امام احمد رضا قادری رحمہ اللہ تعالیٰ سے ایک بزرگ نے فرمائش کی: ''میرا حج پر جانے کا ارادہ ہے اور بھی لوگ جاتے رہتے ہیں‘ آپ حج کے طریقے اور آداب پر کچھ ضروری باتیں لکھ کر طبع کرا دیں تاکہ سب کو فائدہ ہو‘‘۔ آپ نے قلم برداشتہ ''انوارُ البَشَارَۃ فِیْ مَسَائِلِ الْحَجِّ وَالزِّیَارَۃ‘‘ کے عنوان سے ایک مفصل رسالہ لکھ کر طبع کرا دیا۔ ہم اس رسالے کے بعض مندرجات کو عام حجاج کے استفادے اور اصلاح کیلئے آسان انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ آپ نے لکھا: ''سب سے اہم یہ کہ اس سفر سے مقصود صرف اور صرف اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولِ مکرمﷺ کی رضا ہونی چاہیے۔ حج کیلئے روانگی سے قبل جس کا قرض یا امانت ہو‘ اُسے واپس کرے‘ اگر فوری طور پر پورے قرض کی واپسی کے وسائل نہیں ہیں‘ تو جو ادا کر سکتا ہو وہ ادا کرے اور باقی کیلئے اُن سے مہلت طلب کرے۔ جن کا ناحق مال لیا ہو‘ انہیں واپس کرے یا معاف کرائے‘ مالک کا پتا نہ چلے تو اتنا مال فقیروں پرصدقہ کرے‘ کیونکہ ناجائز طریقے سے حاصل کیا ہوا مال درحقیقت اُس کی ملکیت نہیں ہوتا‘ پس جتنی جلدی ممکن ہو اُسے اپنی مِلک سے نکالے۔ ماضی کی قضا نمازیں‘ روزے‘ زکوٰۃ‘ الغرض جتنی عبادات واجب تھیں اور اُن سے عہدہ برآ نہیں ہوا‘ اللہ تعالیٰ سے اس حکم عدولی پر صِدقِ دل سے توبہ کرے اور پھر شریعت کے مطابق اُن کی تلافی کرے‘ اس کے باوجود اُن کا قبول ہونا اللہ تعالیٰ کے کرم پر موقوف ہے۔ بالغ ہونے کے بعد جتنی عبادات اُس کے ذمے لازم ہیں‘ اُن کی قضا کا اہتمام کرے‘ اگر یہ بے شمار ہیں‘ تو اندازے کے مطابق ان سے عہدہ برآ ہونے کو حسبِ توفیق اپنی زندگی کے معمولات کا حصہ بنائے۔ والدین‘ شوہر الغرض جن حق داروں کی اجازت کے بغیر سفر مکروہ ہے حتی الامکان انہیں رضا مند کرے‘ اگر وہ کسی طور پر بھی رضامند نہ ہوں تو پھر حجِ فرض پر چلا جائے‘ کیونکہ اُن کا روکنا اللہ کے فرض سے روکنا ہے۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: ''ایسے امور میں (غیر اللہ کی) اطاعت جائز نہیں ہے‘ جن میں اللہ کی نافرمانی لازم آئے‘ (حقداروں کی) اطاعت صرف نیک کاموں میں روا ہے‘‘ (مسلم: 1840)۔ کسی کے ذہن میں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جب فریضۂ حج ادا کرنے کیلئے ہر صورت جانا ہی ہے‘ تو والدین اور شوہر سے اجازت طلب کرنے کا کیوں کہا گیا‘ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اولاد اور بیوی کیلئے سعادت اور اجر کا باعث ہے۔ والدین اور شوہر کو بھی چاہیے کہ بخوشی اجازت دیں۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور حق سے تجاوز کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو‘‘ (المائدہ: 2)۔
سفرِ حج میں عورت کو جب تک شوہر یا مَحرم کی رفاقت میسر نہیں‘ وہ حج پر نہیں جا سکتی۔ اگر جائے گی تو فقہی اعتبار سے حج تو ادا ہوجائے گا‘ مگر گناہگار ہو گی۔ مصارفِ سفر اور زادِ راہ مالِ حلال سے ہوں‘ ورنہ حج کے قبول ہونے کی امید نہیں ہے‘ البتہ فرض ساقط ہو جائے گا۔ حسبِ توفیق اپنی ضرورت سے زیادہ زادِ راہ لے کر جائے تاکہ اپنے احباب اور ضرورت مندوں پر بھی کچھ خرچ کر سکے‘ یہ حجِ مبرور کی نشانی ہے۔ مسائلِ حج وعمرہ اور زیارات پر کوئی عام فہم کتاب لے کر جائے یا کسی عالم سے رہنمائی حاصل کرے یا بہارِ شریعت حصہ ششم یا حج وعمرہ پر کسی مستند عالم کی کتاب اپنے پاس رکھے۔ اکیلے سفر نہ کرے کہ یہ منع ہے‘ البتہ بے دین رفیقِ سفر سے اکیلا رہنا بہتر ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ''جب کسی سفر میں تین افراد ہوں‘ تو وہ آپس میں سے ایک کو امیر بنا لیں‘‘ (ابودائود:2608)۔ اُس شخص کو امیر بنانا بہتر ہے جو بااخلاق‘ دین دار‘ معاملہ فہم اور خدمت کا جذبہ رکھتا ہو۔
حدیثِ پاک میں ہے: ''جس نے اپنے بھائی سے (اپنے کسی قصور کی) معافی مانگی اور اُس نے اسے قبول نہیں کیا‘ تو اُسے ایسا ہی گناہ ہو گا جیسے مالی واجبات وصول کرنے والے کو خیانت پر ہوتا ہے‘‘ (ابن ماجہ: 3718)۔ اپنے خطارکار کو معاف کرنا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے‘ النور: 22 میں خطاکاروں کو معاف کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ''اور چاہیے کہ وہ معاف کر دیں اور درگزر کریں‘ کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ اللہ تمہاری خطائوں کو بخش دے‘‘۔ یعنی اگر یہ چاہتے ہو کہ اللہ تمہارے قصوروں کو معاف فرمائے تو تم بھی اپنے قصوروار کو معاف کر دیا کرو۔ رخصت ہوتے وقت سب سے دعا کی درخواست کرے‘ گھر پر چار نفل پڑھ کر نکلے‘ یہ واپسی تک اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے حفظ وامان کا وسیلہ بنیں گے اور گھر سے نکلتے وقت ''بِسْمِ اللّٰہِ وَآمَنْتُ بِاللّٰہِ وَتَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ‘‘ پڑھ کر یہ دعا مانگے: ''اے اللہ! ہم تیری پناہ چاہتے ہیں کہ ہم لغزش کھائیں یا کوئی ہمیں لغزش دے‘ ہم گمراہ ہوں یا کوئی ہمیں گمراہ کرے‘ ہم کسی پر زیادتی کریں یا کوئی ہم پر زیادتی کرے‘ ہم کسی سے ہٹ دھرمی کریں یا کوئی ہم سے ہٹ دھرمی کرے‘‘۔ اسی طرح گھر سے نکلتے وقت یہ دعا مانگے: ''اے اللہ! ہم تجھ سے اس سفر میں نیکی اور تقویٰ کا سوال کرتے ہیں اور تیرے پسندیدہ کاموں کی توفیق طلب کرتے ہیں‘ اے اللہ! اس سفر کو ہمارے لیے آسان فرما دے اور اس کی مسافت کو ہمارے لیے لپیٹ دے (یعنی آسان فرما دے)‘ اے اللہ! تُو سفر میں ہمارا رفیق ہے اور گھر کا نگہبان بھی تو ہی ہے۔ اے اللہ! ہم سفر کی مشقتوں‘ تکلیف دہ صورتِ حال پیش آنے اور اپنے مال اور اہل میں ناخوشگوا ر تبدیلی آنے سے تیری پناہ چاہتے ہیں‘‘ اور جب سفر سے واپس آئے تو مذکورہ بالا کلمات کے بعد یہ دعا مانگے: ''ہم (عافیت کے ساتھ) لوٹنے والے‘ (اللہ کی بارگاہ میں) توبہ کرنے والے‘ (اُس کی توفیق سے) عبادت کرنے والے اور اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں‘‘ (مسلم: 1342)۔ بلندی پر چڑھتے ہوئے ''اللہ اکبر‘‘ اور پستی کی طرف اترتے وقت ''سبحان اللہ‘‘ کہے۔ کوئی چیز گم ہوجائے تو ''اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن‘‘یا ''اِنَّہٗ عَلٰی رَجْعِہٖ لَقَادِر‘‘ یا ''یَا جَامِعَ النَّاسِ لِیَوْمٍ لَّارَیْبَ فِیْہِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَاد اِجْمَع بَیْنِیْ وَبَیْنَ ضَالَّتِیْ‘‘ پڑھے۔
اگرچہ ماضی کے مقابلے میں آج کل حجاجِ کرام اور زائرین کو جو سہولتیں اور آسائشیں میسر ہیں‘ پہلے ان کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود حج مشقت کی عبادت ہے‘ انسانی ہجوم نے مشقت کی نئی صورت اختیار کر لی ہے‘ اس میں تخفیف کیلئے سعودی حکومت ہر سال وسائل صَرف کرتی ہے۔ توسیع‘ تزئین اور تعمیر کا کام جاری رہتا ہے۔ انسانوں کے ہجوم میں ہر سال اضافہ ہوتا رہتا ہے‘ اس لیے حجّاج کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بہت سے لوگ اپنا زیادہ تر وقت معلّمین اور اُن کے کارندوں کو کوسنے اور گِلے شکوے میں گزار دیتے ہیں‘ جس کا ماحصل غیبت اور بدگوئی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس کی بجائے انہیں حسبِ توفیق طواف‘ نوافل‘ تلاوت‘درود واذکار وتسبیحات پڑھنی چاہئیں۔ سیلفی بنانا ایک عالَمی متعدی بیماری بن چکی ہے‘ اس کی کثرت بھی عبادات کی حضوری سے غافل کر دیتی ہے اور لوگ اس کوشاں رہتے ہیں کہ ہر مرحلے کی تصویریں وٹس ایپ کے ذریعے اپنے احباب اور عزیز وں کو ارسال کریں‘ کیا ہی اچھا ہو کہ وہ یہ وقت اُن کیلئے دعا میں صرف کریں۔ آپﷺ کا فرمان ہے: ''کسی کے پسِ پشت اُس کیلئے دعائے خیر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہے‘‘ کیونکہ اُس کا محرک صرف اخلاص ہوتا ہے‘ سامنے کی دعا میں تو ریا کا امکان ہو سکتا ہے‘ لیکن غیاب کی دعا میں ہرگز نہیں۔ حجاجِ کرام اور زائرین کو چاہیے کہ اپنے لیے‘ اپنے والدین وجملہ اہلِ ایمان آبائو اجداد‘ اپنے حقداروں‘ احباب اور عزیزوں کیلئے دعا کرنے کے ساتھ ساتھ امتِ مسلمہ اور اپنے وطنِ عزیز کیلئے بھی دعا کرتے رہیں۔
ہمارے ہاں حجاجِ کرام کی تربیت کے پروگرام تو بہت ہوتے ہیں‘ ارکانِ حج کی ادائیگی کے طریقے بتائے جاتے ہیں‘ لیکن میرے نزدیک سب سے اہم شعبہ نظر انداز ہو جاتا ہے اور وہ ذہنی اور فکری تطہیر ہے‘ حج و عمرہ اور عبادات وزیارات کی سعادات کو سمیٹنے کیلئے یہ شعبہ سب سے اہم ہے‘ پس اس پر توجہ دینی چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved