ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک تفصیلی رپورٹ میں ڈرون حملوں کو جنگی جرم قرار دیا ہے۔ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں منظرِ عام پر آئی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف امریکی دورے پرہیں اور صدر اوباما کے ساتھ ملاقات میں ڈرون حملوں کو بند کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ رپورٹ کے بعد ہر طرف سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ ایمنسٹی انٹر نیشنل نے ہمارے موقف کی تائید کی ہے۔ رپورٹ کی ٹائمنگ سے‘ ڈرون حملوں کے بارے میں پاکستانی موقف کو سہارا ملا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ڈرون حملوں میں بے گناہوں کی ہلاکتوں کو کم و بیش دس سال ہونے کو آئے ہیں۔ اس عرصہ میں وقفے وقفے سے یا کبھی تواتر کے ساتھ، پاکستان کی سر زمین، ڈرون حملوں کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ ان حملوں میں بیشتر بے گناہ شہری، عورتیں، معصوم بچے مارے جاتے رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم نے امریکہ کے ان انسانیت سوز غیر اخلاقی حملوں کو جنگی جرم قرار دینے میں دس برس انتظار کیوں کیا؟ احتجاج کی آواز پہلے کیوں نہیں بلند کی گئی؟ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی ریسرچ رپورٹس کو دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تو پھر یہ تنظیم انسانوں پر ہونے والے امریکی ظلم کے خلاف اتنا عرصہ خاموش کیوں رہی؟ چلیں‘ دیر آید درست آید۔ امریکہ کو اگر جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا ہے تو کیا اس سے واقعی کچھ فرق پڑے گا؟ یا یہ بات ٹاک شوزاور بحث و مباحثہ کے لیے ایک نئے موضوع کے علاوہ کچھ نہیں ہو گی اور پھر میرے شہر کا قاتل یہ کہہ کر کندھے اچکائے گا کہ ع ہم پہ الزام تو ویسے بھی ہے ایسے بھی سہی…! امریکہ کی تو پوری تاریخ جنگی جرائم سے بھری پڑی ہے۔ امریکہ نے ویتنام کے خلاف چودہ سال جنگ لڑی۔ 20لاکھ ویت نامی موت کے گھاٹ اتارے۔ نیپام بم کا استعمال کیا۔ نیپام بم کے شعلوں سے جلتی، امن کی تلاش میں بھاگتی ویت نامی کم سن بچی کی تصویر آج بھی امریکہ کے خلاف جنگی جرم کا ثبوت ہے کہ جنگوں میں معصوم بچوں کو بھی نہ بخشا گیا۔ عراق کے خلاف جارحیت میں یورینیم کا استعمال آج بھی عراقی بچوں میں خون کے کینسر کا سب سے بڑا سبب ہے۔ افغانستان کی سر زمین پر امریکی جارحیت نے ہزاروں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ قیدی طالبان کو ہوا بند کنٹینروں میں بند کر کے بے دردی سے قتل کیا گیا۔ امریکہ کے اس ظلم کے خلاف بھی ایمنسٹی انٹر نیشنل کی ایک رپورٹ موجود ہے جس میں امریکہ کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ جنیوا کنونشن کی رو سے یہ قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان پر مقدمات چلا کر مرتکب افراد کو سزائیں دینی چاہئیں۔ عراق جنگ کے دوران ہسپتالوں، سکولوں اور پر امن بستیوں پر حملے، بغداد میں ہلال احمر کے ہسپتال پر بمباری، نصیریہ میں پانی، خوراک اور دوائوں کی بندش سے سینکڑوں بچوں کی ہلاکتیں، جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزیاں ہیں۔ ڈیزی کٹر اور کلسٹر بموں کے ہولناک تجربات کے بعد اب، امریکہ ڈرون حملوں کی نئی جنگی تکنیک کے کامیاب تجربات، کر کے اپنی تیل اور اسلحہ سازی کی صنعت کے منافع میں اضافہ کر رہا ہے۔ ویتنام جنگ میں تو امریکہ نے اپنے 58ہزار فوجیوں کا نقصان کیا تھا مگر ڈرون حملے امریکی فوجیوں کے لیے محفوظ ترین ہیں۔ امریکی مصنفہ میڈیا بنجمن اپنی کتابDrone War-fare Killing by Remote Controleمیں لکھتی ہیں کہ ڈرون طیارے کو آپریٹ کرنے ولا پائلٹ جنگ کے حقیقی میدان سے ہزاروں میل دور اپنے شکار کو نشانہ بناتا ہے۔ ڈرون نشانے پر گرے تو پائلٹ اپنے محفوظ کمرے میں بیٹھے ہوئے دیکھتا ہے۔ انسانوں کے پرخچے اڑاتے ہوئے، وہ ساتھ ہی کافی بریک بھی انجوائے کرتا رہتا ہے۔ یوں امریکہ دیدہ دلیری سے پوری دنیا میں آتش و آہن کا کھیل کھیل رہا ہے۔ نہتے معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار کر جنیوا کنونشن… جیسے لاء آف وار کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ جارج ڈبلیو بش کو باقاعدہ جنگی مجرم قرار دیا گیا۔ بش ہی کیا امریکہ کا ہر صدر کسی نہ کسی جنگی جارحیت میں ملوث رہا ہے۔ مگر آج تک کس کو اس جنگی جرم کی سزا دی گئی؟؟ حقیقت یہ ہے کہ جنیوا کنونشن جو 1949ء میں چار معاہدوں کی صورت میں ایک عالمی قانون کا حصہ بنا، محض ایک ردّی کے ٹکڑے سے زیادہ کی اہمیت نہیں رکھتا اس کنونشن کی شقیں، انسانی حقوق کی پاسداری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ان کی رو سے تو شہری علاقوں میں سکولوں میں ہسپتالوں میں، ریڈ کراس کے تحت قائم انسانی خدمت کے اداروں اور طبی مراکز پر بمباری کرنا قانوناً جرم ہے۔ مگر تصویر اس کے بالکل برعکس ہے۔ سو ایسے حالات میں جب غریب ملکوں کے بسے بسائے شہر، سپر پاور کے جدید ترین مہلک جنگی ہتھیاروں کی تجربہ گاہ ہوں، عالمی امن کے لیے قائم ہونے ولا سب سے بڑا ادارہ اقوام متحدہ‘ امریکہ کا یاج گزار ہو، وہاں ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی دس اور رپورٹیں بھی آجائیں تو ان کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسی رپورٹس وقتی طور پر میڈیا میں جگہ بناتی ہیں اور پھر ان کے الفاظ، اپنی بے بسی پر خود شرمندہ ہو کر خاموشی کی گہرائیوں میں اُتر جاتے ہیں کیونکہ جن عالمی اداروں نے امن کا پر چار کرنا ہے جنگی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے، وہی تو قاتل کے طرف دار ہیں پھر کیسا انصاف اور کیسا امن؟ اس وقت امریکی امداد بحال ہونے پر جو خوشیاں منائی جا رہی ہیں دیکھئے کب ماتم میں ڈھلتی ہیں۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ امداد اور بھیک کے عوض امریکی دہلیز پر ہم نے کیا نذرانہ پیش کیا۔ ہم بھی امریکیوں کی طرح اس حقیقت پر یقین رکھتے ہیں کہ There is no free lunch
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved