کوئی بھی حکومت جب کوئی بجٹ پیش کرتی ہے تو اُس میں اپنی آمدن اور اخراجات کا تخمینہ لگاتی ہے۔ اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ حکومت کو کس قدر آمدنی حاصل ہو گی اور وہ اس رقم کو مختلف شعبوں میں کیسے خرچ کرے گی۔ اس سے حکومت کو اپنے وسائل کا موثر طریقے سے انتظام کرنے اور اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ بجٹ حکومت کی ترجیحات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ کس شعبے پر کتنی توجہ دے رہی ہے۔ اگر حکومت صحت کے شعبے پر زیادہ رقم خرچ کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اس شعبے کو ترجیح دیتی ہے۔ بجٹ عوام کو یہ بتانے کا ایک طریقہ بھی ہے کہ حکومت ان کے پیسے کیسے خرچ کر رہی ہے۔ صوبے اپنے اخراجات کا بڑا حصہ محصولات کی صورت میں وفاق سے حاصل کرتے ہیں اس لیے یہ ضروری ہے کہ وفاق پہلے اپنے بجٹ کا اعلان کرے اور صوبوں کے لیے وفاقی بجٹ میں رقم مختص کرے۔ اس سے صوبوں کو یہ اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے کہ انہیں وفاق سے کتنا فنڈ ملے گا‘ اس سے وہ اپنے اخراجات اور ترقیاتی منصوبوں کی منصوبہ بندی اس کے مطابق کر سکتے ہیں۔ خیبرپختونخوا نے مگر ماضی کی تمام تر روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وفاق سے پہلے اگلے مالی سال کے لیے 1754 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔ وزیر خزانہ خیبرپختونخوا آفتاب عالم کے بقول یہ بجٹ 100ارب روپے سرپلس ہے کیونکہ محصولات کا ہدف 1754ارب روپے رکھا گیا ہے جبکہ اخراجات کا تخمینہ 1654ارب روپے ہے۔ خیبرپختونخوا کے بجٹ کو ایک سطر میں سمجھا جا سکتا ہے اس لیے کہ صوبے کو محصولات کی مد میں وفاق سے 1212ارب روپے موصول ہوں گے۔ اس کے علاوہ ضم شدہ اضلاع کیلئے الگ سے 259ارب روپے موصول ہوں گے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صوبائی بجٹ کا تمام تر انحصار وفاق سے ملنے والے فنڈز پر ہے۔ یوں وفاقی بجٹ سے پہلے صوبائی بجٹ پیش کرنے سے کچھ تخمینے غلط ہو سکتے ہیں۔ اگر وفاقی حکومت صوبوں کے لیے مختص کی جانے والی رقم میں کمی کرتی ہے تو صوبائی حکومتوں کو اپنے بجٹ میں کٹوتی کرنی پڑ سکتی ہے۔ اسی طرح بجٹ میں کئی تخمینے ایسے لگائے گئے ہیں جن کا پورا ہونا بہت مشکل ہے جیسا کہ وفاق سے بقایا جات کی مد میں 37ارب 10 کروڑ ملنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ وفاق کیساتھ پن بجلی بقایا جات کے متنازع 41ارب کو بھی بجٹ میں شامل کیا گیا ہے حتیٰ کہ قبائلی اضلاع کیلئے تین فیصد شیئر کی مد میں دیگر صوبوں سے آمدن کو بھی بجٹ میں ظاہر کیا گیا ہے۔ بجٹ میں کہا گیا ہے کہ قبائلی اضلاع کیلئے پنجاب سے 28ارب 80کروڑ‘ سندھ سے 11ارب 30کروڑ اور بلوچستان سے چار ارب 20 کروڑ حاصل ہوں گے۔ قبائلی اضلاع کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے وقت دوسرے صوبوں نے این ایف سی ایوارڈ کا تین فیصد خیبرپختونخوا کو مالی تعاون کی مد میں دینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ پنجاب اور سندھ نے چند برسوں تک تعلیم‘ صحت اور انفراسڑکچر کیلئے خیبرپختونخوا کے ساتھ تعاون کیا تاہم اب ہر صوبے کے اپنے مسائل ہیں۔ پنجاب اپنے حصے کے فنڈز میں سے بلوچستان کے ساتھ بھی تعاون کرتا ہے‘ یہ کوئی پابندی نہیں ہے بلکہ اخلاقی طور پر بڑے صوبے پسماندہ صوبوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی جب وفاق میں حکومت تھی تو وہ صوبوں سے مطالبہ کرتی رہی کہ قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کے حصص کی مناسبت سے قبائلی علاقوں کی ترقی اور صحت کے شعبے میں بہتری کیلئے آئندہ سال کے اپنے بجٹ میں سے مشترکہ طور پر 110ارب روپے مختص کریں‘ تاہم اسی دور میں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے قبائلی اضلاع کیلئے سب سے کم فنڈز فراہم کیے۔ 2018ء میں قبائلی اضلاع کا خیبرپختونخوا میں انضمام ہوا‘ اسی برس خیبرپختونخوا اور وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی۔ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں وفاق سے قبائلی اضلاع کو 500 ارب روپے ملنے تھے مگر نہیں ملے۔
خیبرپختونخوا اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد اللہ نے کہا ہے کہ صوبے نے وفاق سے قبل بجٹ پیش کرکے روایات کو توڑ دیا ہے۔ ڈاکٹر عباد اللہ کے مطابق پورا بجٹ مفروضوں پر مبنی ہے۔ جب وفاق نے بجٹ پیش ہی نہیں کیا ہے تو صوبے کو ملے گا کیا؟ کئی وفاقی وزرا نے خیبرپختونخوا حکومت کے اقدام کو غیرذمہ داری کے مظاہرے سے تعبیر کیا ہے۔تخمینوں اور امیدوں پر مبنی بجٹ کو سرپلس قرار دینا قرینِ انصاف نہیں ہو گا۔ البتہ خیبرپختونخوا کا قبائلی اضلاع کی تعمیر و ترقی کیلئے فنڈز کا دعویٰ درست ہے۔ وفاق اور خیبرپختونخوا حکومت نے ضم شدہ اضلاع میں بنیادی ڈھانچے‘ تعلیم اور صحت کی خدمات کو بہتر بنانے کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔ ان میں ضم شدہ اضلاع میں نئی سڑکیں بنانا‘ تعلیم اور صحت کی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے پروگراموں کو تیار کرنا شامل تھا۔ وفاقی حکومت نے سالانہ 100ارب روپے کے حساب سے قبائلی اضلاع کو پانچ برسوں کیلئے 500ارب روپے فراہم کرنے تھے۔ یہ رقم ایک سو ارب کی فراہمی تک محدود رہی۔ اگرچہ اس کی ذمہ دار بھی پی ٹی آئی ہی ہے‘ ہم یہاں تک صوبے کے موقف کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں کہ وفاقی حکومت‘ خیبرپختونخوا حکومت اور ضم شدہ اضلاع کے عوام کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ضم شدہ اضلاع کو جو فنڈز پہلے نہ مل سکے اس کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ یہ کام مرحلہ وار بھی ہو سکتا ہے۔ ضم شدہ اضلاع کے عوام کو وہ وسائل اور مواقع فراہم کیے جائیں جن کی انہیں ترقی کیلئے ضرورت ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کہتے ہیں کہ صوبے کا بجٹ فلاحی اور عوام دوست ہے‘ ہماری تیاری مکمل ہے اس لیے بجٹ پہلے پیش کر رہے ہیں‘ وفاقی بجٹ میں صوبائی بجٹ پر اثر انداز ہونے والے عوامل کا ہم خود تدارک کر لیں گے۔ صوبے کے وسائل محدود ہیں تو وزیراعلیٰ وفاقی بجٹ کے بعد پیدا ہونے والے مالی خلا کو کیسے پورا کریں گے‘ یہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ خیبرپختونخوا نے وفاق سے پہلے بجٹ پیش کر کے سیاسی محاذ آرائی کو ہوا دی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وفاقی حکومت کو بجٹ پیش کرنے میں آئی ایم ایف کی پابندیوں کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف بجٹ میں اپنی شرائط پیش کر رہا ہے۔ وفاق کو آئی ایم ایف کی شرائط پر مکمل عملدرآمد کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کیونکہ ہمیں فوری طور پر آئی ایم ایف سے نیا قرض پروگرام حاصل کرنا ہے۔ ایک ایسے وقت میں‘ جب ملک کو آئی ایم ایف پروگرام کی اشد ضرورت ہے اور حکومت معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے‘ صوبوں کی طرف سے عدم تعاون وفاق کی مشکلات کو بڑھا دے گا۔
خیبرپختونخوا کے مشیر خزانہ مزمل اسلم نے وفاق سے پہلے بجٹ پیش کرنے کو تاریخ رقم کرنے سے تعبیر کیا ہے حالانکہ یہ سیاسی حربہ ہے اور دراصل اسی سوچ کا تسلسل ہے جس کا اظہار کچھ عرصہ قبل آئی ایم ایف کو خط لکھ کر قرض دینے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی صورت کیا گیا تھا۔ وفاق کی مخاصمت میں خیبرپختونخوا حکومت کے اس اقدام کا نتیجہ اگر فنڈز کی دستیابی میں تاخیر کی صورت میں نکلتا ہے تو یہ 'پایا کم اور کھویا زیادہ‘ کے مترادف ہو گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved