لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ محمد صادق الرشید ابراہیم عباسی ( ایس ایم عباسی) کو گورنر سندھ کے عہدے سے جنرل ضیاالحق نے ہٹایا تو وہ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد راولپنڈی شفٹ ہوگئے ۔ وہ جنرل ضیاکے مارشل لاء میں سب سے طویل عرصے تک گورنر سندھ رہے۔ سابق بیوروکریٹ سلمان فاروقی نے بھی کراچی میں اُن کے ساتھ طویل عرصے تک کام کیا تھا۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے کافی عرصہ بعد سلمان فاروقی کو ایک دن سابق گورنر ایس ایم عباسی کا پیغام ملا کہ وہ ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ جب سلمان فاروقی راولپنڈی میں جنرل ایس ایم عباسی سے ان کے گھر پر جا ملے تو انہیں علم نہ تھا کہ وہ کتنے دکھی تھے۔انہوں نے سلمان فاروقی سے غمگین لہجے میں پوچھا کہ اُن کی بیٹی کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا ؟ بولے: تمہیں تو پتہ ہے میں نے سندھیوں کے لیے کیا کچھ کیا۔پھر میری بیٹی کے ساتھ یہ سلوک کیوں؟سلمان فاروقی حیران تھے کہ ایسا کیا ہوا کہ ایک نفیس اور شاندار انسان اور سابق گورنر ہرٹ ہوا ۔جنرل ایس ایم عباسی کی اس شدید شکایت کے پیچھے ایک کہانی تھی جو بعد میں کھلی۔
جس گورنر سندھ ایس ایم عباسی کو سلمان فاروقی جانتا تھا وہ مختلف قسم کا فوجی افسر تھا۔ ان کا تعلق ریاست بہاولپور کے شاہی خاندان سے تھا۔ ایک خاندانی انسان اور شاندار افسر۔ وہ پرانے دور کے جنٹلمین ٹائپ افسر تھے۔ جب جنرل ضیا نے مارشل لاء کے بعد جنرل عباسی کو سندھ کا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لگایا تو وہ دوسرے صوبوں کے فوجی گورنرز کی نسبت بہت مختلف ثابت ہوئے۔ جنرل عباسی نے اس دوران جن افسران کے ساتھ کام کیا یا جن کا واسطہ اُن سے رہا ان سب کو اپنی شخصیت اور فیصلوں سے متاثر کیا‘ ان میں سلمان فاروقی بھی شامل تھے۔ 1983ء تک سلمان فاروقی نے ایس ایم عباسی کے ماتحت مختلف محکموں کے سیکرٹری کے طور پر کام کیا ‘ جن میں ٹائون پلاننگ‘ لوکل گورنمنٹ‘ رورل ڈویلپمنٹ‘ پبلک ہیلتھ انجینئر نگ‘ کچی آبادی‘ صنعت و پیداوار اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن شامل تھا۔ اس دوران سلمان فاروق کو گورنر عباسی کی جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اُن کی fairness تھی۔ ہر چیز میں انصاف اور ایمانداری کے قائل گورنر میں ایک aristocrate والی خوبیاں موجود تھیں جو آپ کو اس سے متاثر ہونے پر مجبور کر دیتی تھیں۔ جنرل عباسی کی ذہانت اور مالی معاملات میں ایمانداری مشہور تھی۔ وہ ان معاملات میں کلین انسان تھا۔ اس کے علاوہ وہ ایک پرائیویٹ ٹائپ انسان تھا‘ اپنے سویلین کولیگزیا ماتحتوں سے زیادہ میل جول نہیں رکھتا تھا۔ وہ اپنے بارے میں کسی کو معلومات دینے یا اپنے بارے گفتگو کرنے سے پرہیز کرتااور نہ ہی اسے شوق تھا کہ وہ اپنے کولیگز یا ماتحتوں سے ان کی ذاتی انفارمیشن حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ وہ اپنی دنیا میں رہنے والا مختلف قسم کا جنرل تھا۔ جنرل عباسی کے چند دوست تھے اور وہ سیاستدانوں ‘ بزنس مینوں اور افسروں سے کوسوں دور رہتا تھا۔ وہ لکھتا اور بولتا بہت اچھا تھا۔ اپنے بہاولپور کے شاہی بیک گراؤنڈ اور آرمی جنرل ہونے کے باوجود ایس ایم عباسی میں ایک اہم خوبی تھی کہ وہ غریبوں کے ساتھ بہت کمفرٹ ایبل رہتا تھا۔ وہ پوری توجہ اور ہمدردی سے اُن کے مسائل اور دکھ درد کی کہانیاں سنتا اور آئوٹ آف وے جا کر ان کے مسائل حل کرتا۔ جہاں وہ بڑے بڑے سیاستدانوں‘ بزنس مینوں اور دیگر بڑے لوگوں سے دور رہتا تھا اتنا ہی وہ غریبوں کو توجہ دیتا تھا۔ وہ سندھ کے گورنر ہاؤس کے محل نما گھر میں بھی رہنا پسند نہیں کرتا تھا۔ جنرل عباسی کے کسی رشتہ دار نے کبھی بھی کسی سرکاری افسر کو کسی کام یا فیور کے لیے کبھی فون نہیں کیا تھا۔جنرل عباسی کے اندر ایک خوبی یہ تھی کہ وہ بڑے سے بڑے دبائو کے آگے ڈٹ جاتا تھا جس کی وجہ سے اس کا کئی دفعہ اپنے سینئرز کے ساتھ پھڈا بھی ہوا۔
ایک دفعہ یوں ہوا کہ ایک اہم سعودی شہزادے کا کوئی کام تھا۔ جنرل ضیا اس شہزادے کو اکاموڈیٹ کرنا چاہتا تھا۔ جنرل ضیا اس شہزادے کو کراچی کڈنی ہل پارک گفٹ کرنا چاہ رہا تھاجہاں وہ محل بنانا چاہتا تھا۔ جنرل عباسی نے سیکرٹری سلمان فاروقی کو بلایا اور مشورہ کیا کہ کیا کرنا چاہیے۔ سلمان فاروقی نے گورنر کو بتایا کہ اگر انہوں نے پارک الاٹ کر دیا تو وہ سندھ کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر اپنے اس فیصلے کی خلاف ورزی کریں گے جو انہوں نے کچھ عرصہ پہلے کیا تھا کہ پارک‘ سپورٹس گراؤنڈز‘عوامی سہولت کی زمینوں کا تحفظ کیا جائے گا۔ جنرل عباسی فوراً مان گئے کہ کڈنی ہل پارک الاٹ نہیں ہوسکتا‘سعودی شہزادے کو کسی اور جگہ پلاٹ دے دیا جائے۔ گورنر عباسی جنرل ضیاکے تمام تر دبائو کے باوجود ڈٹ گیا اور پلاٹ نہیں دیا۔ گورنر عباسی نے ایک بات ثابت کی کہ مارشل لاء میں بھی عوام فرینڈلی پالیسیاں اور ریفارمز کی جاسکتی ہیں۔ اگرچہ وہ عوامی ووٹوں سے منتخب نہیں ہوا تھا لیکن اس کے اندر fairness تھی اور عام انسانوں کے ساتھ ہمدردی کا بے پناہ جذبہ تھا۔
اس دوران جنرل ضیاکو MRD تحریک نے پریشان کیا ہوا تھا۔ وزیراعظم بھٹو کو حکومت سے ہٹانے اور پھر پھانسی لگانے کی وجہ سے سندھ میں بہت زیادہ عوامی ری ایکشن کا سامنا تھا۔ اگرچہ سندھ میں بظاہر خاموشی تھی لیکن اندر کھاتے غصہ اُبل رہا تھا۔ سندھی سیاستدان خصوصا ًپیپلز پارٹی کے لیڈر لوگوں میں یہ بیانیہ بنا رہے تھے کہ سندھ کا گورننس میں کوئی رول نہیں۔ سارا ٹیکس کراچی سے اکٹھا کر کے دوسرے صوبوں پر خرچ کیا جارہا تھا۔ جنرل ضیابھی دادُو میں پیش آنے والے واقعہ سے بہت پریشان تھے جہاں ایم آر ڈی ورکرز نے جنرل ضیا کے سرکاری دورے کو بہت خراب کیا تھا۔ جنرل ضیادراصل غیرجماعتی الیکشن بھی اس لیے کرانا چاہتے تھے تاکہ ایم آر ڈی کے تھریٹ کو کاؤنٹر کر سکیں لیکن اس معاملے پر گورنر ایس ایم عباسی تشدد کی بجائے سافٹ لائن لینے کے قائل تھے۔ انہیں خدشہ تھا کہ جنرل ضیاکے خلاف مظاہروں کو کچلنے کیلئے طاقت کا استعمال کیا گیا تو اس کا برُا نتیجہ نکلے گا۔ اس بات کو جنرل ضیانے پسند نہیں کیا اور جب ایم آر ڈی نے سندھ میں زور پکڑنا شروع کیا تو جنرل ایس ایم عباسی کو گورنر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ۔
گورنر سندھ کے عہدے سے ہٹائے جانے کے کافی عرصہ بعد جب وہ فوج سے ریٹائرڈ ہو چکے تھے تو جنرل ایس ایم عباسی نے سلمان فاروقی کو راولپنڈی اپنے گھر دعوت دی۔وہ اپنے ذاتی یا گھریلو معاملات کسی کے ساتھ ڈسکس کرنے پر یقین نہیں رکھتے تھے تاہم سلمان فاروقی کو حیرانی ہوئی جب جنرل نے اپنا دل کھول کر سلمان فاروقی کے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ اُن کی بیٹی لاء گریجویٹ تھی‘ اس نے ابھی CSS کا امتحان دیا تھا۔ اگرچہ اس نے تحریری امتحان میں اچھے نمبرز لیے لیکن اسے پبلک سروس کمیشن کے انٹرویو میں شدید مسئلے کا سامنا کرنا پڑا۔ کمیشن کا سربراہ جو سندھ سے تھا‘ نے ان کی بیٹی کو انٹرویو میں طعنہ دیا کہ اس کا باپ وردی پہن کر سندھ کا گورنر کیوں لگا ‘ خصوصا ًجب اس کا تعلق سندھ سے بھی نہیں تھا۔ چیئرمین نے کچھ اور بھی نامناسب کمنٹس ان کے حوالے سے کیے تھے۔ جنرل ایس ایم عباسی نے دکھی دل کے ساتھ کہا کہ ان کی بیٹی کے کیرئیر کا فیصلہ وہیں کر دیا گیا۔ اسے انٹرویو میں فیل کر دیا گیا۔ سابق گورنر ایس ایم عباسی اپنی بیٹی کے ساتھ ہونے والے اس امتیازی سلوک پر شدید ہرٹ تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے سندھ میں اپنے تئیں پوری محنت‘ ایمانداری اور انصاف کے ساتھ کام کیا پھر بھی بیٹی کا کیرئیر صرف اس لیے تباہ کر دیا گیا کہ سابق گورنر کی بیٹی تھی جس کا تعلق سندھ سے نہیں تھا۔
( یہ کالم سابق بیوروکریٹ سلمان فاروقی کی بائیوگرافی ''Dear Mr Jinnah‘‘ کے ایک باب سے متاثر ہوکر لکھا گیا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved