محبوب خان کی فلم تقدیر کے بعد شمشاد کو متعدد فلموں میں گانے کا موقع ملا جن میں سسی پنوں‘ رنگین زمانہ‘ دل کی دنیا‘ ماں کا پیار‘ سرکار‘ جل پری اور جیون نو کا‘ شیریں فرہاد‘ روپ ریکھا‘ پگلی اور شاہجہاں شامل ہیں۔ اس دوران اسے دوسرے گلوکاروں کے ساتھ گانے کا موقع بھی ملا۔ ساتھی گلوکاروں کے ساتھ اس کا رویہ شفقت اور مہربانی کا تھا۔ کہتے ہیں ایک بار نوشاد کی موسیقی میں شمشاد اور طلعت نے ایک ساتھ گانا تھا۔ اُس وقت تک طلعت نے کچھ گانے گائے تھے لیکن ابھی تک وہ شہرت کی بلندیوں پر نہیں پہنچا تھا جبکہ نوشاد اور شمشاد پہلے ہی فلمی دنیا کے سٹارز بن چکے تھے۔ طلعت ان دونوں کی موجودگی میں نروس ہو رہا تھا اور ریکارڈنگ میں تاخیر ہو رہی تھی۔ نوشاد ریکارڈنگ میں تاخیر سے جھنجھلایا ہوا تھا۔ شمشاد نے صورتحال کو بھانپ لیا۔ اس نے نوشاد سے کہا کہ طلعت کی آواز بہت اچھی ہے لیکن وہ نروس ہو رہا ہے‘ آپ ریکارڈنگ روم میں جا کر اس کی تعریف کریں اور اسے اعتماد دیں۔ نوشاد نے ایسا ہی کیا اور گیت کامیابی سے ریکارڈ ہو گیا۔ اس گانے کے بول تھے ''ملتے ہی آنکھیں ہو گیا دیوانہ کسی کا‘‘۔ یہ دو گانا کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی تروتازہ ہے۔
شمشاد ہر نئے دن کے ساتھ کامیابی اور شہرت کے زینے طے کر رہی تھی کہ اچانک سب کچھ بدل گیا۔ یہ 1955ء کا سال تھا جب ایک دن خبر ملی کہ شمشاد کا خاوند گنپت لال بٹو ٹریفک کے ایک حادثے میں جان کی بازی ہار گیا ہے۔ شمشاد کے لیے زندگی اندھیر ہو گئی۔ اس نے اپنے سارے خاندان کی مخالفت مول لے کر گنپت سے محبت کی شادی کی تھی۔ دونوں گیارہ سال ہنسی خوشی اکٹھے رہے تھے۔ دونوں کی ایک بیٹی اُوشا تھی۔ گنپت شمشاد کی زندگی کا ہمراز اور ہمسفر تھا۔ گنپت کے یوں اچانک بچھڑ جانے سے اب شمشاد کو زندگی میں کوئی دلچسپی نہ رہی تھی۔ اس نے لوگوں سے ملنا جلنا بند کر دیا اور گھر میں بند ہو کر رہ گئی۔ اس کا اب گانے کو جی نہ چاہتا تھا۔ تنہائی کا یہ عرصہ دو سال پر محیط ہو گیا ۔ خوبصورت گیت گانے والی یکلخت خاموش ہو گئی۔ تب معروف پروڈیوسر اور ڈائریکٹر محبوب خان نے ایک بار پھر شمشاد بیگم کی فنی زندگی میں اہم کردار ادا کیا۔ یاد رہے کہ یہ وہی محبوب خان تھا جس نے شمشاد بیگم کے والد کو بڑی مشکل سے راضی کیا تھا کہ شمشاد بمبئی جا کر اس کی فلم ''تقدیر‘‘ کے لیے گیت گائے گی۔ یہ شمشاد کی فنی زندگی میں ایک اہم موڑ تھا جس نے اس کے لیے کامیابی کے دروازے کھول دیے۔ اب ایک بار پھر شمشاد کو اس تنہائی کے حصار سے نکلنا تھا جس میں اس نے خود کو بند کر دیا تھا۔ محبوب ان دنوں اپنی شہرۂ آفاق فلم ''مدر انڈیا‘‘ بنا رہا تھا۔ محبوب نے شمشاد کو اپنی فلم میں گانے کی پیشکش کی۔ شمشاد کو تنہا ئی کے حصار سے نکالنا آسان نہ تھا۔ اس نے گائیکی سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی لیکن محبوب خان ہار ماننے والا نہیں تھا۔ اس نے آخر کار شمشاد کو دوبارہ فلمی دنیا میں آنے پر راضی کر لیا اور یوں شمشاد محبوب خان کی فلم ''مدر انڈیا‘‘ میں گیت گا کر ایک بار پھر فلمی دنیا واپس آ گئی۔ ''مدر انڈیا‘‘ 1957ء میں ریلیز ہوئی اور باکس آفس پر کامیابیوں کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ اس فلم میں شمشاد نے کئی گیت گائے جن میں ''ہولی آئی رے‘ دکھ بھرے دن‘ پی کے گھر آج پیاری دلہنیا چلی‘ او گاڑی والے گاڑی دھیرے ہانک کے‘‘ شامل ہیں۔ یوں 1957ء میں شمشاد کی گائیکی کا دوسرا دور شروع ہوا جو 70ء کی دہائی تک کامیابی سے جاری رہا۔ شمشاد نے اپنی نئی زندگی میں اپنے وقت کے تمام اہم موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔ شمشاد کی زندگی میں غلام حیدر‘ غلام محمد اور پنڈت گووند رام کا اہم کردار تھا جنہوں نے اس کے لیے خوبصورت دھنیں بنائیں جن کے نتیجے میں بہت سے سدا بہار گانے تخلیق ہوئے۔ یاد رہے شمشاد کو فلمی دنیا میں متعارف کرانے کا سہرا ماسٹر غلام حیدر پر ہے جن کی مدھر دھنوں میں شمشاد نے ''خزانچی‘‘ فلم میں گیت گائے اور فلمی دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔
شمشاد کے فنی سفر کو بلندیوں سے ہمکنار کرنے میں تین اور موسیقاروں کا بھی اہم کردار ہے‘ ان میں نوشاد‘ اوپی نیر اور رام چندر شامل ہیں۔ اوپی نیر نے اپنے فنی سفر کے آغاز ہی میں شمشاد کی آواز کا استعمال کیا ۔ شمشاد اوپی نیر کی پسندیدہ گلوکارہ تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ شمشاد کی آواز میں گھنٹیاں بجتی ہیں۔ اوپی نیر اور شمشاد میں قدرِ مشترک یہ تھی کہ دونوں نے موسیقی کی باضابطہ تربیت حاصل نہیں کی تھی‘ یہی وجہ ہے کہ اوپی نیر نے میوزک میں نت نئے تجربے کیے۔ اوپی نیر کی موسیقی میں شمشاد کے چند گیت بہت مشہور ہوئے ‘ان میں کبھی آر کبھی پار‘ اب تو جی ہونے لگا‘ کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ‘ بچ کے بالم کہاں جاؤ گے‘ محبت سے تجھے انکار‘ میری نیندوں میں تم‘ چنا جور بابو گرم میں لایا‘ ریشمی شلوار کرتا جالی کا‘ کجرا محبت والا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ اوپی نیر کا ابتدائی دور تھا جس میں اس نے شمشاد بیگم‘ گیتا دَت اور محمد رفیع کی آواز کا استعمال کیا تھا۔
اس زمانے کے ایک اور معروف موسیقار رام چندر کی موسیقی میں بھی شمشاد نے سدا بہار گانے گائے۔ رام چندر نے شمشاد کی شوخ و شنگ آواز کو مد نظر رکھتے ہوئے غیر روایتی دھنیں بنائیں۔ شمشاد نے رام چندر کی موسیقی میں چھ سو کے قریب گیت گائے ‘ان میں آنا میری جان سنڈے کے سنڈے‘ میرے پیا گئے رنگون جیسے معروف گیت شامل ہیں۔ اوپی نیر‘ سی رام چندر کے علاوہ شمشاد نے موسیقار نوشاد کی موسیقی میں متعدد لازوال گیت گائے جن میں ہم درد کا افسانہ دنیا کو سنائیں گے‘ چھایا میری امید کی دنیا میں اندھیرا‘ چاندنی آئی بن کے پیار او ساجنا‘ آگ لگی تن میں دل کو پڑا تھامنا‘ تری محفل میں قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں گے‘ شامل ہیں۔ ان گیتوں کی مقبولیت نے نوشاد کو بھی شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ نوشاد نے اس بات کا بر ملا اعتراف کیا کہ اس کی مقبولیت میں شمشاد کا اہم کردار ہے کیونکہ اس کے مشہور ہونے سے پہلے شمشاد شہرت کی بلندیوں پر پہنچ چکی تھی۔
شمشادنے اپنی فنی زندگی میں چھ ہزار کے لگ بھگ فلمی گیت گائے۔ شہرت کی بلندیوں کا سفر کیا۔ گانے کا سب سے زیادہ معاوضہ وصول کیا‘ لیکن کہتے ہیں وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ 60ء کی دہائی کے آخر آخر شمشاد کی شہرت کا آفتاب ڈھلنے لگا ۔ اس نے آخری گیت 1971ء میں گایا اور پھر فلمی دنیا کو خیرباد کہہ دیا اور اس طرح گوشہ گیر ہوئی کہ کسی کو خبر نہ ہوئی کہ وہ کہاں چلی گئی۔ اس نے اپنی زندگی کے آخری ماہ و سال اپنی بیٹی اُوشا اور اپنے داماد کے ہمراہ گزارے۔ پھر ایک روز خبر ملی کہ فلمی دنیا پر راج کرنے والی شمشاد بیگم اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئی۔ برِصغیر پاک وہند کی شیریں آواز خاموش ہو گئی۔ شمشاد اکثر اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اپنی بیٹی اُوشا سے کہا کرتی تھی کہ تم دیکھنا میں مرنے کے بعد بھی اپنے گیتوں میں زندہ رہوں گی۔ وہ سچ ہی کہتی تھی! یہ حقیقت ہے کہ سچے فن کی زندگی امر ہوتی ہے۔ اس میں ماضی کا صیغہ نہیں ہوتا۔ (ختم)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved