18ذی الحج ہمیں اس ہستی کی یاد دلاتا ہے کہ جسے لاکھوں مربع میل کا حکمران ہونے کے با وجود اپنے گھر میں حالتِ محصوری میں شہید کیاگیا ۔شہید مظلوم نے اپنی زندگی کے آخری ایام فاقہ کشی میں بسر کیے۔ اس مسجد نبوی کے دروازے تک آپص کی رسائی ممکن نہ رہی جس کی تعمیر و ترقی میں آپص نے نمایاں کردار ادا کیا تھا ۔جس وقت آپ ص پر حملہ کیا گیا اس وقت آپ سورت بقرہ کی تلاوت فرمارہے تھے اور قرآن مجید کے کھلے ہوئے اوراق کہ جن پر آپ کا لہو گرا،آپ کی شہادت کے گواہ بن گئے ۔ حضر ت عثمان ص ’’سابقون الاوّلون ‘‘کی مقدس جماعت میں شامل ہیں اور قبول اسلام کے بعد آپ نے ان تما م سختیوں کو خند ہ پیشانی سے برداشت کیا کہ جن کا سامنا اس دور کے تمام نَو مسلم افراد نے کیا تھا ۔حضر ت عثمان صنے ایمان و عمل میں کمال حاصل کیا اور اللہ تعالیٰ نے سورت نور میں ایمان وعمل کی شاہرہ اپرمستقل مزاجی سے چلنے والوں کے لیے زمین پر جس خلافت کو عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے وہ عہد حضرت ابو بکر صدیقص اور حضرت عمر فاروق ص کی ذات کے بعد آپ سے بھی پورا کیا گیا ۔ حضر ت عثمان صکو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں جب ایک مرتبہ یہ افواہ پھیلی کہ کافروں نے آپ کو شہید کردیا ہے تو نبی کریم ﷺ نے آپ کے قصاص کے لیے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر صحابہ کرام سے بیعت لی تھی۔ اللہ تعالیٰ اس بیعت سے اتنا راضی ہوئے کہ انہوں نے اس بیعت کا ذکر سورت فتح میں فرمادیا۔اس بیعت رضوان میں حصہ لینے والے 1400صحابہ کرام دیگر صحابہ کرام کے مقابلے میں بلند مقام کے حامل ہیں حضرت عثمان ص نے نبی پاک ﷺ کی محبتوں اور شفقتوں کا وافر حصہ حاصل کیا ۔یہ نبی پاک ﷺ کی ان کے ساتھ محبت اور شفقت ہی تو تھی کہ نبی پاک ﷺ نے اپنی دو بیٹیوں کو یکے بعد دیگرے ان کے ساتھ بیاہ دیا اور اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ یہ بھی ارشاد فرمادیا کہ’’اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے آپؓ سے بیاہ دیتا ‘‘کسی نبی کا دوہرا داماد ہونا اتنا بڑا شر ف ہے کہ جو تاریخ انسانیت میں حضر ت عثمان صکے سواکسی کو بھی حاصل نہیں ہوا ۔ حضر ت عثمان ص کو اللہ نے بہت سے اوصاف حمیدہ سے نوازا تھا لیکن دو اوصاف ایسے ہیں کہ جن کے اعتبار سے آپ ص طبقہ صحابہث میں انتہائی نمایاں حیثیت رکھتے ہیں ۔پہلی خوبی یہ کہ اللہ نے آپ ص کو جو مال عطا کیا اسے اللہ کی خوشنودی کے حصول کے لیے نہایت فراخدلی سے خرچ کرتے تھے دوسری خصوصیت یہ کہ آپ ص بہت زیادہ حیا دار تھے ۔یہ دواعلیٰ اوصاف جس شخصیت میں موجودہوں وہ یقینا ہر اعتبار سے قابل تحسین ہوتی ہے ۔ حضر ت عثمان صنے ہر دور میں اپنے مال کو اسلام کی ترویج اور ترقی کے لیے خرچ کیا ۔جب مدینہ میں پانی کے مشہور کنویں بئر رومہ پر یہودی سرمایہ دار سانپ بن کر بیٹھ گیا تھا اور مسلمانوں میں پانی کی خریداری کی سکت نہیں تھی تو آپ ص ہی کی ذات ِ گرامی تھی کہ جس نے پہلے نصف کنویں کو اور بعد ازاں باقی نصف کو خرید کر اہل مدینہ کے لیے وقف کردیا تھا ۔ کسی بھی مسجد کی تعمیر میں حصہ لینا یقینا اللہ پر ایمان کی نشانی ہے اور وہی شخص یہ کام کرسکتا ہے جو اللہ سے یومِ آخرت ثواب کا امیدوار ہو۔مسجد نبوی کی زمین کی خریداری کے حوالے سے مسلما ن تنگدستی کا شکار تھے ۔حضر ت عثمان ص نے زمین کی خریداری کے حوالے سے درپیش مالی مشکل کو اللہ کے دیے ہوئے مال سے حل کردیا ۔مسجد نبوی شریف جہاں بیت اللہ الحرام کے بعد دنیا کا سب سے افضل مقام ہے وہیں حضر ت عثمان صکے لیے صدقہ جاریہ بھی ہے۔جب تک اہل ایمان مسجد نبوی شریف میں نماز ادا کرتے رہیں گے،حضر ت عثمان صکو ثواب ملتا رہے گا ۔ حضر ت عثمان ص نے اگرچہ ہر مرحلے پر اسلام کی ترویج کے لیے مال و اسباب خرچ کیا لیکن غزوۂ تبو ک کے موقعہ پر آپصنے جس انداز سے اپنے مال کو خرچ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔نبی کریم ﷺ نے مالی تنگدستی کے ایام میں جب سفرِ تبوک کا ارادہ فرمایا توآپﷺ نے اس سفر کے لیے 100اونٹوں کو مع سازوسامان خرچ کرنے والے کے لیے جنت کا اعلان فرمایا۔ حضرت عثمان ص نے موقعہ کو غنیمت جانا اور فوراً 100اونٹوں کے بدلے جنت کے خریدار بن گئے۔نبی کریمﷺ نے دوبارہ 100اونٹوں کے بدلے جنت کا اعلان فرمایا ۔دوبارہ حضر ت عثمان ص جنت کے حصول کے لیے 100اونٹوں کو آپ ﷺ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں۔نبی کریمﷺ اعلان فرماتے رہے اورحضرت عثمان ص لبیک کہتے رہے ۔ایک ہی مقام پر کھڑے ہوکرحضرت عثمان ص نے 700اونٹوں کو مع سازوسامان اللہ کے راستے میں پیش کردیا ۔اس فیاضی پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’بس کرو ،بس کرو اے عثمان ! آج کے بعد تم خواہ کوئی بھی عمل کرو تمہیں نقصان نہیں ہوسکتا‘‘ ۔ یہ توآپ ص کی فیاضی کی بات تھی اور جہاں تک آپ صکی حیا کی بات ہے تو خود نبی کریم ﷺ آپ کی حیا کا پاس کرتے تھے اور آپﷺ نے ایک موقعہ پر ارشاد بھی فرمایا کہ میں اس کی حیا کیسے نہ کروں کہ آسمان کے فرشتے بھی جس کی حیا کرتے ہیں۔ آپ صنے زندگی کے طویل روز وشب میں کسی کو گالی نہیں دی، کسی کا دل نہیں دُکھایا اور کسی کو اپنے ذاتی مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا ۔یہاں تلک کہ جب باغیوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کیا تو آپ نے اپنے گھرکے دفاع کے لیے آنے والے اکابر صحابہث کو پلٹ جانے کا حکم دیا ۔آپ ص نے ارشاد فرمایا کہ میں مدینۃ الرسول کو اپنی ذات کے لیے خون سے رنگین نہیں کرنا چاہتا ۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی ہم سب کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آپﷺ نے سیدنا حضر ت عثمان ص اور سیدنا حضرت علی ص کو داماد کے طور پر منتخب فرمایا اور اپنی امت کے لوگوں کی اس سمت راہنمائی فرمائی کہ داماد کو فیاض،باحیا اور با کردار ہونا چاہیے۔ آج کے دور کا بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ مسلمان معاشروں میں داماد کا انتخاب بالعموم خوشحالی اور معاشی استحکام کی بنیاد پر کیا جاتا ہے جبکہ اس کے کردار کو بہت کم ملحوظ رکھاجاتا ہے ۔نبی کریمﷺ کی احادیث دلالت کرتی ہیں کہ اگر کوئی دیندار اور خوش اخلاق انسا ن کسی کی بیٹی یا بہن کا رشتہ مانگے تو ایسی صورت میں انکار نہیں کرنا چاہیے ۔جب خوش اخلاق اور دیندار لوگوں کو رشتے نہیں دیے جائیں گے تو زمین پر فتنہ اور بہت بڑا فساد ظاہر ہوجائے گا ۔آج ہمارا معاشرہ شادی بیاہ کے معاملات میں جن مسائل سے دوچار ہے اس کی بنیادی وجہ رشتوں کے چنائو میں دین کو نظر انداز کرنا ہے۔ اللہ سے ڈرنے والا کوئی بھی شخص اپنی بیوی سے زیادتی نہیں کرتا۔اگر اپنی بیوی کی کسی بات پر راضی ہوگا تو محبت سے پیش آئے گااور اگر کسی بات پر ناراض ہوگا تو بھی عفو ودرگزر کے دامن کو نہیں چھوڑے گا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنی بہوکے صابرہ اور شاکرہ ہونے کی تمنا کی تھی اور اپنے بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام کو اس بیوی کے ساتھ رفاقت کا درس دیا تھا جو اللہ کی نعمتوں اور شوہرکے احسانات پر شکر کرنے والی تھی ۔آج ہمارے گھریلو تنازعات کی بہت بڑی وجہ ظاہر داری اور مادیت پرستانہ ذہنیت ہے جس نے ہمارے گھروں سے امن وسکون ختم کرکے رکھ دیا ہے ۔اگر ہم نبی پاک ﷺ کے اسوۂ حسنہ کو اپنا لیں اور داماد اور بہو کے انتخاب کے وقت صرف ظاہری دلکشی اور رعنائی سے ایک قدم آگے بڑھ کر لڑکے اورلڑکی کے اخلاق ،کرداراور دینداری کو اہمیت دیں گے تو یقینا ہمارے گھر انتشار اور افتراق سے پاک ہوکر امن کا گہوارہ بن سکتے ہیں ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved