سید ابراہیم رئیسی ہم سے جدا ہو گئے۔ ابھی ایک مہینہ پہلے وہ پاکستان کے دورے پر تھے اور اس دورے کو پاک ایران تعلقات کے ایک نئے باب کے طور پر دیکھا جا رہا تھا جس میں دونوں ملکوں کے مابین تجارتی و معاشی معاملات کے استحکام کو خصوصی درجہ حاصل تھا۔ سید ابراہیم رئیسی کی اچانک شہادت سے یہ اندیشہ سر اٹھانے لگا ہے کہ کہیں یہ باب ادھورا ہی تو بند نہیں ہو جائے گا؟ آئیے ان ایشوز کا تاریخی حوالوں سے اور عالمی سطح پر جاری سیاسی عوامل کو سامنے رکھ کر جائزہ لیتے ہیں۔
بلا شبہ ہمارا ہمسایہ ملک ایران ان دنوں آزمائش سے دوچار ہے۔ ایران کے صدر کی شہادت ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے جب مشرقِ وسطیٰ کا پورا خطہ سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ اسرائیل فلسطین پر حملہ آور ہے اور ایران نے فلسطینیوں کی دو ٹوک حمایت کا عزم کر رکھا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملے اور ردِ عمل میں ایران کی جانب سے اسرائیل پر میزائل داغے جانے کے بعد سے صورتحال مزید کشیدہ ہو چکی ہے۔ دوسری جانب روس یوکرین جنگ میں بھی ایران روس کا حامی ہے اور مبینہ طور پر روس کی مدد بھی کر رہا ہے جبکہ یہ سبھی جانتے ہیں کہ اس جنگ میں امریکہ اور مغرب یوکرین کی حمایت کر رہے ہیں اور اسے ہر طرح کی امداد فراہم کر رہے ہیں تاکہ روس کو نیچا دکھایا جا سکے۔ پھر ایران کے ایٹمی پروگرام کو لے کر بھی ایران اور امریکہ میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ یہ تو ابھی کل کی بات ہے کہ ایران اور امریکہ کے مابین اس پر ایک معاہدہ ہوا تھا جسے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دورِ حکومت میں ختم کر دیا تھا۔ اس ایشو کی چوتھی جہت یہ ہے کہ ایران کے چین کے ساتھ تعلقات ماضی قریب میں بہتر بلکہ مستحکم ہوئے اور ایران نے چین کے ساتھ ملٹی ملین منصوبوں پر دستخط بھی کیے ہیں‘ جبکہ چین اور امریکہ کی مخاصمت سے بھی سبھی واقف ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ اس معاملے کا پانچواں پہلو یہ ہے کہ چین کی ہی مدد‘ مصالحانہ کردار اور ثالثی کے نتیجے میں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری آئی ہے اور دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے ساتھ نہ صرف تجارت شروع کر دی ہے بلکہ دفاعی معاملات پر بھی بات چیت ہو رہی ہے۔ اب امریکہ کو کب برداشت ہے کہ جس ملک پر وہ پابندیاں عائد کرے‘ اس کا اپنے خطے میں کردار اتنا وسیع ہو جائے؛ چنانچہ ایران کی جانب سے علاقائی اور عالمی امور میں ہمیشہ آزادانہ اور پُرامن پالیسی اختیار کیے جانے کے باوجود اسے مختلف نوعیت کی پابندیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ امریکہ کی سخت معاندانہ پالیسی اور اسرائیلی جارحیت کے باوجود ایران نے علاقائی اور عالمی سطح پر یہ مقام ایک پُرامن اور اعتدال پسندانہ خارجہ پالیسی میں تسلسل قائم رکھ کر حاصل کیا ہے۔
درج بالا پانچوں معاملات امریکہ کو کھٹکتے رہتے ہیں؛ چنانچہ امریکہ کی جانب سے ایران کو مختلف قسم کی پابندیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ یہ پابندیاں اب بھی قائم ہیں‘ اور یہی وجہ ہے کہ تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود ایران معاشی مسائل کا شکار ہے۔ ان سارے معاملات کے ہنگام ملک کے سربراہ کا اچانک منظر سے ہٹ جانا ایک ہنگامی صورتحال کی غمازی کرتا ہے۔
ہر سانحہ اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ جاتا ہے جن کے جواب تاریخ‘ وقت‘ حالات و واقعات اور بین الاقوامی یا مقامی سطح پر کی جانے والی سیاست‘ سب مل کر تلاش کرتے ہیں۔ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں شہادت بھی اپنے اندر بہت سے سوالات لیے ہوئے ہے۔ یہ کہ حادثہ کیسے ہوا؟ ہیلی کاپٹر پرانا تھا یا موسمی خرابی کی وجہ سے سانحہ پیش آ گیا؟ ان خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ حادثہ ہوا نہیں بلکہ سٹیج کیا گیا ہے اور اس کے پیچھے ان قوتوں کا ہاتھ ہے جو ایران کے خلاف سرگرم رہی ہیں۔ اب حقیقت کیا ہے یہ تو تحقیقات‘ چھان بین اور معاملات کو گہرائی تک جانچنے کے بعد ہی پتا چلے گا‘ فی الحال یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایران کے لیے یہ ایک نازک مرحلہ ہے کہ وہ اپنے معاملات کو کیسے سنبھالے اور کیسے آگے بڑھے۔ ایک بات بڑی واضح طور پر کہی جا سکتی ہے کہ ایران میں پالیسیوں کا تسلسل رہتا ہے‘ یعنی جو پالیسی ماضی کے صدور یا حکمران اختیار کرتے رہے ہیں‘ انہی پالیسیوں کو بعد میں آنے والے حکمرانوں نے جاری رکھا۔ یوں ایران کی طویل المیعاد پالیسیاں تقریباً یکساں رہتی ہیں؛ چنانچہ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ حالات جو بھی ہوں‘ جیسے بھی ہوں ایران بہرحال عرب ممالک‘ اسرائیل‘ فلسطین‘ روس‘ چین اور پاکستان کے بارے میں اپنی پالیسیوں میں بہت زیادہ رد و بدل نہیں کرے گا۔
ابراہیم رئیسی حقیقتاً ایک مدبر سیاستدان تھے۔ ایران کے داخلی معاملات‘ اس خطے اور بین الاقوامی سیاسی منظر پر ان کی گہری نظر رہتی تھی۔ جب انہوں نے ایران کی صدارت سنبھالی تو ان کا ملک داخلی انتشار اور بیرونی پابندیوں کا شکار تھا اور معاشی مسائل گمبھیر ہوتے جا رہے تھے۔ انہوں نے بڑے مدبرانہ انداز میں ان تمام مسائل کو ہینڈل کیا۔ تین اگست 2021ء کو ایران کے صدر کا حلف اٹھانے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کی حکومت ایسا کوئی راستہ تلاش کرے گی جس کے تحت امریکہ ایران پر عائد پابندیاں اٹھا لے‘ تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ غیر ملکیوں کو یہ ڈکٹیٹ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے کہ معیشت کو کیسے چلایا جاتا ہے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ ان کا ملک دراصل مشرقِ وسطیٰ کے استحکام کا ضامن ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ایران پر کسی بھی نوعیت کے بیرونی دباؤ کے سامنے مزاحم ہوں گے‘ لیکن ایران کے عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے اور وسعت دینے کے لیے بھی ہر ممکن اقدام کیا جائے گا۔
مرحوم سید ابراہیم رئیسی نے اپنا پونے تین سالہ دورِ صدارت اپنی پہلی تقریر میں کی گئی باتوں اور وعدوں کی پاسداری میں گزار دیا۔ انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے اور پاکستان کے دورے پر آئے۔ یہ طویل عرصے بعد ایرانی حکومت کے کسی اعلیٰ عہدیدار کا دورۂ پاکستان تھا۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ ایران کے تعلقات بہتر بنانے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کیے۔ سید ابراہیم رئیسی ایران پر عائد امریکی پابندیوں کو تو خاطر خواہ کم نہ کرا سکے تاہم معاشی بحران کے باوجود انہوں نے اپنے عوام کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ امید ہے ایران کے عالمی برادری کے ساتھ تعلقات میں پہلے والا تسلسل قائم رہے گا‘ اور یہ بھی توقع ہے کہ پاک ایران تعلقات کو استحکام بخشنے کے حوالے سے سید ابراہم رئیسی جن اقدامات کے خواہاں تھے‘ مستقبل میں دونوں ملکوں کی لیڈرشپ ان کا خیال رکھے گی‘ لیکن صدر ابراہیم رئیسی نے اپنے مختصر دورِ صدارت میں اپنے ملک‘ مشرقِ وسطیٰ‘ جنوبی ایشیا‘ چین‘ روس‘ یورپ اور امریکہ کے ساتھ تعاملات کو جس سرگرمی کے ساتھ آگے بڑھایا وہ تادیر یاد رکھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ تمام شہدا کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ان کی اگلی منزلیں آسان فرمائے‘ آمین!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved