں بنائی گئیں جن سے سورج کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال ممکن تھا۔ انیسویں صدی میں فرانس کے ایک نوجوان نے باقاعدہ سولر ٹیکنالوجی پر کام کیا جو بعد میں دیگر ممالک کے سائنسدانوں کی محنت اور کوشش سے اس جدید شکل کو پہنچا جو آپ دیکھ رہے ہیں۔سولر ٹیکنالوجی کو محفوظ ماحولیات کی طرف ایک بڑی پیشرفت سمجھا گیا۔ آپ کو بڑے ڈیم بنا کر بجلی بنانے کی ضرورت نہیں‘ جس سے ہزاروں لاکھوں لوگ دردبدر ہوتے‘ فطری ماحول خراب ہوتا‘ چرند پرند کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ پہاڑ یا زمینیں کاٹ کر ڈیم بننے سے ماحولیات کو بھی نقصان ہوتا ہے‘ لہٰذا سولر کو بہتر آپشن سمجھا گیا۔ آئی پی پیز جو تیل اور گیس پر بجلی بناتے ہیں‘ انہیں بھی ماحولیات کے لیے نقصان دہ سمجھا جاتا ہے۔ جیسے آج کل دھواں نکالتی پٹرول ڈیزل گاڑیوں کی جگہ بجلی سے چلنے والی گاڑیاں ایجاد کر لی گئی ہیں‘یا بلٹ ٹرین یا اب بیٹری پر گاڑیاں چلنا شروع ہوگئی ہیں تاکہ انسانی ماحول کو خوشگوار رکھا جائے۔ یوں دیکھا جائے تو انسانی معاشروں کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی خواہش بھی ہمیں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں اور سولر پینل تک لے آئی ہے۔
مزے کی بات ہے کہ امریکہ میں بھی سولر پینل کی ضرورت اس وقت پیش آئی جب پچاس کی دہائی میں بجلی کی قیمتیں بڑھنا شروع ہوئیں۔ جس طرح آج کل ہمارے ہاں حالات ہیں‘ لوگوں نے شور مچایا تو امریکہ سولر انرجی کی طرف گیا۔ 1970 ء کی دہائی میں سولر پینل کی مانگ بہت اوپر گئی لیکن امریکہ میں 1980 ء کی دہائی میں ڈیمانڈ کم ہو گئی کیونکہ بجلی کی قیمت کم ہونا شروع ہوگئی۔ لیکن اب ہمارے جیسے ملکوں میں سولر پینل کی ڈیمانڈ اچانک بہت بڑھ گئی ہے مگر اس کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں۔امریکہ میں 2016ء میں دس لاکھ یونٹ لگائے گئے۔ شروع شروع میں سولر پینل لگانے کی لاگت سینکڑوں ڈالر فی واٹ تھی جو اَب خاصی کم ہو چکی ہے۔ 1956ء میں سولر پینل کی لاگت تین سو ڈالرز فی واٹ تھی جو 1975ء میں سو ڈالرز فی واٹ تک آچکی تھی۔بتایا جاتا ہے کہ اب اس کی لاگت فی واٹ ایک ڈالر سے بھی کم ہوچکی ہے۔ امریکہ میں پچھلے دس سالوں میں سولر کی گروتھ پچاس فیصد تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ وجہ وہی ہے کہ سولر کی قیمتیں 70 فیصد تک کم ہو چکی ہیں۔ اس دوران حکومت نے قانون سازی کر کے سولر کو مزید پھیلایا تاکہ انرجی کے نئے طریقوں سے سہولت تلاش کی جائے۔ نیز امریکی حکومت نے لوگوں کو اس طرف لانے کے لیے ریسرچ اور ڈویلپمنٹ پر بھی کام کیا اور لوگوں کو رعایتیں دی گئیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ سولر سسٹم کی طرف جائیں ۔
آج پوری دنیا‘ یورپ اور امریکہ سے لے کر چین تک‘ سب سولر انرجی کی طرف جا چکے ہیں بلکہ سولر پینل بنا کر دوسرے ممالک کو بیچ کر جہاں سستی بجلی پیدا کرنے میں مدد دے رہے ہیں وہیں اس سے اربوں ڈالرز بھی کما رہے ہیں اور اپنے لوگوں کی زندگیاں سستی بجلی فراہم کر کے آسان اور خوبصورت بنا رہے۔ مگر ہمارے ہاں‘ پاکستان میں ہمارے حکمران اور بیوروکریٹس کیا سوچ رہے ہیں؟ یہ حکمران طریقے ڈھونڈ رہے ہیں تاکہ لوگ سولر انرجی کی طرف نہ جائیں اور سو روپے فی یونٹ بجلی خریدتے رہیں تاکہ انہوں نے جو مہنگے‘ پرانے اوربوسیدہ پاور پلانٹس لگائے ہوئے ہیں ان کو ادائیگی ہوتی رہے اور وہ ہر سال اربوں ڈالرز اس قوم کی جیب سے نکالتے رہیں۔ آپ لوگ ہماری کم علمی یا نالائقی ملاحظہ فرمائیں کہ ہمارے حکمرانوں اور بیوروکریٹس کو علم نہ تھا کہ امریکہ میں سولر انرجی کتنی تیزی سے پھیل رہی ہے اور یہ کام وہ50ء کی دہائی سے شروع کر چکے تھے۔ مان لیا کہ یہ ٹیکنالوجی شروع میں مہنگی تھی لیکن کیا 1990ء کی دہائی میں‘ جب پیپلز پارٹی درجن بھر آئی پی پیز لگا رہی تھی کہ وہ تیل پر بجلی پیدا کریں ‘اُس وقت بھی سولر انرجی ہمیں مہنگی لگ رہی تھی؟ جب ہم ان آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کررہے تھے کہ انہیں فی یونٹ ڈالروں میں ادائیگی ہوگی اُس وقت بھی سولر انرجی مہنگی لگ رہی تھی؟ یا جس وقت اُن بجلی گھروں سے معاہدے ہورہے تھے کہ ان سے بجلی ہم خریدیں یا نہ خریدیں‘ انہیں پورے پیسے ملیں گے‘ وہ بھی ڈالروں میں‘اُس وقت بھی سولر توانائی مہنگی تھی؟آج سولر بجلی سستی ہے یا تیل‘ گیس اور کوئلے سے پیدا کرنے والے یونٹ؟ کسی کو علم نہ تھا کہ انرجی کی دنیا کیسے بدل جائے گی؟
بعد میں نواز شریف حکومت نے بھی اس کام کو جاری رکھا۔ چین سے کوئلے کے پلانٹ لگوائے جو آج بھی مہنگی بجلی پیدا کررہے ہیں اور ڈالروں میں پیسہ کما رہے ہیں۔ چند سال پہلے جب پاکستان نے آخرکار سولر کے تحت بجلی پیدا کرنے کے ایک منصوبے پر دستخط کیے تو دبئی میں جو معاہدہ دو سینٹ پر ہوا وہ پاکستان میں پانچ سے چھ سینٹ تک کیا گیا۔ ہمارے ہمسائے بھارت میں سولر پارکس بنائے گئے ہیں۔ آپ نے کبھی سنا کہ ہمارے ہاں سولر پارکس بنے ہوں یا کوئی بڑا منصوبہ افتتاح تک پہنچا ہو؟
اب آپ پوچھیں گے ہمارے حکمران اور بابوز اَن پڑھ ہیں‘ ظالم ہیں یا کرپٹ کہ جب پوری دنیا سولر کی طرف جارہی ہے‘ یہ اب بھی سولر پاور کے سامنے ایک مزاحمت بن کر ابھرے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ سب خوش ہوتے‘ ڈیوٹی معاف کرتے‘ لوگوں کو سولر کی طرف راغب کرتے تاکہ ایک تو سستی بجلی ملتی‘ دوسرے گیس اور تیل کی امپورٹ کا بل کم ہوتا‘ جو اس وقت 35 ارب ڈالرز ہے اور اس تیل‘ گیس پر مہنگی بجلی بنا کر بیچی جارہی ہے جس کا یونٹ اب 60 ‘70روپے کا ہندسہ کراس کر چکا ہے۔ دراصل تیل‘ گیس امپورٹرز اور آئی پی پیز مالکان سب سے بڑے بینی فشری ہیں۔ حکمرانوں نے فرنٹ مینوں کے ذریعے مہنگے پاور پلانٹس لگائے ہیں اور بیورو کریٹس اس میں اپنا حصہ بقدر جثہ لیتے رہے ۔ آپ کو واٹر اینڈ پاور کے سیکرٹری شاہد رفیع تو یاد ہوں گے جنہوں نے پیپلز پارٹی کے 2008-13ء دور میں ترکی سے کرائے پر منگوائے گئے کراکرے جہاز پر لمبا مال کمایا اور نیب کو صرف چار کروڑ روپے پلی بارگین میں ادا کر کے باقی مال پر مزے کر رہے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شہباز شریف حکومت ہمیں یہ خبرسناتی کہ وہ اس سال بجٹ میں سولر کی پروموشن کے لیے ٹیکسوں میں رعایت دے رہی ہے تاکہ لوگوں کی جان مہنگے بلوں سے چھڑائی جائے لیکن اپنی جیب پر ڈاکا کون مارنے دیتا ہے۔ اگر سولر انرجی ہر طرف عام ہوگئی تو حکمران اور بابوزکیا کریں گے جنہوں نے آئی پی پیز کو ڈیل دے رکھی ہیں کہ تم بجلی پیدا کرو یا نہ کرو‘ ہم ڈالروں میں ادائیگی کریں گے ۔ سولر کو روکنے کے پیچھے یہی آئی پی پیز مالکان ہیں جو آپ کے اصل حکمران ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved