تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     24-05-2024

معیشت کی بہتری اور سیاسی استحکام

میاں نواز شریف نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی مجلسِ عاملہ کے اجلاس سے خطاب کے دوران اپنی حکومتوں کے بار بار خاتمے کا جو ذکر کیا ہے‘ بین السطور میں اس کا یہی خلاصہ کیا جا سکتا ہے کہ مقتدرہ کی پالیسیوں پر انہیں کچھ تحفظات ہیں۔ ان کی اس سوچ سے مقتدرہ بھی وسوسوں کا شکار ہے۔ اس وقت وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی اس کی طفیلی جماعت تصور کی جا رہی ہے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پیپلز پارٹی کے گورنر صرف گورنر ہاؤس کی چار دیواری تک ہی محدود ہیں۔ گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کی وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور سے حالیہ لفظی جنگ کے بعد انہیں صوبے میں اپنی پوزیشن کا بخوبی اندازہ ہو چکا ہوگا‘ اور یہ احساس بھی کہ گورنری محض ایک علامتی عہدہ ہے۔ خیبر پختونخوا سے تو پیپلز پارٹی پہلے ہی ختم ہو چکی ہے‘ پنجاب میں بھی وہ آہستہ آہستہ اپنا وجود ختم کر بیٹھے گی۔ ملتان میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات میں چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے اپنے والد کے اثر و رسوخ ہی کے سبب کامیاب ہوئے ہیں۔ مقابلے پر مسلم لیگ (ن) نے اپنا نمائندہ بھی کھڑا نہیں کیا تھا۔ اس مفاہمت نے ہی سید قاسم گیلانی کی جیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
بات ہو رہی تھی میاں نواز شریف کے مرکزی مجلسِ عاملہ سے خطاب کی‘ انہوں نے اپنے خطاب میں ماضی کے دکھ اور اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے نظامِ عدل اور مقتدرہ کو موجودہ حالات کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ میاں نواز شریف پارٹی کی صدارت سنبھالنے کے بعد سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا‘ مولانا فضل الرحمن‘ اختر مینگل‘ ڈاکٹر عبدالمالک اور محمود خان اچکزئی سے مل کر کوئی مشترکہ بیانیہ تشکیل دے سکتے ہیں‘ جوبہر صورت حکومت مخالف ہو گا۔ نواز شریف جس اندرونی اضطراب کا اظہار کر رہے ہیں‘ اس کو طشت ازبام کرنا ابھی ان کے لیے آسان نہیں ہے۔ ان کی ٹیم میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو جنرل باجوہ سے مسلسل رابطے میں رہے۔ شنید ہے کہ میاں شہباز شریف بھی پرویز مشرف کے دستِ راست بریگیڈیئر (ر) نیاز کی وساطت سے فوائد سمیٹتے رہے ہیں۔
نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ جب 2013ء میں میری حکومت بنی تو میں سب سے پہلے بنی گالا عمران خان کے پاس گیا اور انہیں کہا کہ مل کر ملکی ترقی کے لیے کام کرتے ہیں۔پہلے تو عمران خان نے ہامی بھر لی لیکن پھر مجھ سے تعاون کرنے کے بجائے لندن چلے گئے ۔ ڈاکٹر طاہر القادری ‘ پرویز الٰہی اور جنرل ظہیر الاسلام بھی وہاں پہنچ گئے۔ سب نے مل کر حکومت کے خلاف سازش کا جال بُنا اور 2014ء میں ڈی چوک پہ دھرنا دے دیا۔ یہ دھرنا حکومت نہیں بلکہ پاکستان اور اس کے عوام کے خلاف سازش تھی‘ پاکستان میں سی پیک کو روکنے کی سازش تھی۔ نواز شریف نے اپنے خطاب میں جسٹس (ر) ثاقب نثار کی جس آڈیو لیک کا حوالہ دیا‘ اس کا مکمل ریکارڈ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریکارڈ روم میں محفوظ ہے۔ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم بھی غالباً اسی آڈیو کا حوالہ دیتے رہے۔ اب چونکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے تو اس آڈیو لیک کے بارے میں ازسرِنو حکومتی سطحی پر انکوائری ہونی چاہیے۔ فرانزک رپورٹ کے بعد ذمہ داران کے خلاف آسانی سے مقدمہ درج کرایا جا سکتا ہے۔
میاں نواز شریف نے جن حلقوں کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے انہیں ان کے خلاف ٹھوس ثبوت و شواہد کے ساتھ اپنا مؤقف سامنے لانا چاہیے تھا۔ آئین و قانون کی بالادستی کے ذمہ داران کو ان الزامات کی جانچ پڑتال کے لیے ایک ٹروتھ کمیشن بنا کر اصل حقائق سامنے لانے چاہئیں کیونکہ اس کے بغیر ملک کا سیاسی استحکام اور ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہونا ممکن نہیں۔ 2014ء سے لے کر تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے تک‘ تمام معاملات کی عدالتی تحقیقات کی تجویز آئی ایس پی آر کے سربراہ اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں بھی دے چکے ہیں اور موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کر رہے ہیں۔
اگر ملک میں سیاسی استحکام کے قیام کی بات کی جائے تو موجودہ صورتحال میں سیاسی استحکام کے قیام کے آثار بہت کم نظر آ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں آزاد جموں و کشمیر میں پیدا ہونے والی صورتحال سے حکومتی کمزوریاں مزید عیاں ہوئی ہیں۔ ملکی سلامتی کے لیے ان کمزوریوں کا دور کیا جانا بہت ضروری ہے۔ بادی النظر میں اتحادی حکومت دباؤ کا شکار نظر آتی ہے۔ چھ ججز کے خط سے نظامِ عدل میں تقسیم کا تاثر بھی اُبھر رہاہے۔ گزشتہ دنوں پریس کانفرنسوں میں عدلیہ کے بارے میں جس انداز سے گفتگو کی گئی ہے ‘ وہ نہیں کی جانی چاہیے تھی۔اب تین جون کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے ایک اہم کیس کی سماعت ہونی ہے۔ سب کی نگاہیں اس کیس پر ٹکی ہوئی ہیں۔ اگر اگلی سماعت میں بھی تین رکنی بینچ کا فیصلہ برقرار رکھا گیا تو اتحادی حکومت دو تہائی کی اکثریت سے مکمل محروم ہو جائے گی۔اگر لارجر بنچ کی طرف سے مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو تفویض کر دی گئیں تو پھر قومی اور صوبائی اسمبلی میں قانون سازی کے حوالے سے حکومتی اراکین دباؤ میں رہیں گے۔ ابھی خیبرپختونخوا میں سینیٹ کی گیارہ نشستوں پر انتخاب بھی ہونا ہے‘ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملنے کی صورت میں خیبرپختونخوا میں سینیٹ کی تمام نشستیں سنی اتحاد کونسل کے پاس چلی جائیں گی‘ جس کے بعد سینیٹ میں اکثریت سنی اتحاد کونسل کے پاس آ جائے گی۔سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملنے کی صورت میں وہ پنجاب میں سینیٹ کے الیکشن کو چیلنج کر سکتی ہے کیونکہ مخصوص نشستیں ملنے کے بعد سنی اتحاد کونسل پنجاب میں سینیٹ کی ایک جنرل نشست اور ایک ٹیکنوکریٹ نشست کی دعویدار بن جائے گی۔
آج کل پریس کانفرنسوں اور سیاسی بیانات میں ایک دوسرے کو خوب آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے۔ ماضی کے حکام سے سرزد ہونے والی غلطیوں کی آڑ میں موجودہ قیادت کو تنقید کا نشانہ بنانا کسی صورت درست نہیں ہے۔ لوگ ثبوت و شواہد کے بغیر دوسروں پر الزامات عائد کرکے چلتے بنتے ہیں‘ یہ غلط روش ہے۔ اگر کسی کے پاس اس حوالے سے ثبوت موجود ہیں تو عدالتوں میں پیش کرے‘ اپنے الزامات کو درست ثابت کرے اور پھر عدالتیں جانیں اور ان کا کام۔ لیکن کسی بھی ثبوت کے بغیر دوسروں پر انگلی اٹھانے اور الزامات لگانے کی روش کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ فیصل واوڈا نے بھی چند سابق افسران پر جو الزامات عائد کیے ہیں‘ انہیں بلا ثبوت اور ٹھوس شواہد کے ایسی گفتگو سے احتراز کرنا چاہیے۔ مقبولیت حاصل کرنے کا یہ طریقہ کسی کو ذاتی فائدہ تو پہنچا سکتا ہے لیکن یہ عمل ملکی مفاد میں ہرگز نہیں ہے۔ اس سے پیشتر قومی اسمبلی کے فلور پر 13مئی کو وزیر دفاع نے صدر ایوب خان کے حوالے سے جو کچھ کہا‘ وہ ان کے عہدے کے شایانِ شان نہیں تھا۔ ان کی اس گفتگو کو بھارتی چینلز نے اپنے مفاد میں استعمال کرتے رہے۔ ملک کے کسی بھی طبقہ ہائے فکر کو کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے ملکی مفادات کو مدِنظر رکھنا چاہیے۔ جب تک تمام سٹیک ہولڈرز ملکی مفادات کی خاطر ایک پیج پر نہیں آئیں گے‘ نہ ملک میں سیاسی استحکام قائم ہو سکے گا اور نہ ہی ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہو سکے گی کیونکہ ملکی معیشت کی بہتری ملک میں سیاسی استحکام کے قیام سے مشروط ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved