تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     22-05-2024

ایک ڈاکے کی سرگزشت

19مئی 2010ء کو ہمارے گھر اسلام آباد میں مسلح ڈاکا پڑا تھا۔ 14سال ہو گئے‘ ایف آئی آر تھانہ گولڑہ میں کہیں پڑی ہو گی۔ گزشتہ چند برسوں میں اسلام آباد میں جرائم کی تعداد مزید بڑھی ہے۔ پچھلے دنوں ہمارے ہمسایہ سیکٹر جی 14میں ڈبل روڈ پر دوپہر کے تین بجے ڈاکا پڑا۔ ہمارے ہاں تو رات کے وقت ڈاکا پڑا تھا‘ اب دن دہاڑے وارداتیں ہو رہی ہیں۔ ہم نے اپنے گھر آنے والے نوجوان اور انتہائی پھرتیلے ڈاکوؤں سے پوچھا تھا کہ خار دار تار‘ جو ہماری دیواروں پر لگی ہوئی ہے‘ کیسے عبور کی تو جواب ملا کہ ہم نے کمانڈو ٹریننگ لی ہوئی ہے۔
قارئین مجھ سے پوچھ سکتے ہیں کہ 14سال بعد گڑے مردے اکھاڑنے کا کیا فائدہ؟ تو میرا جواب یہ ہوگا کہ فوجداری کیس میں مدعی دراصل ریاست ہوتی ہے اور یہ کیس محدود مدت کے لیے نہیں ہوتا‘ یعنی Time boundنہیں ہوتا۔ زندہ قومیں اپنے دشمن کو دنیا بھر میں تلاش کرکے کیفرِ کردار تک پہنچاتی ہیں۔مسلح ڈاکا زنی قانون کی نظر میں دہشت گردی کی ہی ایک قسم ہے اور یہ ریاست کے خلاف جرم ہے۔ زندہ قومیں اپنے مجرموں کا تعاقب کرتی ہیں اور انہیں ان کے جرم کی سزا دیتی ہیں۔
یہ ڈاکو نقدی اور جیولری کے علاوہ تین موبائل بھی لے گئے اور ان کی سمیں نکال کر ہمارے ہی گھر میں پھینک گئے۔ انہیں شاید علم نہیں تھا کہ کسی بھی موبائل فون کی لوکیشن اس کے IMEIنمبر کی مدد سے معلوم ہو سکتی ہے اور پاکستان کے دو تین اہم ادارے اُس وقت بھی یہ استعداد رکھتے تھے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ڈاکوؤں کے اندازے کے مطابق میری ان اداروں تک رسائی مشکل ہو۔ مجھے ریٹائر ہوئے تب دو سال ہی ہوئے تھے اور چند دوست بہت اہم عہدوں پر تھے۔ چنانچہ وقوعہ کے کچھ روز بعد ہی ایک ادارے نے مجھے اطلاع دی کہ آپ کا ایک فون بارہ کہو میں استعمال ہوا ہے۔ پولیس لوکیشن پر پہنچی تو معلوم ہوا کہ فون شاہین بی بی نامی خاتون نے استعمال کیا ہے جو اس گینگ کے سرغنہ نصیر ولد مجنوں کی بہن ہے۔ تفتیش کرتے کرتے اسلام آباد پولیس اٹھمقام‘ جو کہ وادیٔ نیلم میں واقع ہے‘ پہنچ گئی لیکن نصیر ہر مرتبہ پولیس کو چکما دے گیا۔ دریں اثنا دوسرے دو فون بھی آزاد کشمیر میں ہی استعمال ہوئے۔ ایک ڈاکو بشیر ولد اکبر گرفتار بھی ہوا۔ شناخت پریڈ میں ہم نے اسے پہچان بھی لیا لیکن اسلام آباد کی ایک عدالت نے اسے ضمانت پر رہا کر دیا۔ قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ جس پیشی میں اس کی ضمانت ہوئی اس کے بارے میں مجھے مطلع نہیں کیا گیا۔
میرا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اسلام آباد پولیس کی استعداد وہ نہیں جو ہونی چاہیے۔ یہاں افسر بے شمار ہیں مگر نفری کم ہے اور جو نفری ہے اس کا مورال خاصا ڈاؤن ہے۔ میں جب اسلام آباد پولیس کے کانسٹیبل کو ڈیوٹی کے بعد عام شہریوں سے لفٹ مانگتے دیکھتا ہوں تو مجھے بہت ترس آتا ہے۔ درمیان میں کوئی ایک آدھ فعال قسم کا آئی جی آ جائے تو فرق تو پڑتا ہے لیکن اس کے تبادلے کے بعد معاملات پھر ویسے ہی ہو جاتے ہیں۔ ہمارے گھر ہونے والی ڈکیتی کی واردات کے اگلے روز بہت سارے دوست احباب اظہارِ ہمدردی کے لیے آئے۔ ان میں سابق فیڈرل سیکرٹری اور آئی جی بھی شامل تھے۔ سابق آئی جی ملک نذیر احمد میرے دیرینہ دوست اور مہربان ہیں۔ وہ گھنٹوں میرے پاس بیٹھے رہے اور ہر متعلقہ پولیس افسر کو فون کرتے رہے۔ مجھے کہنے لگے کہ آپ نے آج ہی آئی جی اسلام آباد کو ملنا ہے۔ چنانچہ میں آئی جی اسلام آباد کے آفس پہنچ گیا۔ تب جو شخص آئی جی اسلام آبادپولیس کے عہدے پر تعینات تھا‘ وہ نیک نام پولیس افسر تھا۔میں نے اُن کے پاس پہنچ کر سارا ماجرا بیان کیا اور یہ بھی کہا کہ گھر سیکٹر کے کونے میں ہے لہٰذا فیملی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ انہوں نے ایک ایس ایس پی کو ہدایات ایشو کیں کہ جائے وقوعہ کا معائنہ کریں اور اُس علاقہ میں جہاں میرا گھر واقع ہے‘ رات کو پولیس کا گشت بڑھا دیں۔
کوئی آٹھ سال پہلے کی بات ہے‘ مذکورہ بالا ڈاکو کی اڈیالہ جیل میں شناخت پریڈ ہونا تھی۔ میں نے اور میری بیگم نے علیحدہ علیحدہ شناخت کرنا تھی۔ ایس ایچ او گولڑہ نے کہا کہ تفتیشی انسپکٹر آپ دونوں کے ساتھ جائے گا تاکہ جیل میں داخلے کے وقت کوئی دقت نہ ہو۔ ہم نے گاڑی جیل کے باہر پارک کی اور جیل کے مین گیٹ کی جانب روانہ ہوئے۔ تفتیشی انسپکٹر نے ہمیں صراحت سے کہا کہ ملزم کی شناخت آپ دونوں نے خودکرنی ہے‘ میں اس کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتا۔ مجھے اس کی بات اچھی لگی کہ پروفیشنلزم کے عین مطابق تھی۔ جولائی کے دن تھے۔ ہم دونوں نے روزہ رکھا ہوا تھا کہ رمضان کا مہینہ تھا۔ تفتیشی انسپکٹر کی پیچھے سے آواز آئی کہ سر آہستہ چلیں میں سمجھا کہ اسے روزہ لگا ہوا ہے لیکن جب استفسار کیا تو پتا چلا کہ وہ شوگر کا مریض ہے۔
اس وقت ملک میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال تشویش ناک ہے۔ کراچی اور لاہور سے روزانہ ہولناک خبریں آ رہی ہیں۔خبروں کے مطابق کراچی میں رواں سال اب تک ڈکیتی کی مختلف وارداتوں میں 65 سے زائد شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ لاہور میں پچھلے چار ماہ میں ڈاکوئوں کے ہاتھوں 11 افراد قتل ہو چکے ہیں۔ جس ملک میں امن امان کی یہ صورتحال ہو وہاں بیرونی سرمایہ کاری کیسے آئے گی۔ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت عمرانی معاہدے کی بنیاد ہے۔ ریاست شہریوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے اور وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں تاکہ ریاست بخوبی اپنی فرائض ادا کر سکے۔ جو ریاست شہریوں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی وہ ملک قطعاً ترقی نہیں کر سکتا۔
کالم کو سمیٹتے ہوئے اور اسلام آباد میں لا اینڈ آرڈر کے مستقبل کی بات کرتے ہوئے میں یہی کہوں گا کہ اسلام آباد میں پولیس کی Tooth to Tail Ratioغلط ہے۔ یہاں افسران کی تعداد آسانی سے آدھی کی جا سکتی ہے۔ نفری کی سلیکشن میرٹ پر ہو۔ ٹریننگ معیار کی ہو۔ تفتیشی کو مکمل علم ہو کہ تفتیش کیسے کرنی ہے۔ جسمانی فٹنس آرمی کے جوان کے برابر ہو یعنی وہ سال میں ایک مرتبہ نو میل بھاگ کر دکھائیں۔ جوانوں کے مورال کا خاص خیال رکھا جائے۔ ان کی ٹرانسپورٹ اور رہائش کا مناسب خیال رکھا جائے۔ سالانہ میڈیکل ٹیسٹ بھی ضروری ہے۔
میں جانتا ہوں کہ 14سال پہلے والے ڈاکے کا اب کچھ نہیں بنے گا لیکن امن و امان قدرے بہتر ہو جائے تو دلی خوشی ہو گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved